ادب سرائے

سائبر ایج میں اردو زبان کا فروغ

امتیاز سرمد

اسسٹینٹ پروفیسر:شعبۂ اردو، راجا سنگھ کالج، سیوان(بہار)

جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے لازمی تصویر کیا جارہا ہے۔ آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے۔ اس دور میں انٹرنیٹ کی موجودگی قوموں، اداروں اور افراد کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ابلاغ کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ ابلاغ کے اس نئے زاویے سے دنیا کے ایک کنارے پر بیٹھا شخص دنیا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے شخص سے ہم کلام ہونے لگا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس انقلابی دنیا کو سائبر اسپیس کا نام دیا گیا ہے۔ زبان اور ادب کا تعلق اسی معاشرے سے ہے اور ان پر بھی اس تبدیلی کا موجودہ دور میں ویساہی اثر ہوا ہے جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر ہوا ہے۔
اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے، اس تہذیب کا جس کے ہم پروردہ ہیں اور جس کی آبیاری نہ صرف ہمارے بزرگوں نے کی بلکہ آج کی نسل بھی اس کی ترقی و بقا کے لیے متحرک ہے۔ اس کے فروغ میں ماضی کی کاوشوں کے ساتھ عصرِ حاضر کی جدو جہد بھی لائق ستایش ہے۔ اردو کے تحفظ اوربقا کے لیے کسی نہ کسی طرح ہر زمانے میں پے در پے کوششیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ ہماری زبان میں رد و قبول کی صلاحیت موجود ہے۔اور یہی وصف اسے آج بھی زندہ و تابندہ کیے ہوئے ہے۔اردو زبان نے خوشگوار تبدیلیوں کا تو ہمیشہ خیرمقدم کیا مگر اپنی پرانی شناخت کو کسی بھی طرح معدوم نہ ہونے دیا۔اسی سبب اس کے ارتقا کے امکانات روشن ہوتےگئے۔
آج اردو کی نئی بستیاں آباد ہوتی جا رہی ہیں۔ اُن خطوں میںاردو نہ صرف بولی جا رہی ہے بلکہ وہاں سے اردو میں اخبارات و رسائل، شعری اورنثری مجموعے بھی شائع ہورہے ہیں۔ گویااردو کی یہ نئی بستیاں بھی اردوزبان و ادب کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔اردو زبان کے تئیں ان کی سنجیدگی اور دل چسپی نیک فال اور لائقِ تحسین ہے۔ اردو کی اِسی بڑھتی مقبولیت نے اِن ممالک میں نئی نسل میں اردو سے متعلق دل چسپی پیدا کردی ہے۔ یہ اردو زبان کے دوررَس اثرات ہی توہیں کہ میر و غالب کے اشعار نے غیر ملکیوں کو بھی اپنی طرف مائل کیاہے۔ جب کبھی کسی غیر اردو داں سے ہم اردو شعرا کے کلام سنتے ہیں تو فخروانبساط سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انگریزی کے بعد جس زبان نے وسیع تر علاقوںمیں ہجرت کی ہے، وہ اردو زبان ہے ۔
ہر زمانے میں اس زمانے کے تقاضے کے مطابق ادبا و شعرا زبان و ادب کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے فروغ میں قوموں کے آپسی اختلاط کے ساتھ سائنسی ایجادات بھی اثرانداز ہوئی ہیں۔ سائنسی ایجادات کا حیرت انگیز کرشمہ کمپیوٹر ہے۔ سائنسی ایجادات نے نہ صرف ہماری زندگی کو سہل بنا دیا ہے بلکہ بے شمار فوائد بخشتے ہوئے ہمارے قیمتی وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچا لیاہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کا انقلاب جب رونما ہوا تو اس نے ہمیں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے وابستہ کردیا۔اس سہولت نے جہاں ہمیں فائدہ پہنچایا، وہیں اس سے نقصانات کے اندیشے بھی جڑ پکڑنے لگے تھے۔مثلاً کمپیوٹر کے رواج نے خطوط نویسی کے چلن کو بہت زیادہ متاثر کردیاتھا۔ کچھ حدتک تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شاندار روایت بالکل اٹھ ہی چکی تھی۔ مگر آج بلاگ پوسٹ کی شکل میں لوگ ایک ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے سے تاثراتی،علمی و ادبی مذاکرے اور مباحثے میں شامل ہورہے ہیں۔ پیغامات کی ترسیل ای میل کی مدد سے پلک جھپکتے ہی ہوجارہی ہے۔ان روشن پہلوؤں کے اعتراف سے کس کو انکار ہو سکتاہے۔ موجودہ دور میں کمپیوٹر،ٹیلی فون ایسے ذرائع ابلاغ ہیں جنھوں نے ٹکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کمپیوٹر کے بعد لیپ ٹاپ، اور موبائل فون سائنسی ایجادات کے ایسے کرشمے ہیں جنھوں نے تصورات کو حقیقت کی شکل دے کر لفظ ’ناممکن‘ کو ہمارے تخیل کے پردے سے ہی محو کردیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے ترقی کرتے ہوئے دنیا کے فاصلے سمیٹ دیے ہیں اور ہم گلوبل ویلیج کی اصطلاح استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پھر جلد ہی اس نے ترقی کے ایک اور زینے کو عبور کیا جسے الیکٹرانک عہد سے تعبیر کیا گیا۔ یہیں سے ڈیجیٹل عہد کا تصور ابھرا اور اب ہم سائبر ایج میں جی
رہے ہیں۔
کمپیوٹر کی سہولتوں نے اردو والوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔پھر کیا تھا جلد ہی اردو کا یونی کوڈ سسٹم تیار کیا گیا۔جس کے سبب کسی بھی گیجٹ (Gadget) میں اردو زبان کا استعمال سہل ہوگیا۔اور اب تو ایسے ایسے سافٹ وئیر بھی ایجاد کر لیے گئے ہیں، جن کی مدد سے خوبصورت فونٹس میں اردو کی کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ آج ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔اب ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں۔لمحے بھر میں انگلیوں کی ایک ٹچ سے مطلوبہ تفصیل و معلومات، مواد کے ترجمے، پیغامات کی ترسیل، آن لائن ایڈیٹنگ، آن لائن ریڈنگ،غرض کہ ہر اہم اور غیر اہم معلومات کی مکمل تحصیل، جدید ٹکنالوجی کا بے بہا عطیہ ہے۔اس دور میں بھی اردو کا سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اس دور میںبھی اردو نے اس جدت پسندی سے ہم آہنگی پیدا کر لی ہے۔ اردو کی ترقی اس بات میں بھی مضمر ہے کہ اس نے ذرائع ابلاغ کا وسیلہ بننے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔ اردو کو زندہ رکھنے کے لیے نئے نئے طرزِ عمل سے کام لیاجانے لگا۔ عالمی طور پر اردو کے فروغ کے لیے اردو کی بیشتر کتابوں کو آن لائن اپلوڈ کردیا گیا، آن لائن ریڈنگ، آن لائن لائبریری وغیرہ کی سہولتیں میسر کرائی گئیں۔اب تو گھر بیٹھے آن لائن ٹیوٹر کی مدد سے اردو سیکھنے کا رَواج بھی عام اور مقبول ہوچکا ہے۔انٹرنیٹ کی بدولت مشاہیرِ ادب کی کمیاب اور نایاب کتابوں کو نہ صرف ہم دیکھ سکتے ہیں بلکہ پڑھ بھی سکتے ہیں۔ ٹکنالوجی کایہ دور اُردو کے فروغ میں بڑا ہی سود مند ثابت ہوا ہے ۔ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کو جدید ٹکنالوجی نے بیش بہا فائدے پہنچائے اور یہ اس کی ترویج و اشاعت میں کلیدی حیثیت کی حامل بن چکی ہے۔انٹرنیٹ کی سہولت نے عالمی طور پر اردو کے فروغ اور اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں معاونت کی ہے۔ اب تو بین الاقوامی سطح پر مشاعرے، مذاکرے وغیرہ آن لائن ہو رہے ہیں جن سے عالمی سطح پر ترسیلی فاصلے مٹ رہے ہیں۔
