سیاسی بصیرت

پہلگام سانحہ: عوام کا کیا قصورہے؟

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

پہلگام سانحہ بلاشبہ سخت قابل مذہب ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ معمولی ہمدردی بھی روا نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ نہ کسی سماج کے ہوتے ہیں اور نہ کسی مذہب کے۔ بلکہ یہ لوگ سماج و مذہب دونوں کے لیے ایک بدنما داغ ہوتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ سوالات بھی کھڑے ہوتے ہیں کہ جب یہ معلوم ہے کہ کشمیر، ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہتا ہے اور اُس کی آڑ میں ملک دشمن عناصر ہندوستان کے ماحول کو خراب کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے، تو پھر پہلگام جیسے مشہور ومعروف سیاحت کے مقام پر حفاظتی دستے تعینات کیوں نہیں تھے، اور وہ بھی اُس وقت جب کہ تقریباً دو ہزار سیاح، سیر وسیاحت پر نکلے ہوں؟ پھر یہ کسے پتا نہیں کہ اپریل سے جون کے مہینے تک وادیٔ کشمیر، سیاحوں کا خاص ٹھکانہ بنا رہتا ہے۔ اِن تین مہینوں میں سیاحوں کو بالخصوص کشمیر کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر آتا ہے اور یہی وہ مہینے ہیں جن میں کشمیر کی پُرکشش چیزیں ملک کے دور دراز مقامات سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ اِس سے جہاں لوگوں کو سیر و سیاحت کا ایک عجیب وغریب لطف ملتا ہے، وہیں کشمیریوں کے لیے معاشی اعتبار سے فصل بہار کا موسم بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پہلگام سانحے کے نام پرشرپسند طبقہ، جو ہمیشہ ایک خاص کمیونٹی کے معاشی بائیکاٹ کے درپے نظر آتا ہے، وہ کشمیریوں کے معاشی برآمدات پر چوٹ کرنا چاہتا ہو اور اِس سانحے کے پردے میں سیاحوں کو کشمیر جانے سے روکنا چاہتا ہو، جیساکہ ملک کی دیگر رِیاستوں میں کچھ اِس طرح کا ماحول بنا دیا گیا ہےکہ اکثریتی طبقے کے شدت پسند افراد، اقلیتی طبقے سے خرید وفروخت کرنا مذہبی گناہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ اکثریتی طبقے کے سنجیدہ لوگ اگر مسلم دوکانوں سےکچھ خریدنا بھی چاہتے ہیں تو شرپسند عاصر بزورِ بازو اُنھیں روکتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کردیتے ہیں کہ جنھیں خوش فکر اور اَمن پسند افراد پھلانگ نہیں پاتے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حمایتی ممالک بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہوں اور ہندوستان میں موجود ہندو-مسلم نفرتی فضا کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں، لہٰذا بہت ممکن ہے کہ دہشت گردوں نے پہلگام سانحےمیں مذہب کو اِسی لیےدرمیان میں لایا ہو، تاکہ ہندوستان ازخود خانہ جنگی کا شکار ہوجائے اور یوں بڑی آسانی سے ملک دشمن عناصر کو اُن کے مقاصد حاصل ہوجائیں، بلکہ اِس کے بھیانک اثرات رونما ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ آگرہ میں مذہب پوچھنے کے بعد ایک اقلیتی نوجوان کو قتل کردیا گیا، بنارس میں ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر اَدھ مرا کردیا گیا، اسی طرح اترا کھنڈ میں بھی ایک مسلم کو لہولہان کردیا گیا۔ علاوہ ازیں ملک کے مختلف گوشوں میں کشمیریوں اور مسلموں پر مذہب کے نام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود اگر صاحبانِ اقتدار اِس پر قدغن نہیں لگاتے اور ملک دشمن عناصر کی چال کو سمجھنا نہیں چاہتے، تو ہمارے ملک کو برباد ہونے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔ پھر اِسے ملک کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ آج کی میڈیا نے پہلگام سانحے کے سلسلے میں جس طرزِ تشہیر کو اِختیار کر رکھا ہے اُس سے نہ صرف ملک دشمن عناصر کی شاطرانہ چال کامیاب ہوتی نظر آتی ہے بلکہ ملک ومعاشرے کی بنیاد بھی ہلتی نظر آتی ہے۔
سیاسی وسماجی دانشوروں کی طرف سے بھی یہ سوال سامنے آرہا ہے کہ جب پہلگام حملہ ہوا تو وزیراعظم غیرملکی دورہ ترک کرکے ملک واپس آگئے، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ جس وزیر اعظم کو کشمیرجانا چاہیے اور دہشت گردانہ حملے کاجائزہ لینا چاہیے وہ ریاست بہار چلے گئے اور اِنتخابی جلسے میںمصروف نظر آئے۔ ایسے موقع پر تو وزیر اعظم کو سنجیدہ ہونا چاہیے اور کچھ ٹھوس کارگر قدم اٹھانا چاہیے کہ جس سے دہشت گردوں کا حوصلہ پست ہو سکے، اُن کی سرکوبی ہوسکے اور اہل وطن کا حوصلہ بلند ہوسکے۔ وزیر اعظم نے آرٹیکل ۳۷۰؍ کا خاتمہ اِسی لیے کیا تھا کہ کشمیر میں امن وسکون کا ماحول بن سکے اور بلا امتیاز مذہب وملت ہر فرد بشر کو ترقیات اور ملکی وقومی دھارے سے جوڑا جاسکے، مگر پہلگام حملے کی وجہ سے اُن تمام منصوبوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے جس کا خواب وزیر اعظم نے دیکھا تھا۔
پہلگام سانحے پر آج باشندگانِ ہند بلا امتیاز مذہب وملت بالخصوص ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہے ہیں، یہ ملک ومعاشرت دونوں کے لیے خوش آئند بات ہے کہ ایسے حالات ملک کے اندرخال خال ہی دیکھنے میں آتے ہیں، لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے پھر بھی وزیر اعظم کی طرف سے پہلگام کے مجرموں کی تفتیش کے تعلق سےکوئی تشفی بخش نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اِس کے برعکس جس ذاتی مردم شماری کی مخالفت میں وزیر اعظم اور اُن کے حواریوں نے سارا آسمان اپنےسر پر اُٹھا رکھا تھا اور کل تک جو لوگ قطعی طور پر ذاتی مردم شماری کے حق میں نہیں تھے آج وہی لوگ ذاتی مردم شماری کی وکالت کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جس ملک وقوم کے تحفظ کو لےکر اپوزیشن سے لے کر اقلیت تک ہر ایک کو غدارِ وطن کہتے نہیں تھکتے تھے آج اُسی ملک وقوم کی سلامتی کے لیے قدم اُٹھانے کے نام پر بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن و عوام الناس کو گمراہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ دراصل یہ پہلگام سانحے سے بھٹکانے کی ایک منظم چال ہے۔ آج جس طرح سے اپوزیشن اور عوام الناس ملک وقوم کی بقا کے لیے ہرممکن قدم اُٹھانے میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم اِس موقع کو غنیمت جانتے اور ملک دشمن عناصر کومنھ توڑ جواب دیتے، تاکہ شرپسند عناصر پھر کبھی ہمارے ملک وقوم کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے۔ لیکن اپوزیشن کے مطابق پہلگام سانحے پرجب حکومت کی پالیسی ہی واضح نہیں ہے تو وہ اقدام کیا کریں گے!
لیکن ایسے وحشت ناک عالم میں بھی کچھ عقلمند اَیسے ہیں جو حکومت کی بےجا طرفداری کرنے میں مصروف ہیں، تو ایسے لوگ پہلے جناب مودی کے اُن سوالات کو بغور سن لیں جو اُنھوں نےماقبل میں کانگریس اور ڈاکٹر منموہن سنگھ سے کیا تھا کہ’’مجھے بتائیےکہ دہشت گردوں کے پاس ہتھیار اور گولہ بارود کہاں سے آتے ہیں؟ وہ تو دوسرے ملکوں سے آتے ہیں اور سرحدیں اور فوجی دستے مکمل طور سے آپ (منموہن سنگھ) کے قبضے میں ہیں۔ دہشت گردوں کے پاس مال کہاں سے آتا ہے؟ وہ تو حوالے سے آتا ہے اور منی ٹرانزکشن کا پورا نظام آپ کے قبضے میں ہےکہ یہ تمام لین دین بینکوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ کیا آپ اتنی نگرانی نہیں رکھ سکتے؟دوسرے ملکوں سے مال دہشت گردوں کے پاس جاتا ہے، آپ اُسے روک سکتے ہیں، کیوں نہیں روکتے ہیں؟ باہری ملکوں سےغیرقانونی طور پر آنے والے لوگ دہشت گردی کرتے ہیں اور فرار ہوجاتے ہیں۔ جب ہرطرح کے فوجی دستے آپ کے قبضے میں ہیں، تو یہ دہشت گرد غیرقانونی طور پر ملک کے اندر کیسے داخل ہوجاتے ہیں؟ رابطہ عامہ کا تمام نظام حکومت ہند کے ماتحت ہے۔ کوئی بھی ٹیلیفون، موبائل، ای میل وغیرہ سے پیغامات کی ترسیل وتبلیغ کرتا ہے تو حکومت اُس پر نظر رکھ سکتی ہے اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا پتا لگا سکتی ہے، آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘ لہٰذا جس وزیر اعظم کے عہد میں پہلگام، پلواما، امرناتھ اور گاندر بل کے اندر دہشت گردی انجام پذیر ہوئی، تو کیا وہ وزیر اعظم جواب دہ نہیں؟
قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی طرف سےجویہ حکم نامہ صادر ہوا ہے کہ جتنے بھی پاکستانی ہیں وہ اوّل فرصت میں ہندوستان چھوڑدیں، تو یہ کہاں تک درست ہے؟ کیا اِس کے باعث دہشت گردوں کی کمرٹوٹ جائےگی؟ ایک تو 22؍ اپریل پہلگام میں ہوئے سانحے کے دوران دہشت گردوں کی طرف سے جو کچھ جانی ومالی نقصان ہوا ، عوام ہی کا ہوا، اَور آج انتقال مکانی کے نام پر جوکچھ نقصانات ہو رہے ہیں وہ بھی عوام ہی کو اُٹھانے پڑ رہے ہیں۔ پھر جس طرح پاکستانی لوگ واپس جارہے ہیں اُسی طرح ہندوستانی لوگ بھی واپس آرہے ہیں۔ ہندوپاک سرحد کے حالات دیدنی ہے۔ شوہر کی بیوی سے جدائی ہو رہی ہے اور بیوی کی شوہر سے۔ بچےاپنے والد ووالدہ سے بچھڑ رہے ہیں اور والدو والدہ اپنے بچوں سے۔ بڑوں کا اقتصاد ومعاش چرمرا رہا ہے، تو بچوں کی تعلیم وتربیت کا خسارہ ہورہا ہے۔ عجب افراتفری کا عالم ہے، لیکن کوئی نہیں جو عوام الناس کے دکھ- درد اور کسک کو سمجھ سکے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کا کیا قصور ہے ؟ والدہ ووالدہ کا کیا جرم ہے؟ بچوں کی کیا غلطی ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ جرم تو شرپسند اور دہشت پسند کریں اور سزا بےگناہ عوام کو ملے؟

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں