شناخت

مخدوم علاء الحق پنڈویؒ: حیات اور کارنامے

محمد شہباز عالم مصباحی

ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز

مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈویؒ برصغیر کی اسلامی تاریخ میں ایک درخشاں نام ہیں۔ ان کی شخصیت اپنے وقت کے علمی، روحانی اور سیاسی حلقوں میں غیرمعمولی اثر و رسوخ کی حامل تھی۔ ان کا مقام علم و عرفان کی دنیا میں ایسا بلند تھا کہ علما و مشائخ ان کے در کی جبیں سائی کو باعثِ شرف گردانتے تھے۔

پیدائش اور نسب:
شیخ علاء الحق پنڈویؒ کی ولادت 701ھ (1302ء) میں ہوئی۔ مؤرخین میں ان کی جائے پیدائش کے حوالے سے اختلاف ہے۔ بعض نے پنڈوہ جبکہ بعض نے لاہور کو ان کی جائے ولادت قرار دیا۔ راجح قول یہ ہے کہ ان کی پیدائش لاہور میں ہوئی، جیسا کہ مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے ایک قول سے یہ ثابت ہوتا ہے۔

آپ کا نسب حضرت خالد بن ولیدؓ سے جا ملتا ہے، جو آپ کی نسبی عظمت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ تاریخی کتب میں آپ کے والد کا نام “اسعد” ملتا ہے، جو شاہی دربار کے وزیر مالیات تھے، جبکہ شیخ علاء الحق خود بھی علمی اور حکومتی حلقوں میں ایک اہم شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔

علمی و روحانی مقام:
شیخ علاء الحق پنڈویؒ کو علم ظاہری اور علم لدنی دونوں حاصل تھے۔ آپ فقہ، اصول، عربی ادب، حدیث، تفسیر اور دیگر علوم میں یکتائے زمانہ تھے۔ مصنفین نے لکھا کہ آپ کی شہرت نہ صرف برصغیر بلکہ دیگر ممالک تک بھی پھیلی ہوئی تھی۔

شیخ محمد غوثی شطاری کے مطابق، آپ “دونوں جہانوں کے امام” تھے اور آپ سے علم حاصل کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ کے شاگردوں میں کئی ممتاز علما شامل ہیں، جنہوں نے آپ کے علمی ورثے کو آگے بڑھایا۔

لقب “گنج نبات”:
شیخ علاء الحقؒ کو “گنج نبات” یعنی مٹھائی کا خزانہ کہا جاتا تھا۔ اس لقب کے پیچھے کئی روایات کارفرما ہیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق یہ لقب ان کے علمی، روحانی اور سماجی اثرات کی عکاسی کرتا ہے، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے خلیفہ مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ نے ان کے لیے یہ لقب اظہار عقیدت کے طور پر استعمال کیا۔

تصوف کی جانب سفر:
حضرت شیخ علاء الحقؒ کی زندگی میں انقلاب کا آغاز اس وقت ہوا جب سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءؒ دہلوی نے اپنے خلیفہ، حضرت شیخ سراج الدین اخیؒ کو آپ کے پاس مرشد کی حیثیت سے بھیجا۔ حضرت شیخ سراجؒ کی صحبت اور تربیت نے آپ کے جلال کو جمال سے ہم آہنگ کر دیا اور آپ کو علم باطن و تصوف کی منازل طے کرنے کا موقع فراہم کیا۔ بیعت و خلافت کے بعد آپ “شیخ العالم” اور “سلطان المرشدین” کے بلند القابات سے سرفراز ہوئے اور سلسلۂ چشتیہ کے عظیم رہنما بن کر ابھرے۔

خدمتِ مرشد کی انوکھی مثال:
حضرت شیخ علاء الحقؒ کی زندگی کا سب سے منفرد پہلو ان کی اپنے مرشد کے لیے بے مثال خدمت تھی۔ “خزینۃ الاصفیاء” کے مطابق آپ حضرت شیخ سراج الدین اخیؒ کے ہمراہ ہر سفر میں شریک رہتے اور درویشوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے۔ آپ دیگچہ اپنے سر پر رکھ کر چلتے اور اس کی گرمی سے آپ کے سر کے بال جھڑ گئے، لیکن آپ کے چہرے پر کبھی کوئی شکایت نظر نہ آئی۔

مرشد کی پالکی کا ایک ڈنڈا اکثر آپ کے کندھے پر ہوتا اور آپ ننگے پاؤں اپنے امیر رشتہ داروں اور افرادِ خاندان کے محلوں کے قریب سے گزرتے، لیکن دنیاوی چمک دمک سے آپ کے دل پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ “لطائف اشرفی” میں مذکور ہے کہ مرشد آپ کی اس خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔

حضرت مخدوم علاء الحقؒ کی عاجزی، خدمت، مرشد کی اطاعت اور اس کے صلے میں ملی روحانی عظمت نے انہیں تصوف کی دنیا میں وہ مقام عطا کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

دعوت و تبلیغ:
آپ سلسلۂ چشتیہ کے جلیل القدر مشائخ میں سے تھے، جن کی روحانی تعلیمات اور تربیت نے بے شمار لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کیا۔ آپ کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا، اور بے شمار گناہ گاروں نے اپنی زندگیاں بدل کر نیکی و پارسائی کی راہ اپنائی۔ آپ کی صحبت میں رہ کر علماء اور فضلاء کی ایک بڑی جماعت نے علمی و روحانی فیض حاصل کیا اور پورے بنگالہ، آسام اور ملک چین اور برما (میانمار) میں اسی جماعت نے اسلامی انقلاب برپا کیا۔

آپ کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ آپ کے زیر سایہ رہنے والے افراد تہذیب یافتہ، باشعور اور بااخلاق بن گئے۔ گنواروں نے شائستگی اختیار کی، بے علموں نے علم کی روشنی پائی، اور بدکرداروں نے نیک سیرتی کو اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات کو “مخدوم العالم” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

سخاوت اور جلا وطنی کا واقعہ:
حضرت مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کی سخاوت و فیاضی ان کی زندگی کا ایک ایسا درخشاں پہلو ہے جس نے انہیں عوام و خواص میں مقبولِ عام بنایا۔ آپ کی خانقاہ ہر خاص و عام کے لیے کھلی رہتی تھی، جہاں مسافروں اور ضرورت مندوں کے لیے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا وسیع انتظام ہوتا تھا۔ آپ کے دستِ سخا کی شہرت نے وقت کے بادشاہ کے دربار تک پہنچ کر ایک منفرد تاریخ رقم کی۔

بادشاہ کا ردِ عمل:
بادشاہ وقت، جو اپنی سلطنت اور خزانے کی دیکھ بھال کے حوالے سے حساس تھا، جب آپ کی بے پناہ فیاضی کی خبر سے واقف ہوا تو حیرانی اور رشک کے ملے جلے جذبات کا شکار ہوا۔

پنڈوہ شریف سے سنارگاؤں تک جلاوطنی:
بادشاہ نے فوری طور پر حضرت شیخ علاء الحق کو پنڈوہ شریف چھوڑنے کا حکم دیا، جس پر آپ نے صبر و رضا کے ساتھ عمل کیا اور سنار گاؤں (بنگلہ دیش) منتقل ہوگئے۔ جلاوطنی کے باوجود آپ کے جذبۂ سخاوت میں کوئی کمی نہ آئی۔ روایت کے مطابق، جب آپ نے نئے علاقے میں قدم رکھا تو اپنے خادم کو ہدایت کی کہ خرچ پہلے سے بھی دگنا کر دیا جائے تاکہ حاسدوں کو مزید جلایا جا سکے۔

وصال اور عرس مبارک:
حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مشہور روایت کے مطابق 800 ہجری (1398 عیسوی) میں ہوا، جبکہ بعض محققین کے مطابق آپ نے 780 ہجری (1378 عیسوی) میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار مبارک مغربی بنگال کے ضلع مالدہ کے شہر پنڈوہ شریف میں واقع ہے، جو آج بھی عقیدت مندوں کے لیے مرکزِ فیض ہے۔ ہر سال 22 سے 24 رجب المرجب کو آپ کا عرس عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے، جس میں ملک و بیرونِ ملک سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔

جانشینانِ مخدوم العالم:
آپ کے وصال کے بعد آپ کے عظیم و ممتاز خلیفہ مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے صاحبزادے قطب وقت شیخ احمد نور الحق معروف بہ نور قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مشن کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی۔ ان بزرگوں کی کاوشوں نے دین اسلام کی روشنی کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا۔

اختتامیہ:
شیخ علاء الحق پنڈویؒ برصغیر کی تاریخ کی ان نادر شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے علم و عرفان، خدمت و اطاعت، دعوت و تبلیغ اور اخلاق و عمل کے میدانوں میں اپنی عظمت کے بے مثال نقوش چھوڑے۔ ان کی زندگی آج بھی علما، مشائخ اور عوام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

شناخت

مبلغ اسلام حضرت علامہ محمد عبد المبین نعمانی مصباحی— حیات وخدمات

از:محمد ضیاء نعمانی مصباحی متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی اور قوم
شناخت

فضا ابن فیضی شخصیت اور شاعری

17 جنوری آج مشہور معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم وفات ہے فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی