وجے شاہ کے متنازع بیان پر سیاسی طوفان اور قانونی کارروائی

مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ کے کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق بیان پر سیاسی تنازع شدت اختیار کر گیا، مقدمہ درج، سپریم کورٹ کی برہمی اور کانگریس نے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔
مدھیہ پردیش کے قبائلی امور کے وزیر کنور وجے شاہ ایک متنازع بیان کے باعث شدید سیاسی اور قانونی دباؤ میں آ گئے ہیں۔ ان کے بیان نے نہ صرف سیاسی ہلچل پیدا کی بلکہ اب قانونی کارروائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ کرنل صوفیہ قریشی سے متعلق مبینہ تبصرے پر ہائی کورٹ کی ہدایت پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی ان کی زبان پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ریاست میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی نے اس معاملے کو لے کر گورنر سے ملاقات کی ہے اور وزیر کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی میڈیا اس بیان کو بنیاد بنا کر دنیا میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو مرکزی دھارے سے باہر دھکیلا جا رہا ہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کے امیج کو نقصان پہنچ رہا ہے۔وجے شاہ نے ریاستی بی جے پی صدر وی ڈی شرما سے ملاقات کے بعد معافی تو مانگ لی، لیکن ہنستے ہوئے، جس پر مزید تنقید ہوئی۔ اس کے باوجود بی جے پی اور ریاستی حکومت اب بھی ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے، جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ پارٹی ان کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کر رہی ہے۔
مدھیہ پردیش میں تقریباً 22 فیصد ووٹر قبائلی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور ریاست کی اسمبلی کی 47 نشستیں ان کے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 90 حلقے ایسے ہیں جہاں قبائلی ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کو اندیشہ ہے کہ وجے شاہ جیسے اہم قبائلی رہنما کے خلاف کارروائی قبائلی ووٹ بینک کو ناراض کر سکتی ہے اور سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے وجے شاہ کو تنبیہ ضرور کی ہے، اور پارٹی کے کئی رہنما، بشمول وزیراعلیٰ موہن یادو اور قومی صدر جے پی نڈا، ان سے وضاحت طلب کر چکے ہیں۔ پارٹی کی ایک ٹیم نے کرنل صوفیہ قریشی کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کی ہے، لیکن چھ دن گزرنے کے باوجود کوئی سخت کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ امکان ہے کہ پارٹی وجے شاہ کے بیان کو ہندو قوم پرست ووٹرز کے لیے ایک پیغام سمجھتی ہے اور براہ راست کارروائی سے گریز اسی بنیاد پر ہو رہا ہے۔
داخلی طور پر یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی نے وجے شاہ سے استعفیٰ لیا تو اپوزیشن اسے اپنی جیت کے طور پر پیش کرے گی۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی ایک اہم میٹنگ میں یہ رائے سامنے آئی کہ چونکہ ہائی کورٹ نے استعفے کا کوئی حکم نہیں دیا، اس لیے اس سمت میں دباؤ کی ضرورت نہیں۔وجے شاہ نے اپنے متنازع بیان میں پہلگام دہشت گرد حملے اور آپریشن “سندور” کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں نے ہماری بیٹیوں کا سندور چھینا، مودی جی نے انہی کی بہن کو بھیج کر ان سے بدلہ لیا۔ حالاں کہ انھوں نے کرنل صوفیہ قریشی کا نام نہیں لیا، لیکن اس بیان کو ان سے جوڑ کر دیکھا گیا، جس سے تنازع کھڑا ہو گیا۔
بی جے پی کے بعض سینئر رہنماؤں جیسے اوما بھارتی اور رگھونندن شرما نے ان کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ہے، جب کہ مرکزی وزیر درگاداس اُئیکے، ریاستی وزیر پرتیماباگری اور بھارت آدیواسی پارٹی کے رکن اسمبلی کملیشور ڈوڈیار نے ان کا دفاع کیا ہے۔