الیکشن کمیشن کے منفی رویے پر قدغن ضروری

ڈاکٹر جہاں گیر حسن
بلاشبہ جمہوریت کی بنیاد عوامی رائے پر ہے۔ اگر عوام کی رائے درست طور پر حکومتی ایوانوں تک پہنچتی ہے تو ہی جمہوریت کو حقیقی کہا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے آزادانہ اورغیرجانبدار اِنتخابات بنیادی شرط ہیں۔ انتخابات کے اِس پورے عمل کی نگرانی اور ضابطے کی ذمے داری جس ادارے پر عائد ہوتی ہے، وہ ہے الیکشن کمیشن۔ یہ ادارہ جمہوریت کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا اُس کا رویہ واقعی جمہوریت کو مضبوط کر رہا ہے؟ واضح رہے کہ کسی بھی جمہوری نظام میں کمیشن کی حیثیت ایک ریفری کی ہوتی ہے جواِنتخابی پروگرام کو قواعد و ضوابط کے مطابق انجام تک پہنچاتا ہے۔ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو ملک کے دستور کے تحت وجود میں آیا۔ اِس ادارے کا اصل مقصد اِنتخابی عمل کو منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور صاف و شفاف رکھنے کے ساتھ جملہ رائے دہندگان کوہرطرح کے دباؤ اور لالچ سے محفوظ رکھنا ہے۔ نیز سیاسی جماعتوں کے درمیان مساوات قائم رکھنا بھی۔
تاریخی پس منظرمیں دیکھا جائے توہندوستان کے اندر کمیشن کا قیام ۱۹۵۰ء کو عمل میں آیا۔ ابتدا میں یہ ادارہ محض انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ووٹنگ کے انتظام تک محدود تھا، لیکن وقت کے ساتھ اُس کے اختیارات اور ذمے داریاں بڑھتی گئیں۔ ۵۲-۱۹۵۱ء سے پہلے عام انتخابات میں کمیشن کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پھر بھی انتخابی عمل کامیابی کے ساتھ مکمل ہوتا رہا۔ بعد کے ایام میں جب سیاسی مقابلے سخت ہوئے تو کمیشن کی غیر جانبداری اور صلاحیت کوبھی جانچا اور پرکھا جانے لگا۔ ۱۹۹۰ء میں ٹی این سیشن جیسے چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی ادارے کو نئی توانائی بخشی اورکچھ سخت ایکشن لیتے ہوئے انتخابی ادارے کے وقار میں کافی کچھ اضافہ اوراس شعبے کو مستحکم کیا۔ اُنھوں نے ووٹر فہرستوں کو بہتر بنانے، نقلی ووٹوں کو روکنے اور جعلی ووٹر کوختم کرنے کے لیے کئی بنیادی اقدامات کیے، جن کی وجہ سے ووٹنگ کی طاقت پرعوام کا اعتماد بحال ہوا اور اُس میں مضبوطی بھی آئی۔ کمیشن کا سب سے اہم کارنامہ ’’ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ ہوتا ہے، یعنی انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کو ایک خاص دائرے میں محدود رکھنا، مذہب اور ذات وطبقات پر مبنی سیاست کی روک تھام کرنا اور عوامی وسائل کے غلط اِستعمال پر کنٹرول رکھنا وغیرہ۔ حالاں کہ جب سے ای وی ایم مشین آئی ہے اُس نے انتخابی عمل میں تیزرفتاری اور کافی سہولتیں پیدا کی ہیں اور نظام انتخاب کو بہتر سے بہتراور قابلِ اعتماد بنایا ہے۔ لیکن اِسی کے ساتھ اِس کے بہت سارے مضر پہلو بھی سامنے آئے ہیں، اور یہ مضرپہلواُس وقت ظاہر ہوتا ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، جب کمیشن کسی طاقت سے متأثرومرعوب ہوتا ہے یا پھر حکومتی اشاروں پر فیصلے لینا شروع کردیتا ہے۔ مثلاً: اِنتخابی ضابطۂ اخلاق توڑنے پرحکمران جماعت کوایک طرف صرف رسمی نوٹس دیا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف اپوزیشن اورکمزور اُمیدواروں پر سخت تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ اکثر اِنتخابی جلسوں میں نفرت انگیز تقریریں، مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے نعرے اور زرِ کثیر کا اِستعمال کھلے عام ہوتا ہے مگراُس پر بھی کمیشن دانستہ وشعوری طورپرخاموشی اختیار کیے رہتا ہے۔ پھرجب ای وی ایم پر سوالات اُٹھائےجاتے ہیں کہ یہ مشینیں ہیک ہو سکتی ہیں، بلکہ ای وی ایم مشینوں کو ہیک کیا جارہا ہے، پھربھی کمیشن کی طرف سے کوئی تشفی بخش جواب نہیں آتا اورمعترضین کے شکوک و شبہات دور نہیں کیے جاتے۔
اِس پس منظر میں ۲۰۱۹-۲۰۲۴ء کے طرزِانتخابات سرفہرست ہیں جنھوں نے اپوزیشن سے لے کر عوام تک کے اعتماد ہی کو نہیں، بلکہ جمہوری نظام کوبھی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ متاثرہ افراد کی طرف سے متعدد بار یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ حکمران طبقہ نے متحدہ عوامی وسائل اورپبلک فنڈز کا اِستعمال ذاتی انتخابی مہم کے لیے کیا ہے، جیسے انتخاب سے ٹھیک پہلے متعدد سرکاری پروجیکٹس کا اعلان وغیرہ۔ نیزجعلی اور مشکوک ووٹرز کے اندراجات، ای وی ایم کی گنتی اورہاتھ کی گنتی کے درمیان میں واضح فرق، جعلی خبروں کی تشہیراور پروپیگنڈہ، انتخابی رزلٹ کولمبے وقت تک زیرِاِلتوا رکھنا، ووٹوں کی گنتی کے درمیان اعداد وشمار کو حسب ضابطہ ظاہر نہ کرنا اوردانستہ پردۂ خفا میں رکھنا، ماڈل کوڈ کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے ردّ عمل میں کارروائیاں نہ کرنا، یا پھرتاخیر یا خاطر خواہ کارروائی نہ کرنا وغیرہ قابل ذکر اُمور ہیں۔ مزید حکمران طبقہ کی طرف سے منظم ذات اور مذہب پر مبنی تقاریر کیا جانا۔ مسئول وزرا کا مذہبی جذبات اُبھارنے والے بیانات دینا۔ قبرستان، شمشان اورہندو-مسلم کی بنیاد پر ووٹنگ کی بات کرنا۔ اقلیتی طبقہ کوجبراً ووٹنگ کرنے سے روکا جانا، جس میں بذات خود ایڈمنسٹریشن شامل رہتا ہے، پھر بھی کمیشن کی طرف سے کوئی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا۔ یہ تمام باتیں کمیشن کے جانبدارانہ رویے کے شاہد بین ہیں۔ حد تک تو یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء میں کمیشن کی تعیناتی عمل اور قانونی اصلاحات سے متعلق خاموشی سے ایک قانون بھی پاس کردیا گیا جو چیف انتخابی کمشنر اور دیگر کمشنرزکی تقرری کے نئے اُصول وضابطے پر مشتمل ہے اورجس کی رو سے کمیشن کوتمام طرح کے قوانین سے آزاد کردیا گیا ہے۔ کمیشن کچھ بھی کرے اُس پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوسکتا۔ بایں سبب اپوزیشن، کمیشن کو کلی طورپر مرکزی حکومت کے زیراِثر بتارہا ہے کہ کمیشن کی حیثیت محض ایک ریموٹ کنٹرول کی سی رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں ۲۰۲۴ء کے انتخابی عمل سے متعلق اپوزیشن نے یہ بھی الزام لگایا کہ کچھ حلقوں کے اندر ووٹرلسٹ میں برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے، جو سراسرغیرقانونی معلوم پڑتا ہے۔ جیسا کہ بنگلورکے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ میں تقریباً ۱۴-۱۵؍ لاکھ ووٹرزکا اضافہ ہوا ہے۔پھرایک ہی شخص کے نام سے متعدد ووٹراِندراجات پائے گئے ہیں اورایک ہی ایڈریس پر سیکڑوں ووٹرزبھی دریافت ہوئے ہیں۔ بقول کانگریس: کمیشن کا واضح طورپراِنتخابی ڈیٹا کا شائع نہ کرنا، سی سی ٹی وی فوٹیج قبل از وقت حذف کردینا اور پولنگ بوتھوں کی نگرانی میں دانستہ جانبداری سے کام لینا، یہ تمام باتیں عوامی وجمہوری اعتماد کوسخت نقصان پہنچاتی ہیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ریاست بہار میں اِنتخابی فہرستوں کی خصوصی تحقیق ( SIR)کے نام پرعوام وخواص کوایک مخصوص فارم جمع کرنے کو کہا گیا اورجن ضروری دستاویزات کو لازمی قرار دیا گیا، جن کی فراہمی اگرچہ ناممکن نہیں، لیکن اِنتہائی دشوار گزارضرورثابت ہوا، اور اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ملکی باشندے جن کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں تھیں وقت مقررہ پر فارم نہ بھر سکیں اور یوں لاکھوں لاکھ اوریجنل ملکی باشندے اپنے حق رائے دہی سے محروم کردیے گئے ہیں۔ حالاں کہ اپوزیشن اورسیاسی مبصرین نے اِس معاملے کو عدالت عظمیٰ تک پہنچایا بھی اورقانونی لڑائی بھی لڑی۔ نیزعدلیہ نے بھی اِس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور کمیشن کوتادیباً وتنبیہاً معقول باتیں کہیں۔ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ عدلیہ کی تنبیہ وتاکید کے باوجود کمیشن کا رویہ کچھ نہیں بدلا اورآج بھی اُس کا طرزِعمل جوں کا توں مشکوک ومنفی ہے۔ لہٰذا یہ نہ صرف جمہوریہ ہند کے لیے سخت خطرے کی گھنٹی ہے، بلکہ کمیشن کا یہ جانبدار اور غیرمنصفانہ عمل، عوام وخواص اور ملک ومعاشرت دونوں کی تعمیر وترقی کے لیے ایک بڑی روکاوٹ ہے۔
بہرحال! موجودہ وقت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے رہنے کا نہیں ہے، اور نہ ہی ایک دوسرے کا منھ تکنے کا ہے۔ بلکہ حکمت عملی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کا ہے اور دستورِ ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے ہراُس شخص سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے جوہمارے ملک وقوم کی تعمیروترقی اورمنافع ومصالحت کے خلاف ہے۔ اِس موقع پر یہ دیکھنا اہم نہیں ہے کہ کون ہماری برادری کا ہے اور کون ہمارے مذہب کا ہے، بلکہ اِس وقت صرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک و معاشرت کی جملہ آزادی اور تمام طبقات کے جملہ حقوق کی برآری میں کون بہترمعاون ومدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ آج کے سیاسی شاطربازوں کا مقابلہ ہم اورآپ صرف اور صرف اپنے ووٹ کی طاقت سے ہی کرسکتے ہیں، اِس لیے ہم لوگوں کو بہرصورت جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا اوراپنے ووٹ کا درست استعمال کرنا ہوگا کہ اِسی سے حکمراں طبقہ بھی قابومیں رہ سکتا ہے اوراِلیکشن کمیشن پرقدغن بھی لگایا جاسکتا ہے۔