ریزرویشن مذہبی بنیادپرنہیں،بلکہ پسماندگی کی بنیاد پرہے۔منسٹرغلام ربانی

مغربی بنگال حکومت نے مسلمانوں سمیت پسماندہ طبقات کے لیے مذہب نہیں بلکہ سماجی و معاشی پسماندگی کی بنیاد پر او بی سی ریزرویشن نافذ کیا، جسے سیاسی مخالفت اور عدالتی چیلنجز کا سامنا ہے۔
رپورٹ: محمد شہباز عالم
ریاستِ مغربی بنگال میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے ریزرویشن سے متعلق ریاستی حکومت کی پالیسی کو لے کر پچھلے دو سالوں سے میڈیا، عدالت اور سیاسی حلقوں میں مختلف قسم کی گفتگو جاری ہے۔ اس موقع پر حکومتِ مغربی بنگال کے وزیر برائے غیر روایتی و قابل تجدید توانائی، جناب غلام ربانی صاحب نے ایک تاریخی تمہید کے ساتھ ان تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیتے ہوئے کہا:
“انگریزی دور حکومت میں کولکاتا ہندوستان کا راجدھانی تھا، اور مسلمانوں ہی سے حکومت چھین کر انگریزوں نے یہاں راج کرنا شروع کیا۔ اس بنا پر مغربی بنگال میں انگریزی عہد میں مسلمان بڑی تعداد میں سرکاری ملازمتوں میں موجود تھے۔ مگر آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر سوتیلا سلوک شروع ہو گیا۔”
غلام ربانی صاحب نے مزید کہا کہ جب سدھارتھ شنکر رائے (کانگریس) 1972 سے 1977 تک وزیر اعلیٰ رہے تو مسلمانوں کی حصہ داری سرکاری ملازمتوں میں گھٹ کر صرف سات فیصد رہ گئی۔ پھر بائیں محاذ (لیفٹ فرنٹ) کے دورِ حکومت میں تو سوتیلے پن کی انتہا ہو گئی اور مسلمانوں کی شراکت ایک فیصد سے بھی کم ہو گئی، حالانکہ لیفٹ حکومت نے ۳۴ سالوں تک مسلمانوں کو سبز باغ دکھا کر حکومت کی۔
ممتا بنرجی حکومت کا انقلابی قدم
ترنمول کانگریس کی حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی نے سب سے پہلا قدم مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی بدحالی کو دور کرنے کے لیے اٹھایا۔ انہوں نے جسٹس راجندر سچر سے رابطہ کیا جنہوں نے 2006 میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر ایک تہلکہ خیز رپورٹ مرکزی حکومت کو پیش کی تھی۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ممتا حکومت نے درج ذیل عملی اقدامات کیے:
مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا۔
اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کے لیے 17 فیصد ریزرویشن مختص کیا گیا۔
لیکن مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے فقدان کی وجہ سے یہ کوٹے پُر نہ ہو سکے، کیونکہ عام طور پر غربت کی وجہ سے طلبہ روزگار کی تلاش میں دہلی، ممبئی، ہریانہ، پنجاب، کشمیر یا خلیجی ممالک کی طرف چلے جاتے ہیں۔
ممتا بنرجی حکومت نے تعلیمی بیداری کے لیے مسلم طلبہ و طالبات کو اسکالرشپ دینا شروع کیا تاکہ اعلیٰ تعلیمی ماحول فروغ پائے۔
یہ تمام اقدامات مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ مسلمانوں کی مجموعی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی پسماندگی کی بنیاد پر کیے گئے، جیسا کہ غلام ربانی صاحب نے واضح کیا۔
سیاسی مخالفت اور قانونی رکاوٹیں:
غلام ربانی صاحب نے بتایا کہ سی پی آئی ایم، بی جے پی اور کانگریس نے ایک غیر اعلانیہ اتحاد کے تحت اس ریزرویشن کو کولکاتا ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جس کی وجہ سے گزشتہ برس کلکتہ ہائی کورٹ نے اس پر عمل درآمد روک دیا۔ اب بی جے پی نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے اور یہ معاملہ اب زیرِ التواء ہے۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا اسمبلی میں دوٹوک اعلان:
۱۰ جون ۲۰۲۵ کو مغربی بنگال اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے او بی سی ریزرویشن پر اعتراضات کے بعد محترمہ ممتا بنرجی نے پُرزور انداز میں اسمبلی سے خطاب کیا اور صاف کہا:
“ریاستی حکومت کی او بی سی پالیسی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف اور صرف معاشی و سماجی پسماندگی کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ:
مجموعی طور پر ۱۴۰ برادریوں کو او بی سی فہرست میں شامل کیا گیا ہے:
۴۹ برادریاں او بی سی (اے) میں
۹۱ برادریاں او بی سی (بی) میں
ان ۹۱ برادریوں میں:
۶۱ ہندو برادریاں
۳۰ مسلم اور دیگر اقلیتی برادریاں شامل ہیں
مزید ۵۰ نئی برادریوں کا سروے جاری ہے۔
محترمہ بنرجی نے یہ بھی کہا:
“یہ پالیسی ویسٹ بنگال کمیشن فار بیک ورڈ کلاسز (2024-25) کی سفارشات پر مبنی ہے اور اسے کابینہ کی منظوری حاصل ہے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی پر عوام کو گمراہ کر رہی ہے کیونکہ ہماری حکومت کی او بی سی پالیسی مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محرومی کی بنیاد پر ہے۔
مستقبل کی یقین دہانی:
ریاستی حکومت نے بھی اس پالیسی کے حق میں سپریم کورٹ میں اپیل کر دی ہے اور جب تک عدالت کوئی فیصلہ نہ دے، ممتا حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ، ملازمتوں میں تقرری اور اسکالرشپ کی فراہمی او بی سی ریزرویشن کی بنیاد پر جاری رہے گی۔
محترمہ ممتا بنرجی اور غلام ربانی صاحب کے بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترنمول کانگریس کی حکومت اقلیتوں کے ساتھ سوتیلا نہیں، بلکہ مساوی سلوک کر رہی ہے۔ ریزرویشن کا مقصد کسی مذہب کو فوقیت دینا نہیں، بلکہ ان طبقات کو ترقی کی راہ پر لانا ہے جو دہائیوں سے محرومی، غربت، بے روزگاری اور جہالت کا شکار رہے ہیں۔