قاضی عدالتوں کو قانونی حیثیت حاصل نہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ قاضی یا شریعت عدالتوں کے فیصلوں کی بھارتی قانون میں کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور ایسے فتوے یا احکامات کسی پر لازمی نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ “قاضی کی عدالت”، “دار القضاء”، یا “شریعت کورٹ” جیسی کسی بھی غیر رسمی عدالتی تنظیم کو بھارتی قانون میں کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے، اور ان کے فیصلے یا فتوے کسی بھی فرد یا ادارے پر لازمی نہیں ہیں۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس احسان الدین امان اللہ پر مشتمل بینچ نے یہ ریمارکس ایک خاتون کی جانب سے دائر اپیل پر سماعت کرتے ہوئے دیے، جس میں انہوں نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس میں انہیں نان نفقہ سے محروم رکھا گیا تھا۔ فیملی کورٹ نے خاتون کے کردار اور قاضی کی عدالت میں طے پانے والے ایک معاہدے کی بنیاد پر نان نفقہ مسترد کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ایسی شریعت عدالتوں یا قاضی کے فیصلوں کو قانونی حیثیت تبھی دی جا سکتی ہے اگر دونوں فریق خود اس پر رضا مند ہوں، اور وہ کسی موجودہ قانون سے متصادم نہ ہوں۔ ان فتووں کو زبردستی لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
پس منظر میں بتایا گیا کہ خاتون کا نکاح 2002 میں اسلامی طریقے سے ہوا، یہ دونوں کی دوسری شادی تھی۔ بعد ازاں کئی بار شریعت عدالتوں میں مقدمات چلے، جن کی بنیاد پر شوہر نے 2009 میں دار القضاء سے طلاق لی، اور اسی بنیاد پر فیملی کورٹ نے خاتون کا نان نفقہ کا دعویٰ خارج کر دیا۔سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ فیملی کورٹ کا یہ تصور کہ دوسری شادی میں دَہیز کا مطالبہ ممکن نہیں، قانون کے بنیادی اصولوں سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ عدالت نے شوہر کو ہدایت دی کہ وہ خاتون کو درخواست دائر کرنے کی تاریخ سے ہر ماہ 4000 روپے نان نفقہ کے طور پر ادا کرے۔