خبرنامہ

تجارتی کشیدگی میں نیا موڑ: ٹرمپ کا سخت مؤقف، بیجنگ کا دبنگ جواب

ٹرمپ نے چین پر 125 فیصد ٹیرف لگا کر تجارتی جنگ تیز کر دی، جبکہ چین نے بھی 84 فیصد جوابی محصول عائد کر کے محاذ آرائی کا اشارہ دے دیا۔

امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں درجنوں ممالک پر عائد کیے جانے والے اضافی ٹیرف وقتی طور پر روک دیے، لیکن چین کے لیے اس میں کوئی نرمی نہیں دکھائی گئی۔ چین، جو امریکہ کی درآمدات کا تقریباً 14 فیصد حصہ مہیا کرتا ہے، اس پر 125 فیصد تک ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ اس سخت رویے کا جواز صدر ٹرمپ نے یہ دیا ہے کہ چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد جوابی ٹیرف لاگو کیے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی کمپنیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا کاروبار امریکہ منتقل کریں، جہاں نہ صرف زیرو ٹیرف ہوں گے بلکہ فوری توانائی کنکشنز اور اجازت نامے بھی دستیاب ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ کمپنیاں وطن واپسی پر غور کریں۔ ان کے نزدیک یہ محض ایک تجارتی جھگڑا نہیں بلکہ ایک ایسا مشن ہے جو وہ اپنی پہلی صدارت میں مکمل نہیں کر سکے تھے۔ وہ عالمی تجارتی نظام کو چیلنج کر رہے ہیں، ایک ایسا نظام جو چین کو دنیا کی سب سے بڑی پیداواری طاقت میں تبدیل کر چکا ہے۔
چند سال قبل تک چین عالمی معیشت کے لیے ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ دنیا بھر کی کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کر رہی تھیں اور وہاں کے سستے مزدوروں اور بڑھتے ہوئے صارفین سے فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ یہ خیال بھی غالب تھا کہ جیسے جیسے چین میں دولت بڑھے گی، ویسے ویسے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ بھی بڑھے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ چین نے اپنی سیاسی گرفت مزید مضبوط کی اور 2015 میں ’میڈ ان چائنا 2025‘ جیسی پالیسیاں متعارف کروائیں جن کا مقصد دنیا میں جدید صنعتوں میں سبقت حاصل کرنا تھا۔
اس پس منظر میں جب ٹرمپ سیاست میں آئے تو ان کے بیانیے کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ چین کے عروج نے امریکی معیشت کو کمزور کیا ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد تجارتی جنگ کا آغاز ہوا اور چین پر لگنے والے ٹیرف نے عالمی سطح پر معاشی اتحاد کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کے بعد صدر جو بائیڈن نے آکر اگرچہ کچھ نرم لہجہ اپنایا، لیکن زیادہ تر ٹیرف برقرار رکھے۔ اس دوران چین نے اپنا صنعتی ماڈل مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا اور آج بھی وہ دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں اور بیٹریاں تیار کرتا ہے۔
اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ سیاسی میدان میں سرگرم ہو چکے ہیں، تجارتی کشمکش کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ چین نے جواب میں امریکی مصنوعات پر ٹیرف 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد کر دیے ہیں، جس کا براہِ راست اثر ان امریکی کمپنیوں پر پڑے گا جو چین میں اپنا مال بیچنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی بیجنگ نے مزید اقدامات کے اشارے بھی دیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں۔یہ صورتحال کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا چین مذاکرات کی امریکی پیشکش قبول کرے گا؟ اگر ہاں، تو کیا وہ ان شرائط پر آمادہ ہو گا جن کا تقاضا امریکہ کر رہا ہے، جیسے کہ اپنی برآمدی معیشت کا ڈھانچہ تبدیل کرنا؟ اور ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا خود امریکہ اب بھی آزاد تجارت پر یقین رکھتا ہے؟
صدر ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ درآمدی محصولات امریکہ کے لیے فائدہ مند ہیں کیوں کہ وہ مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہیں، لیکن اگر چین نے محسوس کیا کہ یہ صرف اسے کمزور کرنے کی کوشش ہے تو وہ مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں محاذ آرائی کی راہ پر چل نکلیں گی ۔ ایک ایسی جنگ جس کا نتیجہ نہ صرف ایک فاتح کا تعین کرے گا بلکہ عالمی معیشت کی سمت بھی بدل سکتا ہے۔ یہ ایک نازک موڑ ہے جہاں سے واپسی آسان نہیں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر