دبئی کی جیل میں قید شہزادی کو سزائے موت

دبئی کی جیل میں قید باندہ، اتر پردیش کی رہائشی شہزادی کو بچے کی موت کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔ والدین نے حکومت ہند سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے بیٹی کی بے گناہی کا دعویٰ کیا۔
باندہ: دبئی کی ابو ظہبی جیل میں قید اتر پردیش کے باندہ ضلع کی رہائشی شہزادی نے والدین کو آخری فون کال کرتے ہوئے جذباتی الوداع کہا۔ شہزادی نے روتے ہوئے اپنے والد کو بتایا، "ابو، یہ میری آخری کال ہے، مجھے دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے، شاید میں دوبارہ آپ سے بات نہ کر سکوں۔” اس کے بعد کال بند ہوگئی، اور گھر میں کہرام مچ گیا۔
شہزادی کے والد شبیراحمد خان اور والدہ نازرا بیگم کا رو رو کر برا حال ہے۔ وہ مسلسل حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان کی بیٹی بے قصور ہے، اور اسے بچایا جائے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو آخری بار دیکھ بھی نہیں سکتے، جو ان کے لیے ناقابل برداشت صدمہ ہے۔
محبت کے جال میں پھنسا کر دبئی بھیجا گیا

شہزادی کے اہل خانہ کے مطابق، باندہ کے مٹوندھ تھانہ علاقے کے گوئرا مغلی گاؤں کی رہائشی شہزادی کا رابطہ آگرہ کے عزیر نامی نوجوان سے فیس بک پر ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی بڑھتی گئی، اور 2021 میں عزیر نے چہرے کی پلاسٹک سرجری کا جھانسہ دے کر شہزادی کو دبئی بھیج دیا۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دبئی پہنچنے کے بعد شہزادی کو گھریلو ملازمہ بنا کر ایک خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ وہاں کام کرتی رہی، لیکن اچانک ایک دن اس خاندان کے چار ماہ کے بچے کی موت ہوگئی، جس کا الزام شہزادی پر لگا دیا گیا۔
بغیر پوسٹ مارٹم کے دفن کردیا گیا بچہ، شہزادی پر دباؤ ڈال کر قبول کرایا گیا جرم
شہزادی کے والد کے مطابق، جس گھر میں ان کی بیٹی کام کر رہی تھی، وہاں کی خاتون خانہ نازیہ اپنے بچے کو ٹیکہ لگوانے کے لیے اسپتال لے گئی۔ اس کے بعد بچے کی طبیعت بگڑ گئی اور اس کی موت ہوگئی۔ لیکن بغیر پوسٹ مارٹم کے بچے کو دفنا دیا گیا اور الزام شہزادی پر ڈال دیا گیا۔
’’میری بیٹی کا موبائل فون چھین لیا گیا، اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زبردستی دستخط کروا کر جرم قبول کرایا گیا۔‘‘ – شہزادی کے والد شبیراحمد خان۔
عدالت کا فیصلہ، سزائے موت کی تیاری
ابو ظہبی کی عدالت نے شہزادی کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دے دیا۔ جیل حکام نے سزائے موت سے پہلے شہزادی کو آخری بار والدین سے بات کرنے کی اجازت دی۔
فون کال میں شہزادی نے والدین کو کہا:
- ’’ابو، میرا وقت ختم ہو گیا ہے۔ میں واپس نہیں آ سکوں گی۔‘‘
- ’’آپ لوگ ساری زندگی کیس لڑتے رہیں گے، لیکن میں واپس نہیں آؤں گی۔‘‘
- "وکیل سے کہہ کر ایف آئی آر واپس لے لیں، مجھے اب کسی چیز کی ضرورت نہیں، بس سکون چاہیے۔‘‘
یہ سن کر ماں باپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اور شہزادی نے التجا کی، "امی، ابو، میں آپ سب کو بہت یاد کروں گی، لیکن میرے لیے کچھ نہ کریں، بس دعا کریں۔”
والدین کا حکومت سے اپیل، انصاف کی دہائی
شہزادی کے والد شبیراحمد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
- ’’ہم نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن کوئی مدد نہیں ملی۔‘‘
- ’’ہم وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری بیٹی کو بچانے کے لیے دبئی حکومت سے بات کریں۔‘‘
- ’’ہماری بیٹی بے قصور ہے، وہ سزائے موت کی مستحق نہیں۔‘‘
شہزادی کے ساتھ انسانی اسمگلنگ کا معاملہ بھی سامنے آیا
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ شہزادی کو عزیر نے دھوکہ دے کر دبئی میں فروخت کر دیا تھا۔ باندہ کی عدالت نے عزیر اور اس کے ساتھیوں کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔
"میری بیٹی کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ ایک غریب گھر میں پیدا ہوئی،” والد شبیراحمد خان کی التجا۔
کیا شہزادی کی سزائے موت روکی جا سکتی ہے؟
اب تمام نظریں حکومت ہند پر ہیں۔ اگر حکومت سفارتی کوششیں کرے، تو شہزادی کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلا جا سکتا ہے، یا مکمل طور پر معافی بھی ممکن ہے۔
والدین کا کہنا ہے، "ہم اپنی بیٹی کو ایک بار دیکھنا چاہتے ہیں، حکومت اس کی سزائے موت کو رکوانے کے لیے فوری مداخلت کرے۔‘‘