قطب الاقطاب حضرت شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری

مولانا محمد عارف اللہ فیضی مصباحی
سابق نائب پرنسپل: مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ضلع مئو
آپ کانام محمد رشید ،کنیت ابوالبرکات ، لقب شمس الحق تھا۔لو گ قطب الاقطاب اور دیوان جی کہتے ۔آپ کا فقہی مذہب حنفی ،مشرب چشتی اور نسب عثمانی تھا ۔موضع برونہ ، ضلع جون پورمیں یکم ذی القعدہ ۱۰۰۰ھ مطابق ۱۹ ؍اگست ۱۵۹۲ء میں پیدا ہوئے اوریہیں نشو و نما پائی ۔
تحصیل علوم :
قرآن کریم اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں مختلف اساتذہ سے اور باقی تمام کتابیں اپنے حقیقی ماموں حضرت مولانا شمس الدین اور استاذ العلماء حضرت شیخ محمدافضل جون پوری- علیہما الرحمہ -سے پڑھیں ۔
تکمیل درسیات کے بعد امام المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محد ث دہلوی -علیہ الرحمہ- کے درسِ حدیث سے مستفیض ہو نے کے لیے آپ دہلی تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ اس وقت بڑھاپے کی وجہ سے تدریس کا سلسلہ موقوف کر چکے تھے اور ان کے صاحب زادے حضرت شیخ نور الحق مسند ِتدریس حدیث پر جلوس فرماتھے اس لیے حضرت شیخ نےفرمایا کہ’’ آپ میری موجودگی میں نور الحق سے پڑھا کریں‘‘۔ چناں چہ حضرت شیخ کی موجودگی میں آپ کے درس کاسلسلہ جاری رہ کر اپنے اختتام کو پہنچا اور آپ اجازتِ حدیث سے نوازے گئے ۔
تدریس :
اپنے مرشد حضرت شیخ طیب بنارسی رحمہ اللہ کی تاکید پر عمل کر تے ہو ئے آپ ہمیشہ طالبانِ علوم کو درس دیا کرتے ۔ آپ کے شاگرد بہت تھے جن میں اکثر آپ کے مریدو خلیفہ تھے ۔
ارادت و خلافت :
نو برس کی عمر میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ مصطفی جمال الحق- علیہ الرحمہ- سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہو ئے اور انھیں کے ہاتھوں کلاہ ِارادت و خرقۂ خلافت پہنا ۔
- حضرت مخدوم طیب بنارسی- رحمہ اللہ تعالیٰ -نے عین عید کے دن مجمعِ عام میں حضراتِ مشائخ چشت کی طرف سے آپ کو اپنا پیر اہن پہنا یا اور سلسلۂ چشتیہ کے اذکار و تلقین کی اجازت دے کر جون پور کے لیے رخصت فرمایا.
آپ نے سلسلۂ قادریہ و سہروردیہ وغیرہ بھی حضرت مخدوم سے حاصل کیے ۔
- حضرت میر شمس الدین کالپوی نے خلافت و اجازت عطا کر نے کے ساتھ اذکار و اشغال کی بھی تلقین فرمائی ۔
- حضرت شیخ عبد القدوس جو ن پوری سے سلسلۂ قلندریہ کی خلافت و اجازت ملی اور سلسلۂ فردوسیہ و مداریہ بھی انھیں سے حاصل کیا ۔
- حضرت راجی سید احمد بن مجتبیٰ حلیم اللہ مانک پوری نے سلسلۂ چشتیہ و قادریہ کی خلافت و اجازت عطا کی ۔
کچھ اوصاف و معمو لات :
عالم ، عامل ، درویشِ کامل ، صاحبِ کرامت و تصوف ، صاحبِ کشف ایسے کہ آپ کی مجلس میں مدعا ے دلی کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی ۔ بڑے قناعت پسند اور بے نیاز ، عابدِ شب زندہ دار ۔ اٹھتے بیٹھتے ’’اللہ اللہ ‘‘وردِ زبان رہتا ۔ سلاطین و امرا کے در پر اسی وقت جاتے جب کسی سید یا غریب کی کوئی غرض اٹکتی اور بلاتا مل ضرورت پوری کراتے ۔ دنیا داروں کو خط لکھنے میں پہل نہیں کرتے ۔ قاضی سے کسی معاملے میں سفارش نہیں کر تے ۔ کل کا لفظ ان شاء اللہ ملائے بغیر نہیں بولتے ۔ تہذیب و ادب کا لحاظ بہت کرتے ۔ کسی معاملے میں دوست یاآشنا کی کوئی رعایت نہیں کرتے ۔ بزرگوں خصوصاً ہر طریقۂ نبوی کاا تباع کرتے ۔ تسلیم و رضا کا یہ حال کہ جو کچھ کھانا مل گیا کھا لیا اور جو کچھ پہننے کو مل گیا پہن لیا ۔
