پاک-بھارت کشیدگی:امریکہ کی ثالثی کی پیش کش،تحمل کی اپیل

پاک-بھارت حالیہ کشیدگی پر امریکہ نے دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کرتے ہوئے ثالثی کی پیش کش کی ہے، جب کہ پاکستان نے انڈین حملوں کے جواب میں ’بنیان مرصوص‘ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔
نئی دہلی / اسلام آباد ۔جنوبی ایشیا میں جاری حالیہ کشیدگی کے پیش نظر امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں سے تحمل اور کشیدگی میں کمی کی اپیل کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنیچر کو علی الصبح پاکستان کی جانب سے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کے اعلان کے بعد، امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارک روبیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے رابطہ کیا اور موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کیا۔ذرائع کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دیا کہ وہ خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے فوری طور پر بات چیت کا راستہ اپنائیں۔ روبیو نے مستقبل میں کسی ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔یہ پیش رفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر خطرناک سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یاد رہے کہ 7 مئی کو پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ بھارتی میزائل حملوں میں کم از کم 33 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں، جس کے بعد صورتحال مزید نازک ہو گئی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب بھارت نے راولپنڈی، شورکوٹ اور مرید میں واقع فوجی اڈوں کو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کی، تاہم فضائیہ کے تمام اثاثے محفوظ رہے۔ بھارت کی جانب سے اس واقعے پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔پاکستان نے اس کارروائی کے جواب میں جوابی آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے اسے ’بنیان مرصوص‘ کا نام دیا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر ڈرون حملوں، میزائل حملوں اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کے الزامات سامنے آ رہے ہیں، جن کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔
اسی تناظر میں عالمی برادری، بالخصوص امریکہ، روس، برطانیہ اور ایران جیسے ممالک، دونوں ممالک سے تحمل اور بات چیت کی اپیل کر رہے ہیں۔ تاہم اس بار کشیدگی میں کمی کے آثار ماضی کی نسبت کم دکھائی دے رہے ہیں۔امریکی قیادت کی جانب سے ردعمل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو مرتبہ اس صورتحال پر بات کی ہے۔ ایک حالیہ بیان میں انھوں نے کہا: ’’یہ افسوسناک صورتحال ہے، میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ مسئلہ حل کریں۔‘‘
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو ایٹمی تصادم میں نہیں بدلنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم کسی بھی فریق کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکتے، مگر دونوں کو عقل سے کام لینا ہوگا۔‘امریکی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کے مطابق اس بار امریکہ ماضی کی طرح متحرک کردار ادا نہیں کر رہا، جس کی ایک وجہ ٹرمپ انتظامیہ کی موجودہ خارجہ پالیسی ہے جو بین الاقوامی تنازعات میں کم مداخلت کی حامی ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ امریکہ معاملے سے دور نہیں بلکہ پسِ پردہ متحرک ہے۔ ’’اگر امریکہ شامل نہ ہوتا تو امریکی وزیرِ خارجہ دونوں ممالک سے بار بار رابطہ نہ کرتے،‘‘ ان کا کہنا تھا۔اس کے برعکس بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے کئی شعبوں میں مستقل تقرریوں کی کمی اور مختلف عالمی محاذوں پر مصروفیات کی وجہ سے واشنگٹن کی توجہ تقسیم ہو چکی ہے۔ اس لیے فی الوقت جنوبی ایشیا کی کشیدہ صورتحال پر اس کا کردار محدود دکھائی دیتا ہے۔
اسلام آباد کے ماہرِ امورِ خارجہ پروفیسر محمد شعیب نے بھی امریکی رویے کو محتاط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگرچہ امریکہ اس وقت کسی بھی فریق کے ساتھ کھل کر کھڑا نہیں ہوا، لیکن جیسے جیسے تنازع بڑھتا جائے گا، امریکی مداخلت بھی بڑھ سکتی ہے۔‘
فی الحال عالمی برادری، بالخصوص امریکہ، کی تمام کوششیں یہی ہیں کہ جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک کسی بڑے تصادم کی طرف نہ بڑھیں۔ آنے والے دنوں میں صورتحال کس سمت جاتی ہے، اس پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