اردو زبان کے متعلق ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اردو صرف شاعری کی زبان ہے، ادب کی زبان ہے لیکن حقیقتاً اردو میں ہر قسم کے علوم و فنون سے متعلق مواد و معلومات کا ذخیرہ موجود ہے۔ جدید تر اصطلاحات کی بھی کمی نہیں اور اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم نہیں ہیں۔ غرض کہ اردو زبان میں وہ علمی اور فکری سرمایہ موجود ہے جس کی بدولت ہم اس عالمی گانْو میں جی سکتے ہیں اور ان طاقتوں کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی لسانی پسماندگی کا ازالہ کرسکیں۔ وہ دن گئے جب اردو میں صرف گل و بلبل کے قصے ہوا کرتے تھے، غمِ عشق اور غم ِروزگار کا تذکرہ لکھا جاتا تھا۔ آج اردو کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے۔اس میں سائنس، تاریخ ،فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، معاشیات، غرض کہ تمام علمی خزینے موجود ہیں۔ اس لیے نئی نسل کو، جو اردو سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے، اس کو اردو کی تعلیم سے وابستہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور اگر ہماری یہ کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر اردو کا حال تابناک رہے گا اور مستقبل
بھی قابلِ فخر ثابت ہوگا۔
اردو زبان سے متعلق کبھی یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ مستقبل میں ہم اردو میں Tweet کرسکیں گے اور Facebook پر بھی اردو کا چلن عام ہوگا۔ اب یہ قیاس حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج اردو نہ صرف فیس بک اور ٹوئیٹر کی زبان بن گئی ہے بلکہ بیشتر ایپلی کیشنز میں بھی بہ حیثیت فنکشنل لنگویج کا م کررہی ہے۔اور عالمی طور پر اپنی حیثیت منوا کر اپنے حلقۂ اثر کو طویل سے طویل تر کررہی ہے۔خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب اردو کے بیشتر اخبارات، جرائداور رسائل کے اہم شمارے بہ آسانی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔یعنی اب پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن گئی ہے۔اردو زبان کو انٹرنیٹ کی سہولتوں سے دُور، دُور تک پہنچانے میں ریختہ ڈاٹ آرگ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس نے قدما کی نثری و شعری تصنیفات کو اِی -بک کی شکل میں اَپ لوڈ کرکے اردو کے چاہنے والوں کے لیے زندہ جاوید کردیا ہے۔اردو کے حوالے سے اور بھی ویب سائٹ ہیں، لیکن ریختہ ان معنوں میں انفرادیت کا حامل ہے کہ اس سائٹ پر قدیم وجدید شعرا کی تخلیقات، ان کے حالات، ان کی ویڈیوز تک دستیاب ہیں۔ یعنی یہاں تشنگانِ شعروادب کی سیرابی کے تمام لوازمات مہیا کردیے گئے ہیں۔اس ویب سائٹ نے اردو کو غیر اردو داں حلقے میں پہنچانے کی خاطر تین زبانوں کی سہولت بھی دے رکھی ہے مثلاً اردو، انگریزی اور ہندی، تینوں رسم الخط میں آپ کو مطلوبہ معلومات بآسانی دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں اہم، کمیاب اور نادر کتابیں ریختہ پر اپ لوڈ ہو چکی ہیں، بقیہ اپ لوڈ کے مرحلے میں ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیانے بھی اردو زبان کی ترویج میں ہر زمانے میں معاونت کی، جس کے سبب ہمیں ترسیل کے بڑے اہم ذرائع ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی شکل میں ملے۔برقی وسائل کی مدد سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے یہ سب سے دلچسپ ذرائع ثابت ہوئے۔ ریڈیو عالمی طور پہ ذرائع ابلاغ کا سب سے قدیم وسیلہ ہے، جو اپنی مقبولیت کے سبب جلد ہی گھر گھر پہنچ گیا تھا۔ ابتدا میں چونکہ ملک میں اردو کا زور تھا لہٰذا اردو زبان میں تمام پروگرام نشر ہوتے مگر زمانے کی تبدیلی کے سبب لسانی عصبیت نے اس شعبے کو بھی متاثر کیا۔ ٹی ۔وی کی ایجاد نے بہت حد تک یہ تشویش پیدا کردی تھی کہ اب بس ریڈیو کا دور ختم ہی ہوجائے گالیکن ریڈیو نے بھی زمانے کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور اس کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرکے ایف۔ ایم کی شکل میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی۔ایک بار پھر اس کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔آج بھی اس کا خمار کچھ کم نہیں۔ اس کی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں چونکہ لہجے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے لہٰذا لفظوں کے صحیح تلفظ اور کم سے کم جملوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اس لیے اردو کا کثرت سے یہاں استعمال ہوتا ہے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیشتر ریاستوں میں اردو کے الگ الگ پروگرام بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ اب تو ریڈیو کے ایسے اَیپ بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں نشر ہونے والے پروگرام کو ہم آسانی سے سن سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رابطے کے اس ذریعے کو بھی اردو سے ہی توانائی حاصل ہے۔اردو زبان میں نشریات کے سبب اردو کا فروغ اور تحفظ دونوں
حقیقت بن چکے ہیں۔
انٹرنیٹ کی آمد سے نہ صرف عالمی طور پر اردو زبان کی اشاعت ہوئی بلکہ اس کی شناخت بھی قائم ہوئی۔آج دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اردو زبا ن اور اس کے اشعار سے محظوظ ہورہا ہے۔اردو رسم الخط کے حوالے سے یہ تشویش بھی ظاہرکی گئی کہ اب اس کا چلن بھی ختم ہوجائے گا، لیکن ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اردو رسم الخط میں اپنے مقاصد کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دوسری زبان میں اس کے تراجم بھی پوسٹ کردیتے ہیں۔ اس سے اردو نہ صرف اپنوں میں مقبول ہورہی ہے بلکہ غیر اردو داں بھی اس کی طرف مائل ہورہے ہیں۔گلوبل ویلیج، سائبر اسپیس یہ سب اس وسیلے کی دِین ہیں۔ سمٹتے ہوئے فاصلوں نے قاری اور ادب کو ایک
دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہےکہ زبان کی ترقی کو مضبوط پنکھ لگ گئے ہیں۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عصری تناظر میں اردو زبان اپنی ممکنہ جہات تک پہنچ چکی ہے۔ ان جہات کا سفر کافی پرپیچ تھا، دشوار ترین مراحل اورناہمواریوں کو پاٹتے ہوئے، عصری تقاضوں سے ہم آہنگی برتتے ہوئے ہماری زبان آج دنیا کے گوشے گوشے میں نہ صرف شان سے سانس لے رہی ہے، بلکہ اشاعتی سلسلے سے اپنی تابندگی کا ثبوت بھی فراہم کررہی ہے۔آج پوری دنیا میں کیا اردو داں اور کیا غیر اردو داں، سب ہی اس سے مستفیض ہورہے ہیں۔ عالمی منظر نامے میں اردو کی صورت ِحال خوش گوار ہے جس سے اس کی ترقی اورتحفظ کے امکانات روشن ہیں۔ ٭٭٭
Imtiyaz Sarmad
Asst. Professor
Deptt. of Urdu, Raja Singh College, Siwan-841226
Contact: 9891985658/imtiyazjnu@gmail.com

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں