رکشا بندھن کے دن چچیرے بھائی نے 14سالہ بہن سے زیادتی کے بعد قتل کیا

یوپی: رکشا بندھن پر چچیرے بھائی نے 14 سالہ بہن سے راکھی بندھوا کر زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ پولیس نے خون آلود ثبوتوں سے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
یوپی کے ضلع اورئیا میں رکشا بندھن کے موقع پر پیش آنے والا یہ واقعہ انسانی وحشت کی انتہا کو چھو گیا ہے۔ ایک 14 سالہ معصوم بچی جس نے اپنے چچیرے بھائی کو رکھی باندھ کر بھائی چارے کا مقدس رشتہ نبھایا، اسی کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ رکشا بندھن کی صبح جہاں خوشیاں منانے کا موقع تھا، وہیں رات نے ایک ایسا المیہ دیکھا جو خاندانی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن گیا۔واقعہ کی تفصیلات دل دکھانے والی ہیں۔ ملزم نے نہ صرف اپنی ہی خون کے رشتے کی بے حرمتی کی بلکہ اس کے بعد اسے بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو پھانسی کا منظر بنا دیا۔ سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جب یہ سانحہ پیش آیا، لڑکی کا باپ اسی گھر میں موجود تھا مگر اسے کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ صبح جب اس نے اپنی بیٹی کو کمرے سے لٹکا ہوا دیکھا تو اس کا دنیا تاریک ہو گئی۔پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں ہی اس واقعے کو خودکشی نہیں بلکہ قتل قرار دیا۔ کمرے میں خون کے دھبے، لڑکی کے جسم پر زخموں کے نشانات اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنسی زیادتی کے ثبوت نے ملزم کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس نے نوٹس لیا کہ تفتیش کے دوران ملزم کا رویہ مشتبہ تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میں دخل دے رہا تھا، جس سے اس پر شک ہوا۔
گھر کی تلاشی میں ملنے والا خون آلود پتلون اس کے جرم کا اہم ثبوت بنا۔ جب ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ خون مقتولہ سے ملا تو ملزم کے پاس کوئی راہ فرار نہ رہی۔ پولیس کی کڑی تفتیش کے بعد اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ اس نے بتایا کہ وہ شراب کے نشے میں تھا اور اس نے موقع کو بھانپتے ہوئے یہ سنگین جرم انجام دیا۔یہ واقعہ صرف ایک جرم نہیں بلکہ ہماری سماجی اقدار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ رشتوں کی پاکیزگی، خواتین کی حفاظت، اور انصاف کے نظام پر یہ ایک بھیانک طنز ہے۔ لڑکی کے والد کے لیے یہ سخت صدمے کی بات ہے کہ جس رشتے کو وہ مقدس سمجھتا تھا، اسی نے اس کی بیٹی کو اس کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا۔پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور عدالتی کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ایک مجرم کو سزا مل جانے سے معاشرے سے اس قسم کے جرائم ختم ہو جائیں گے؟ کیا ہم نے اپنے گھروں، اپنے بچوں کی تربیت، اور سماجی رویوں پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے؟
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سماجی ڈھانچے، اخلاقی اقدار، اور خواتین کے تحفظ کے لیے اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ عورت کی عزت اور اس کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صرف تب ہی ہم ایسے واقعات کو روک سکیں گے اور ایک محفوظ معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔اس سانحے نے نہ صرف ایک خاندان کو تباہ کیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کا باعث بنے گا اور ہم اپنے اردگرد موجود خطرات کو پہچان کر ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں گے۔ عدالت سے انصاف ملنا ضروری ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے آگاہی پیدا کریں۔