جگدیپ دھنکھڑ کے استعفے پر سیاسی ہلچل،عدلیہ سے ٹکراؤ بنی اصل وجہ

نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے عدلیہ سے مسلسل ٹکراؤ، آرٹیکل 142 اور جسٹس ورما کے خلاف اپوزیشن کے مواخذے کو منظور کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا، حکومت عدلیہ سے تصادم کے موڈ میں نہیں۔
نئی دہلی۔ ملک کی سیاست اس وقت تیزی سے گرمائی ہوئی ہے جب نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھڑ نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ انھوں نے اپنی صحت کو استعفیٰ کی وجہ بتایا ہے، لیکن سیاسی حلقوں میں اس جواز کو قبول کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دھنکھڑ گیارہ دن پہلے تک اپنے مکمل پانچ سالہ مدت کار کی بات کر رہے تھے، مگر اب اچانک دو سال پہلے ہی عہدہ چھوڑنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے پہلے دن دھنکھڑ نے معمول کے مطابق راجیہ سبھا کی کارروائی شروع کرائی اور قائد حزب اختلاف ملکارجن کھڑگے کو سالگرہ کی مبارکباد بھی دی، لیکن شام ہوتے ہی انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ اگرچہ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے جسٹس یشونت ورما کے خلاف اپوزیشن کے ذریعہ لائے گئے مواخذے کے نوٹس کو قبول کیا، جو بی جے پی کو ناگوار گزرا، لیکن اصل وجہ صرف یہی نہیں مانی جا رہی۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے جسٹس ورما کو ہٹانے کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں میں مواخذے کی تیاری کر رکھی تھی اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشورہ ہو چکا تھا، حتیٰ کہ راہل گاندھی نے بھی دستخط کیے تھے۔ لیکن دھنکھڑ نے اپوزیشن کے نوٹس کو راجیہ سبھا میں فوراً منظور کر لیا، جس سے مرکزی حکومت ناراض ہوئی۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ دھنکھڑ عدلیہ سے کھل کر اختلاف کر رہے تھے، جس سے قبل وزیر قانون کرن رجیجو کو بھی اپنی وزارت گنوانی پڑی تھی۔
دھنکھڑ مسلسل این جے اے سی (NJAC) جیسے نظام کی حمایت میں بیانات دے رہے تھے، جسے سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ جب کہ حکومت عدلیہ سے کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتی۔ وزیر داخلہ امت شاہ بھی ایک پروگرام میں واضح کر چکے تھے کہ حکومت ایسے کسی قانون پر کام نہیں کر رہی، لیکن دھنکھڑ کے مسلسل بیانات سے ایسا پیغام جا رہا تھا کہ حکومت عدلیہ سے ٹکراؤ چاہتی ہے۔دھنکھڑ نے آرٹیکل 142 پر بھی سوال اٹھایا اور اسے ‘جمہوری اداروں کے خلاف ایٹمی ہتھیار’ تک قرار دیا۔ ان کے بیانات پر حکومت کو بار بار وضاحتیں دینی پڑ رہی تھیں، جو حکومت کے لیے مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ ان کے حالیہ اقدامات اور بیانات سے حکومت کو محسوس ہوا کہ اب ان کے ساتھ آگے چلنا ممکن نہیں رہا۔اسی دوران جسٹس یشونت ورما کے گھر سے مبینہ نقدی برآمدگی کا معاملہ سامنے آیا، جس پر قانونی کارروائی نہ ہونے سے دھنکھڑ نے براہ راست کالجیئم نظام پر حملہ کیا۔ جب راجیہ سبھا میں ان کے خلاف مواخذہ کا نوٹس آیا تو دھنکھڑ نے فوراً اسے قبول کر لیا، جب کہ حکومت اسی معاملے میں لوک سبھا میں پیش قدمی کی تیاری کر رہی تھی۔ اسی اقدام نے حکومت کو ناراض کیا اور دھنکھڑ کا استعفیٰ منظور ہو گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن پارلیمنٹ کا مانسون سیشن شروع ہوا، اسی کے اگلے دن یعنی 22 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ آرٹیکل 142 پر دھنکھڑ کے بھیجے گئے 14 سوالات کی سماعت کرنے والی تھی، اور اس سے ایک دن قبل ہی انھوں نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔بی جے پی حکومت عدلیہ سے محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر قانون رہ چکے کرن رجیجو کو بھی ان کے عدلیہ مخالف بیانات کی وجہ سے وزارت سے ہٹایا گیا تھا۔ رجیجو نے کالجیئم نظام کو ‘آئین کے لیے غیر فطری’ قرار دیا تھا اور ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے تھے، جس سے سپریم کورٹ ناراض ہوا تھا۔دھنکھڑ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ جسٹس ورما کے معاملے میں زیادہ سیاسی مداخلت چاہتے تھے، جب کہ حکومت اس حساس معاملے میں محتاط تھی۔ اب جب کہ دھنکھڑ اور اس سے پہلے رجیجو، دونوں اپنی پوزیشن سے محروم ہو چکے ہیں، تو یہ صاف اشارہ ہے کہ مودی حکومت عدلیہ سے تصادم نہیں چاہتی اور توازن برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