دواؤ ں کے افعال و خواص پر اعتماد نہیں کر تے تھے ۔ فرماتے کہ مؤ ثر ِحقیقی تو خدا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو گرم کو سرد اور سرد کو گرم کردے ۔ سماع سے انکار نہ تھا مگر شریعت کی پابندی غالب تھی۔ کسی کی غیبت سننا پسند نہیں کر تے ۔ اگر آپ کی اس عادت سے نا واقف کوئی شخص کسی کی غیبت کر بیٹھتا تو اس کی کوئی اچھی تاویل فرماتے ۔
تصانیف:
(۱) شریفیہ کی شرح مناظرہ رشیدیہ : یہ عربی زبان میں فن مناظرہ پر مختصر مگر نہایت جامع کتاب ہے ۔ اس کی شہرت نہ صرف سر زمین ہند بلکہ عالمِ اسلام میں بھی ہے ۔
(۲) بدایۃ النحو : یہ رسالہ بھی علم نحو میں ہے جو اپنے بڑے بیٹے حضرت شیخ محمد حمید کے لیے لکھا ۔
(۳) تذکرۃ النحو : یہ رسالہ اپنے صا حب زادے حضرت شیخ محمد ارشد کے پڑھنے کے لیے لکھا۔ اب’’ خلاصۃ النحو ‘‘کے نا م سے ’’ نحومیر‘‘ کے آخر میں مطبوع ہے۔
(۴) ترجمۂ معینیہ : یہ تذکرۃ النحو کا ترجمہ ہے ۔ اسے اپنے بیٹے شیخ غلام معین الدین کے پڑھنے کے لیے تحریر فرمایا ۔
(۵) زاد السالکین : یہ تصوف کے موضوع پر ہے ۔ اس کو اپنے پہلے فرزند حضرت شیخ عبدا لحمید کے لیے تحریر فرمایا ۔
(۶)مقصود الطالبین : یہ کتا ب بھی تصوف میں ہے ۔ اس میں معارف و حقائقِ تصوف کی باتیں مر قو م ہیں ۔
(۷) مکتوبا تِ رشیدیہ : ان خطوط کا مجموعہ جو اکثر خلفا کے نا م بطور جو اب لکھے گئے ۔
(۸)دیوانِ شمسی : یہ آپ کے فارسی و ہندی اشعار کا مجموعہ ہے ۔ تخلص : شمسیؔ تھا ۔ کلام معرفت خیز ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار بطور نمونہ ذکر کیے جاتے ہیں:
ہر نگاہِ او دعاے دیگر ست
پیچش زلفش بلاے دیگر ست
من بیک دم سیر عالم می کنم
روح را دستے و پاے دیگر است
از دلِ شمسیؔ دمے تمکیں مجوے
ہر دمش چوں ہو و ہاے دیگر ست
’’اس کی ہر نگاہ ایک دوسری دعا ( بلاوا) ہے ۔ اس کی زلف کی پیچ ایک دوسری بلا ہے ۔ میں ایک دم میں سیرِ عالم کر لیتا ہو ں کیو ں کہ روح کے دوسرے ہاتھ پاؤ ں ہیں ۔ اگر تو میرے بدن پر خنجر کے سوز خم لگائے تو بھی میں نہیں مروں گا کیوں کہ میری جا ن تو دوسری جگہ ہے ۔ شمسیؔ کے دل سے کبھی تمکین کی طلب مت کرو کیوں کہ اس کا ہر لمحہ دوسری ہوٗ ہا ہے‘‘ ۔
(۹)صاحب خزینہ الاصفیاء کے مطابق آپ نے شیخ اکبر کی تصنیف ’’ اسرار المخلو قات ‘‘ پر ایک بسیط شرح لکھی ہے ۔
(نوٹ) : اب تک’’ مناظرۂ رشیدیہ‘‘ اور’’ تذکرۃ النحو‘‘ ہی کی اشاعت ہو ئی ہے ۔
نکاح و اولاد :
۱۰۳۲ھ مطابق ۱۶۲۳ء میں ۳۲؍سال کی عمر میں حضرت حاجی ارزانی- قدس سرہ- کی صاحب زادی سے آپ کا عقد ہوا جن سے آپ کے چار فرزند ہو ئے ـ :
(۱)شیخ محمد حمید (۲) شیخ محمد ارشد سجادہ نشیں حضرت قطب الاقطاب رحمہ اللہ (۳) شیخ غلام معین الدین (۴) شیخ غلام قطب الدین ۔
خلفا:
آپ کے خلفا کی تعداد بہت ہے مگر۳۴ ؍خلفا با کمال اور جید تھے ۔
وصال :
آخر ماہ شعبان ( ۱۰۸۳ھ مطابق ۱۶۷۲ء ) سے آپ کو بخار آنا شروع ہوا ۔ بخار سے پیدا ہونے والی کم زوری و ناتوانی کے باوجود آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ نمازیں با جماعت اداکرتے۔ آخرش ۹؍رمضان( ۱۰۸۳ھ مطابق ۱۶۷۲ ء) رو ز جمعہ کی صبح کو نماز فجر کے وقت وصال فرما یا ۔ انا لله و انا الیه راجعون.جون پور خاص باغ میں جو اس وقت در گاہ کا احاطہ ہے مدفون ہو ئے ۔
(ماخوذ از تذکرۂ مشائخ رشیدیہ ،مطبوعہ آسی فائونڈیشن نئی دہلی)