سیاسی بصیرت

حزب مخالف، حکمراں جماعت کو کمزور نہ سمجھے!

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

حالات زمانہ اور ملکی ضروریات کے پیش نظردستوری دفعات میں تبدیلی لانا اور اُنھیں عوامی مفاد سے جوڑنا بلاشبہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔ یہ اُسی صورت میں بہتر ہے جب ملکی باشندگان کے مفاد کا خیال رکھا جائے اور اُنھیں کے ترقیاتی منصوبوں کی خاطر تبدیلی لائی جائے۔ لیکن اگر اُس کے پیچھے سیاسی مفاد کار فرما ہو، تو یہ نہ صرف جمہوریت کے لیے زہرقاتل ہے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سخت نقصان کا باعث ہے۔ لہٰذا پارلیمانی اجلاس کے ٹھیک دو دِن پہلے وزرا دستبرداری قانون کی وکالت کرنے اور اُس کے نفاذ پر اِیڑی چوٹی کا زور لگانے کو سیاسی ماہرین و مبصرین اِسی منفی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بظاہر مذکورہ قانون ملک و قوم کے حق میں بہت ہی مفید ثابت ہوسکتا ہے اور ایک صاف و شفاف حکومت کے لیے یہ قدم انتہائی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن 20؍ اگست 2025ء کو وزیر داخلہ کی طرف سے جس عجلت اور جس نوعیت میں اُسے نافذ کرنے کی بات کہی گئی اُس سے واضح ہوتا ہے کہ اِس قانون کے مثبت اِستعمال کی گنجائش کم اور اُس کے منفی اِستعمال کا خدشہ زیادہ ہے۔ پھر جس طرح سے اِس قانون کو عام افسران سے جوڑ کر دیکھانے کی کوشش کی جارہی ہے اُس سے بھی یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اِس قانون کے نفاذ کے پیچھے کلی طور پر منفی ذہنیت کام کررہی ہے۔
غور کیا جائے تو عام افسران جو کم و بیش چالیس-پچاس برسوں تک ملازمت کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی الزام میں 30؍ دن یا اُس سے زیادہ دنوں تک جیل میں رہتے ہیں، تو قانون کے مطابق اُنھیں معطل مان لیا جاتا ہے اور جب وہ بری ہوتے ہیں تو نہ صرف اُن کی ملازمت بحال کردی جاتی ہے بلکہ جب تک وہ جیل میں رہتے ہیں اُس مدت کی بھرپائی بھی کردی جاتی ہے کہ اُن کی رُکی ہوئی تنخواہیں اُنھیں ادا کی جاتی ہیں۔ اِس کے برخلاف ایک وزیر کی مدت کار صرف پانچ سال ہوتی ہے۔ اب اگر وہ کسی غلط مقدمے کی وجہ سے 30؍ دن یا اُس سے زائد دنوں تک جیل میں رہتا ہے، تو اُس کی وزارت چلی جائےگی، لیکن اگر وہ سال دوسال کے بعد تمام تر اِلزامات سے بری ہوجاتا ہے اور اُس پر فرد جرم عائد نہیں ہوتا، تو اُس صورت میں کیا ہوگا؟ اُس وزیر کا گزرا ہواسال کیسے واپس کیا جاسکتا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔
مذکورہ قانون کے سلسلے میں سیاسی مبصرین و ناقدین کی طرف سے جو خلاصے سامنے آرہے ہیں اُن سے بھی یہ سمجھنا بڑا آسان ہوجاتا ہے کہ اِس قانون کے پردے میں دراصل حکمراں جماعت ہمیشہ کی طر ح ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ راہل گاندھی نے جب سے ووٹ چوری کا انکشاف کیا ہے تبھی سے حکمراں جماعت صدمے میں ہے اور اُس صدمے سے نکل نہیں پارہی ہے۔ ایک تو ملکی سطح پر بدنامی ہورہی ہے، دوسرے الیکشن کمیشن کی طرف سے دیے جارہے غیرذمہ دارانہ جوابات نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے، تیسری طرف راہل گاندھی کے بہار دورے نے نیندیں اُڑا رکھی ہیں اور چوتھی طرف عدالت عظمیٰ کی طرف سے آرہے تابڑ توڑ فیصلوں نے ناک میں دم کررکھا ہے۔ اِسی کے ساتھ آسام حکومت نے اڈانی کو 3000؍ بیگہا زمین سیمنٹ فیکٹری چلانے کے لیے فراہم کررکھا ہے، تو اِس وجہ سے بھی اُس کی چوڑی پکڑی گئی ہے کہ ایک طرف تو آسام حکومت حقداروں کو اُن کے حقوق نہیں دے رہی ہے، اُن کے مکانات پر بلڈوزر تک چلوارہی ہے۔ دوسری طرف اُنھیں کی زمینوں کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کے نام کررہی ہے۔ جب کہ اِس سے پہلے امریکا نے ٹیرف میں اضافہ کرکے حکمراں جماعت کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اِس طرح سیاسی و سماجی اور ملکی و بیرونی تمام سطح پر حکمراں جماعت پھنستی نظر آرہی ہے اور اِن تمام مشکلات سے نکلنے کے لیے اُسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے، چناں چہ وزرا دستبرداری قانون کا مسئلہ اِسی لیے چھیڑا گیا ہے تاکہ اُس کے پردے میں ایک طرف عوام الناس کو اَصل ایشوز سے بھٹکا دیا جائے اور دوسری طرف حزب اختلاف پر بھی دباؤ بنایا جائے کہ وہ حکومت کے سامنے مزید مسائل نہ کھڑی کرسکے۔
