خبرنامہ

پاکستان کو ’ایک قطرہ پانی بھی نہیں ملے گا‘:آبی وسائل کے وزیر سی آر پاٹیل کا دوٹوک اعلان

نئی دہلی میں آبی وسائل کے وزیر سی آر پاٹیل نے گزشتہ دنوں ایک فیصلہ کن بیان دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ انڈین حکومت ان اقدامات پر کام کر رہی ہے جن کے ذریعے پاکستان کو مستقبل میں “ایک قطرہ پانی بھی نہ مل سکے۔” ان کے اس بیان کو ملک کے عوام، دفاعی تجزیہ کاروں اور سٹریٹجک حلقوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے، جو اسے ایک دیرینہ قومی مفاد کے تحفظ کی جانب پیش قدمی سمجھتے ہیں۔پاکستان کی جانب سے حسبِ روایت سخت بیانات اور دھمکی آمیز لہجہ اپنایا گیا ہے، جس میں ان کے وزیر دفاع نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر انڈیا نے کوئی ڈھانچہ تعمیر کیا تو وہ اسے تباہ کر دیں گے۔ ایسی بیان بازی دراصل پاکستان کی بوکھلاہٹ اور داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ انڈیا کو اپنی خودمختاری اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، اور بین الاقوامی قوانین بھی اسے اس حق کی ضمانت دیتے ہیں۔
انڈیا نے حالیہ اقدامات اس لیے اٹھائے ہیں کیوں کہ وہ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ پاکستان نے بارہا سرحد پار دہشت گردی کی سرپرستی کی ہے، اور ایسے ملک کے ساتھ کسی بھی طرح کا یکطرفہ تعاون، خاص طور پر ایک حساس مسئلے جیسے پانی پر، جاری رکھنا انڈیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ، پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان کے خلاف عوامی غصہ اور مطالبہ بھی شدت اختیار کر گیا تھا کہ اس طرح کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں طے پایا تھا جب حالات بالکل مختلف تھے۔ آج کے حالات میں جب پاکستان انڈیا کے خلاف مسلسل پراکسی جنگ چلا رہا ہے اور بین الاقوامی وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے، تو انڈیا پر لازم ہے کہ وہ اپنے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انڈیا نے معاہدے کی شق 13(3) کے تحت پاکستان کو نظرثانی کا نوٹس دیا تھا، جس کا مؤثر جواب نہ ملنے پر یہ قدم ناگزیر ہو گیا۔
پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی عدالتوں میں جانے کی بات ایک اور سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔ انڈیا کے قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو کوئی ایسی قانونی حیثیت حاصل نہیں جس کے تحت وہ انڈیا کے اندرونی فیصلوں کو روک سکے، خاص طور پر جب وہ فیصلے قومی سلامتی اور خودمختاری کے دائرے میں کیے جا رہے ہوں۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں میں نہ ہی اپنے حصے کے پانی کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا اور نہ ہی ایسے ڈیمز یا منصوبے بنائے جن کے ذریعے وہ عالمی سطح پر ان پانیوں کی فوری ضرورت ثابت کر سکے۔ انڈیا جب اپنے اندرونی مقاصد کے لیے ان وسائل کا استعمال کرتا ہے تو پاکستان کی جانب سے شور شرابہ مچایا جاتا ہے، جسے اب دنیا بھی محض ایک سیاسی پروپیگنڈا سمجھتی ہے۔
پاکستان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ بھی ان ہی دریاؤں پر انحصار کرتا ہے جو چین سے انڈیا میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر انڈیا کے نقش قدم پر چین بھی چلنے لگے تو پاکستان کہاں جائے گا؟ انڈیا نے ہمیشہ عالمی معاہدوں کا احترام کیا ہے، لیکن اگر دوسرے فریق کی جانب سے مسلسل دھوکہ دہی، شدت پسندی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا جائے تو یکطرفہ نرمی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔انڈیا نے ایک ذمہ دار اور ترقی پسند ملک ہونے کے ناطے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ قومی مفاد کے تحفظ کے لیے سخت فیصلے کیے جائیں۔ پانی اب صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی، خوراکی تحفظ اور اقتصادی ترقی سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ انڈیا اپنے عوام کی بقا، کھیتوں کی سرسبزی، اور صنعتی ترقی کے لیے ہر قطرہ محفوظ کرے گا، چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
پاکستان کے پاس اب صرف دو راستے بچے ہیں: یا تو وہ دہشتگردی کو خیرباد کہہ کر مہذب ہمسایہ بنے اور تعمیری مذاکرات کا راستہ اپنائے، یا پھر دنیا کے سامنے خود کو تنہا کرے۔ انڈیا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب امن صرف ان شرائط پر ممکن ہو گا جن میں انصاف، خودمختاری اور قومی مفاد کو اولیت حاصل ہو۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر