پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991: سپریم کورٹ میں ایس پی ایم پی اقرار حسن کی درخواست

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اقرار حسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے مؤثر نفاذ کی اپیل کی، تاکہ مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنانے والے مقدمات اور غیر ضروری سروے روکے جا سکیں۔ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو دیگر زیر التوا مقدمات کے ساتھ جوڑتے ہوئے مذہبی مقامات پر نئے مقدمات اور سروے احکامات پر پابندی برقرار رکھی۔
نئی دہلی – سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اقرار حسن نے پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے 14 فروری کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کرول کی بنچ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا، جس پر عدالت نے ان کی درخواست کو دیگر زیر التوا مقدمات کے ساتھ جوڑ دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ہفتے نئی درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں، جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو رہا ہے۔
مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنانے پر تشویش
اقرار حسن کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے پیروی کی۔ اپنی درخواست میں اقرار حسن نے تشویش ظاہر کی کہ مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنا کر بار بار مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی ٹھوس تحقیق اور قانونی جواز کے سروے کے احکامات جاری کرنا فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دے سکتا ہے، جو قومی ہم آہنگی اور رواداری جیسے آئینی اقدار کے لیے خطرہ ہے۔
مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی
اقرار حسن نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ رام مندر کیس میں طے شدہ “عدم رجوع کے اصول” (Principle of Non-Retrogression) کے مطابق پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے تحت عبادت گاہوں کی حیثیت میں تبدیلی کو تسلیم کرنا غلط ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قدیم آثار و تاریخی مقامات ایکٹ 1958 کے تحت کسی عبادت گاہ کو قدیم آثار میں شامل کرنا آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 29 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
سنبھل میں تشدد اور سپریم کورٹ کی مداخلت
اقرار حسن نے اپنی درخواست میں اتر پردیش کے شہر سنبھل میں پیش آنے والے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ٹرائل کورٹ نے 16ویں صدی کی ایک مسجد کے سروے کا حکم دیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ماتحت عدالت نے قانونی تقاضوں کا جائزہ لیے بغیر یکطرفہ عبوری احکامات جاری کیے، جس کے نتیجے میں حالات مزید کشیدہ ہوئے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 12 دسمبر 2024 کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے مذہبی مقامات کے خلاف نئے مقدمات اور سروے کے احکامات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ حکم گیان واپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ اور سنبھل جامع مسجد جیسے معاملات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
پلیسز آف ورشپ ایکٹ پر قانونی جنگ مزید پیچیدہ
سپریم کورٹ میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 پر دائر مختلف درخواستوں کے ساتھ اب اقرار حسن کی درخواست کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے پر عدالتی فیصلہ مستقبل میں عبادت گاہوں کی قانونی حیثیت اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے حوالے سے اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