بعض ذرائع کے مطابق یہ قدم حزب اختلاف کے ساتھ اپنی حلیف جماعتوں کو بھی سبق سکھانے اور اُنھیں حد میں رہنے کی غرض سے اُٹھایا گیا ہے۔ کیوں کہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کب بدل جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے، اور رہ گئی چندر بابو نائیڈو کی بات، تو ووٹ چوری کے معاملے پر وہ بھی حکمراں جماعت کا کان کھینچ چکے ہیں، اِس لیے حکمراں جماعت نے اُن خطرات کو بھانپ لیا ہے جو مستقبل قریب میں اُنھیں نیست ونابود کرسکتے ہیں۔
فی الحال ریاست بہار میں نتیش کمار، تو مستقبل میں چندر بابو نائیڈو مرکز کے لیے روڑے ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ سیاسی خدشات ہیں جن سے نہ توصرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُنھیں یکسر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اِسی کے ساتھ حزب اختلاف کو بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ اُس نے ووٹ چوری کا ایٹم بم داغ کر بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ کیوں کہ اِس قدر سنگین الزام کے باوجود اگر حکمراں جماعت دباؤ میں آنے کو تیار نہیں ہے، بلکہ خود حزب اختلاف پر دباؤ بنانے میں پیش پیش ہے، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی بساط پرمات دینے کے لیے وہ کیا کچھ کرسکتی ہے۔
اِس میں بھی شک نہیں کہ فی الحال حزب اختلاف، حکمراں جماعت کے مقابلے آگے ہے، لیکن یہی حالات آنے والے دنوں میں بھی رہیں گے یا نہیں، اِس پر بھی نظر رکھنا حزب اختلاف کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اور صرف ووٹ چوری کے سہارے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ بلکہ اُن تمام مسائل کو بھی عوام الناس کے سامنے رکھنا چاہیے جو اِین ڈی اے حکومت میں موضوع بحث ہیں۔ علاوہ ازیں اُن افراد کی پشت پناہی کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جو وقتاً فوقتاً حکمراں جماعت کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں سردست ابھیشار شرما قابل ذکر ہیں جنھوں نے آسام حکومت پر تنقید کی تو اُن پر ایف آئی آر درج کردیا گیا، جب کہ اِس سے پہلے اجیت انجم پر ایس آئی آر کی صداقت باہر لانے کے عوض الیکشن کمیشن کی طرف سے ایف آئی آر کی جاچکی ہے۔
حزب اختلاف کو یہ بھی کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حکمراں جماعت تمام تر دباؤ کے باوجود ایک چیلنج کی طرح سامنے کھڑی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وزرا دستبراری قانون کے سہارے حکمراں جماعت میدان عمل میں اپنا قدم رکھ چکی ہے اور پوری تیاری کے ساتھ قدم بڑھانے کے لیے پُرعزم بھی ہے، بلکہ 22؍ اگست 2025 ء کو اَپنے بہار دورے سے وزیراعظم نے یہ اشارہ دے دیا ہے، جب اُنھوں نے یہ کہا کہ ’’ہم نے ایک ایسا قانون لایا ہے کہ اگر کوئی وزیر یا وزیراعلیٰ یا وزیر اعظم 30؍ دن قید رہے تو اُنھیں برخاست کردیا جائے گا۔ لیکن جب ہم نے یہ سخت قانون لایا، تو اپوزیشن جماعتیں ناراض ہوگئیں، کیوں کہ اُنھیں اپنے بدعنوان ہونے اور سزا پانے کا خوف ستارہا ہے۔‘‘ مزید جس اندازسے اُنھوں نے لالٹین عہد پر تنقید کیا ہے اُس سے بھی حزب اختلاف کو متنبہ ہوجانا چاہیے۔ اگر حکمراں جماعت، عوام الناس کو یہ نیا قانون سمجھا لےگئی، تو نہ ووٹ چوری کا ایٹم بم کچھ کام آئےگا اور نہ ہی کوئی یاترا۔ غرض یہ کہ حزب اختلاف کو بڑی ہی حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اورعوام الناس کو بہرحال یہ احساس دلانا ہوگا کہ حکومت کی طرف سے لایا گیا قانون کس طرح سیاہ اور خطرناک ہے۔ ہمارے خیال سے اَندھا دھند مخالفت کرنے کی بجائے حزب اختلاف کو کچھ ایسے شق کی شمولیت پر زوردینا چاہیے کہ جس کے باعث کوئی اُس قانون کا اِستعمال منفی طورپر نہ کرسکے، اور اِلزام ثابت نہ ہونے پرمتعلقہ افسران و حکمران از خود عمرقید کے سزاوار ٹھہرجائیں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں