مجمع البحرین: احوال و آثار

ابراررضامصباحی
مجمع البحرین،مقبول الحق حضرت مفتی شاہ محمد عبید الرحمن رشیدی قدس سرہ علم و فن اور فضل و کمال میں اپنے اسلاف و اکابر کی ایک عظیم یادگارتھے۔آپ ایک بلند پایہ عالم و محقق اور ممتاز فقیہ و متکلم ہونے کے ساتھ ایک بافیض شیخ طریقت اورعظیم ہادیِ معرفت تھے۔ علومِ معقولات و منقولات دونوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ درسی و فنی صلاحیتوں اور فقہی و تحقیقی بصیرتوں کے سبب اپنے اساتذہ و اکابر کے محبوبِ نظراور مقبولِ نگاہ تھے۔ وسعت ِمطالعہ، تعمقِ فکر،قوتِ استخراج،استحضارِ علمی اورمتانتِ ذہنی کی وجہ سے معاصرین میں ایک امتیازی شان اور نمایاں پہچان رکھتے تھے ۔
نام و نسب:
آپ کا اسم گرامی’محمدعبید الرحمٰن‘،لقب ’مجمع البحرین‘ و’مقبول الحق‘ ہے ۔ مریدین و معتقدین میں ’حضرت صاحب‘سے متعارف ہیں۔ سلسلۂ نسب ۷؍ واسطوں سے حضرت غلام شہ نقی آخون قدس سرہ تک پہنچتا ہے جو ایران سے ترکِ وطن کرکے ہندوستان آئےتھے ۔ ان کے صاحب زادےحضرت شاہ علی آخون تھےجومخدوم العالم حضرت مخدوم شیخ علاء الحق پنڈوی قدس سرہ کے مرید و فیض یافتہ تھے۔ آپ کے خاندانی بیاض میں مذکور ہے کہ جب مخدوم علاء الحق پنڈوی نے غوث العالم حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیر سمنانی قدس سرہ کو خرقۂ خلافت عنایت کرکے انھیں ولایت کچھوچھہ عطا کی تو اس مجلس میں شاہ علی آخون موجود تھے ۔
ولادت وسکونت:
آپ کی ولادت موضع بینی باڑی ضلع کٹیہار بہار میں ۸؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو ہوئی۔
بینی باڑی ایک مردم خیز گاؤں ہے۔یہاں کئی ممتاز اور باکمال علما و فضلا پیدا ہوئے جن میں مولانا شاہ سکندر علی رشیدی،مولانا شاہ حکیم لطیف الرحمٰن شاہدی ،مولانا عبد الرحمٰن قادری قابل ذکر ہیں۔ان حضرات نے سیمانچل میں علمی و دینی اعتبار سے اہم کارنامے انجام دیے ہیں ۔
آپ کا گھرانہ اپنے دیار کاایک معززاور باوقار خاندان ہے جو شروع ہی سے شرافت و نجابت کا پاسباں، علم و ادب کا پروردہ اور اخلاق و محبت کا گہوارہ رہا ہے۔
والد و مربی:
آپ کے والد بزرگ وار، زبدۃ الاتقیاءحضرت مولاناحکیم شاہ لطیف الرحمٰن رشیدی تھےجوایک جید عالم،نغزگو شاعر، مشہور حکیم ، باکما ل عارف اور عظیم روحانی پیشوا تھے ۔ مدرسہ جمالیہ چمنی بازارپورنیہ،مدرسہ حنفیہ جون پور اورتکمیل الطب لکھنؤ کے تعلیم یافتہ تھے۔ شہود الحق حضرت سید شاہ شاہد علی سبزپوش رشیدی فانی گورکھ پوری قدس سرہ (نویں سجادہ نشیں خانقاہ رشیدیہ جون پور) کے سعادت مندمریداور نیک نام خلیفہ اورقطب پورنیہ حضرت مولانا شاہ سکندر علی رشیدی پورنوی علیہ الرحمہ کے تلمیذارشد اور خلیفہ و جانشیں تھے۔انھوں نے درس و تدریس، طب و طبابت، رشد و ہدایت، اخلاق و محبت اور شعر و سخن کے فروغ میں اہم خدمات انجام دیں۔ یہ خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار کے نگراں و منتظم اور دار العلوم مصطفائیہ کے معلم تھے۔انھوں نے اپنی مخلصانہ کاوشوں سے خانقاہ مصطفائیہ اور دار العلوم مصطفائیہ کی تعمیر و ترقی کو بامِ عروج تک پہنچایا اورکارِ طبابت کو اختیار فرماکر اس فن کی ترویج فرمائی۔ ان کےتحریری نقوش میں مکتوبات اور مجموعۂ اشعار وغیرہ ہیں۔ ۵؍ جمادی الاخریٰ کی شب۱۴۰۳ھ میں ان کا انتقال ہوا۔مزار اقدس درگاہ شریف چمنی بازار میں چھوٹی درگاہ میں واقع ہے ۔
تعلیم وفراغت:
یوں تو آپ نے اپنی تعلیم غیر رسمی طور پراپنے گھر پر ہی شروع کردی تھی،لیکن حضرت مولانا شاہ سکندر علی رشیدی علیہ الرحمہ کے غالباً پہلے یا دوسرے عرس کے موقع پر جب آپ اپنے والد بزرگ وار کے ہمراہ درگاہ شریف چمنی بازارگئے تو اس بابرکت موقعے پر آپ کی باقاعدہ بسم اللہ خوانی کی تقریب انجام پائی ۔ آپ کی بسم اللہ خوانی آپ کےوالد بزرگ وار کی موجودگی و نگرانی میں حضرت منشی سید عبد الستار شاہدی نے کرائی جو آپ کے والد ماجد کے مخلص برادرِ طریقت اوررفیق دیرینہ تھے اور یہ بسم اللہ خوانی انھوں نے آپ ہی کے والد محترم کے اصرار پر کرائی تھی۔ بعد میں یہی منشی عبد الستار آپ کے خسر محترم بھی ہوئے۔
آپ نے ناظرہ سے لے کر شرح جامی تک کی تعلیم یہیں خانقاہ کےدار العلوم مصطفائیہ میں اپنے والد بزرگ وار شاہ حکیم لطیف الرحمٰن رشیدی،مولانا شاہ غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی ، مولانا معین الدین خاں اعظمی،مفتی شریف الحق امجدی،مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی وغیرہم کی صحبت میں رہ کر حاصل کی ۔ اس کے بعد ۱۹۶۱ء میں اثناے سال یعنی ربیع الاول میں اپنے استاذ گرامی زعیم العلماء حضرت مولانا شاہ غلام محمدیٰسین رشیدی پورنوی کے حسبِ ایما جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس پہنچے ۔یہاں شعبان تک یعنی چھ مہینے شمس العلما ء حضرت مولانا قاضی شمس الدین جون پوری اور رئیس المتکلمین حضرت مولانامحمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری سے تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد۱۹۶۲ء میں مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف پہنچے۔یہاں ایک سال رہ کر آپ نے حضرت مولانامبین الدین محدث امروہی، حضرت مولاناتحسین رضا خاں محدث بریلوی، حضرت مفتی بلال احمد نوری پورنوی وغیرہم سے کتب درسیہ پڑھیں۔اس کے بعد ۱۹۶۴ء میں دار العلوم اشرفیہ مبارک پور آئےاور ’’ملاحسن ‘‘کی جماعت میں داخل ہوئے ۔ یہاں آپ کی کتابیں حافظ ملت حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری، غزالی عصر حضرت مولانا حافظ عبد الرئوف بلیاوی، اشرف العلماء حضرت مولانا سید حامد اشرف اشرفی کچھوچھوی اور شیخ المعقولات حضرت مولانا مظفر حسن ظفر ادیبی مبارک پوری کے زیر تدریس رہیں۔ یہیں سے ۱۰؍ شعبان ۱۳۸۷ھ / ۱۳؍ نومبر ۱۹۶۷ء کو علوم و فنون کی تکمیل فرماکر آپ فارغ التحصیل ہوئے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ کی فراغت در اصل۱۹۶۶ء میں ہونی تھی ، لیکن حافظ ملت نے آپ کو اس سال دستار و سند لینےسے منع کردیا اور فرمایا: ’’تمھیں یہاں مزید تعلیم حاصل کرنی ہے ‘‘۔ آپ نے فرمایا :میں اپنے والد اور گھر کے افراد کو یہ کہہ آیا ہوں کہ اس سال میری فراغت اور اشرفیہ کا آخری سال ہے ۔ حافظ ملت نے فرمایا :’’ میں تمھارے والد کو خط بھیج کر اس کی اجازت لے لیتا ہوں‘‘۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ آپ کےوالد مکرم نے حافظ ملت کی خواہش کے مطابق تعلیم کے لیے آپ کو دو سال کی مزید مہلت دے دی ۔ اس طرح آپ بجاے ۱۹۶۶ء کے۱۹۶۷ء میں فارغ ہوئے۔
عقد مسنون:
آپ کی شادی آپ کے والد بزرگ وار کے حکم پر ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۲ء میں ماہ رمضان المبارک میں منشی میرسیدعبد الستار شاہدی کی بڑی صاحبزادی سیدہ شاہدہ خاتون سے ہوئی ۔آپ کے خسر محترم اپنے علاقے کے معزز اور باوقارافراد میں شمار کیے جاتے تھے ۔ سلسلۂ رشیدیہ سے وابستہ اورخانقاہ رشیدیہ جون پور کے نویں سجادہ نشیں شہود الحق حضرت سید شاہد علی سزپوش فانی گورکھ پوری قدس سرہ سے بیعت تھے اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے اپنی دختر نیک اختر کا نام اپنے پیر ومرشد کے نام نامی کا لحاظ رکھتے ہوئے’’ شاہدہ خاتون‘‘ رکھا تھا۔ حضرت سیدہ شاہدہ بھی حضرت شہود الحق ہی سے بیعت تھیں اور بیعت کے بعدحضرت شہود الحق نے فرمایا تھا : ’’اس بچی کی زبان بہت نفیس اور نہایت صاف اورشستہ ہے‘‘۔
حضرت مخدومہ ایک دینی ماحول کی پروردہ اور تعلیم یافتہ تھیں اوربڑی پابند صوم وصلاۃ تھیں۔صبر و قناعت کافی تھی۔اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت بڑی ذمے داری سے نبھاتی تھیں ۔ ۲۰۱۱ء میں ان کا انتقال ہوا اور بینی باڑی ہی میں خاندانی قبرستان میں مدفون ہیں۔
حضرت مخدومہ کے بطن سے تین صاحب زادیاں:عُلیہ خاتون،سعدیہ خاتون،ذاکیہ خاتون اور ایک صاحب زادے ڈاکٹر محمد فیض ارشد رشیدی یعنی کل چار اولادیں ہوئیں۔
بڑی صاحب زادی عُلیہ خاتون سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی انتقال کر گئی تھیں۔
منجھلی صاحب صاحبزادی سعدیہ خاتون کی شادی ۱۹۸۷ء میں آپ کے حقیقی بھانجے اور شاگرد مولانا ذاکر حسین لطیفی مرحوم( ساکن بجھاڑا پوسٹ کروم ہاٹ ضلع کٹیہار بہار وسابق پرنسپل دار العلوم سرکار آسی سکندر پور ضلع بلیا) سےہوئی جن سے تین لڑکے پیدا ہوئے: محمد معروف۔ابو المحاسن۔ ابو المحامد۔
چھوٹی صاحب زادی ذاکیہ خاتون کی شادی ۱۹۹۲ء میں ماسٹر محمد شمیم اخترصاحب (ساکن شکار پور ماہی نگر پوسٹ کروم ہاٹ ضلع کٹیہار بہار)سے ہوئی جن سے دو لڑکے پیدا ہوئے : تنعیم احمد۔ تسنیم احمد۔
محترم ڈاکٹر محمد فیض ارشد صاحب کی شادی ۱۱؍نومبر ۲۰۰۶ء /۱۹؍شوال ۱۴۲۷ھ میں اپنے ہی خاندان میں جناب محمد ناصر حسین رشیدی کی صاحب زادی محترمہ اعلیٰ ناصررشیدی سے ہوئی جن کے بطن سے دو بیٹے: محمد اشہب زہیر ،محمد ابوسعید اور ایک بیٹیـ: عطوفہ مریم یعنی تین اولادیں ہیں۔
درس و تدریس:
علوم وفنون کی تکمیل کے بعدآپ نے ملک کے کئی بڑے اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اپنی تدریسی صلاحیت اور فنی مہارت کا لوہا منوایا ۔آپ نے اولاً حافظ ملت کے حسب حکم اپنے دورِ طالب علمی ہی میں اشرفیہ مبارک پور میں کارِ تدریس کا آغازکردیا تھا اور معین المدرسین کی حیثیت سے مختلف جماعتوں کی کتابیں آپ کے زیرتدریس تھیں۔ بعد فراغت علامہ ارشد القادری کے اصرارِ شدید اور حافظ ملت کے حکم پر فیض العلوم جمشیدپور تشریف لے گئے اورباقاعدہ درس و تدرس کا سلسلہ شروع کیا اور یہاں تین سال[ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۰ءتک] درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس میں تین سال [۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۲ءتک] ، دار العلوم محمدیہ ممبئی میں ایک سال [۱۹۷۳ء] ، مظہر اسلام بریلی میں ایک سال[۱۹۷۴ء] ،دار العلوم امجدیہ ناگ پور میں دو سال [۱۹۷۵ء سے۱۹۷۶ء تک]، دار العلوم نداے حق جلال پو ر فیض آباد میں تین سال[ ۱۹۷۷ء سے۱۹۷۹ء تک ]،دار العلوم مصطفائیہ چمنی بازار شریف میں ایک سال [۱۹۸۰ء]،جامعہ شمس العلوم گھوسی ضلع مئو میں پانچ سال [۱۹۸۱ء سے۱۹۸۴ء تک]اوراخیر میں پھردارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ میں تقریباً چار سال [۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۸ء تک] درس و تدریس کا سلسلے جاری رکھا۔
دار العلوم مصطفائیہ کے دورانِ تدریس میں۱۹۸۶ء میں آپ پر برصغیر کی قدیم علمی و تاریخی خانقاہ؛خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور کے منصب سجادگی کا بارِ گراں آگیا جس کی وجہ سےاب آپ کی توجہ مریدین و معتقدین کی اصلاح ، طالبین کے تزکیۂ ظاہر و باطن ، خانقاہی اداروں کی سرپرستی ، خانقاہوں کی تعمیر و توسیع وغیرہ کی طرف ہوگئی اور رفتہ رفتہ مصروفیات و مشاغل کا چند جہتی سلسلہ آپ کو درپیش ہوگیا اورباقاعدہ تدریس کا سلسلہ بند ہوگیا۔
خلاصہ یہ کہ جن اداروں میں آپ تشریف لے گئے ، وہاں آپ کی کافی قدر ومنزلت ہوئی اورصدر المدرسین اور شیخ الحدیث وغیرہ کے اعلیٰ عہدوں پر ہی فائز رہے اور آپ نے ایک طویل عرصے تک طلبۂ علوم دینیہ کو تعلیم وتربیت سے آراستہ و پیراستہ فرمایا ۔یہاں آپ کے چند مشاہیر تلامذہ کے اسماے گرامی درج کیے جاتے ہیں :
تلامذہ:
- مولانا سجاد احمد رشیدی(سکندر پور،بلیا)
- مفتی شمس الدین رضوی( بہرائچ،یوپی)
- مولانا سید حسنین قادری ( کیری شریف بانکا)
- مولانا شمس الحق رشیدی( پورنیہ،بہار)
- مولانا عبد الحق مصباحی (مبارک پور،اعظم گڑھ)
- مفتی عابد حسین نوری(جمشید پور،جھارکھنڈ)
- مولانا عارف اللہ فیضی مصباحی (بلرام پور،یوپی)
- مفتی بدر عالم مصباحی (مبارک پور،اعظم گڑھ)
- مولانا معین الحق علیمی (جمداشاہی بستی)
- مولانا سید فاروق عالم مصباحی( بنارس،یوپی)
- مولانا محی الدین ہشام رضوی (جون پور،یوپی)
- مولانا عرش محمد قادری (ادری ضلع مئو)
- مولانا ذاکر حسین لطیفی( بجھاڑا،کٹیہار)
- مولانا عزیز الرحمٰن(مئو،یوپی)
- مفتی ذوالفقار احمد رشیدی(راساکھوا ،بنگال)
- مولانا کلیم الدین شمسی(غازی پور،یوپی)
- مولاناخواجہ نیر عالم وحیدی(رحمٰن پور،کٹیہار)
- مولانا محمد نور عالم عبیدی رشیدی (ریاں پور،کٹیہار)
- مولانا ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی (بریلی شریف،یوپی)
- مولانا عبد السلام رشیدی( شیخ پورہ کٹیہار)
- مولانا وصی احمد شمسی(گھوسی، ضلع مئو)
- مولانا عبد الباری شمسی(گھوسی، ضلع مئو)
- مولانا غلام رسول بلیاوی(پٹنہ)
- مولانا شہر یار رضا رضوی(پورنیہ،بہار)
افتا و قضا:
آپ نے جن اداروں میں طلبۂ علوم کی تعلیم و تربیت کا فریْضہ انجام دیا ہے، وہاں فقہ و افتا کی بھی خدمت کرکے شرعی مسائل میں لوگوں کی رہ نما ئی فرمائی ہے ۔آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاز جامعہ فیض العلوم جمشید پور سے کیا۔اس کے بعد آپ جن اداروں میں درس و تدریس کے لیے تشریف لے گئے وہاں آپ نے افتا کی ذمے داری بھی نبھائی ۔آپ کے فتاوے کو اعتبار واستناد کا درجہ حاصل ہے۔ اکابرعلما و محققین نے آپ کے فتاوے اور تحقیقات کی تائید و توثیق فرمائی ہے۔چناں چہ ایک مرتبہ شمس العلماءقاضی شمس الدین جون پوری(مصنف قانون شریعت) نے جامعہ حمیدیہ میں آپ کے ایام تدریس وافتا میں اپنے ایک مخلص حاجی جلال صاحب سے فرمایاـ : ’’مولانا عبید الرحمن صاحب فتویٰ اچھا لکھتے ہیں ۔ان کے فتوے پر مجھے پورا اعتماد ہے ‘‘۔
چوں کہ آپ فلسفیانہ ذہن اور محققانہ فکر رکھتے تھے، اس لیے آپ کی فقہی تحقیقات اور فتاوے بھی اسی رنگ و آہنگ میں ہوتے تھے۔ آپ کی اس اہم خصوصیت کی وجہ سے مفتی اعظم ہند حضرت مولاناشاہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی آپ کو بہت محبوب رکھتے اورآپ کی گفتگو کو بے حد پسند فرماتے ۔ جب کبھی وہ بنارس تشریف لاتے توآپ کو بطورِ خاص یاد فرماتے اور مختلف مسائل کے بارے میں آپ کی راےمعلوم کرتے۔ فرماتے : ’’مولانا! فلاں مسئلے کے بارے میں آپ کی کیا راے اور تحقیق ہے؟‘‘ جب آپ اس پر اپنی محققانہ اور منطقیانہ راےگفت گو پیش کرتے تو اسے سن کر حضرت مفتی اعظم ہند کافی خوش ہوتے اور اس کی تاییدو تصدیق فرماکر دعائوں سے نوازتے ۔
آپ فیض العلوم جمشید پور میں امورِ تدریس و افتا کے ساتھ ادارۂ شرعیہ کا کار ِافتا و قضا بھی انجام دیتے اورادارہ کے نام آئے تمام سوالات کے جوابات تحریر فرماتے تھے ۔آپ ادارۂ شرعیہ بہارکے پہلے قاضی و مفتی تھے۔ آپ کے مجموعۂ فتاویٰ میں جابجا آپ کے نام کے ساتھ’’ خادم ادارۂ شرعیہ‘‘درج ہےمثلاً:’’ کتبہ محمد عبید الرحمن غفر لہ پورنوی خادم ادارہ شرعیہ بہار، ۱؍ ربیع الاول شریف ۱۳۸۹ھ ‘‘ ۔
ادارۂ شرعیہ کے قیام و بنا کی تحریک میں بھی آپ کا اہم اور کلیدی حصہ رہا ۔ علامہ ارشد القادری نے جب دار القضاء کے اصول و ضوابط اور قضاۃ کے فرائض اور ان سے متعلقہ امور کے تعلق سے ایک ضروری استفتا رقم فرمایا توکبار علما و فقہا کے اتفاقِ رائےسے آپ نے اس کا نہایت مدلل،محققانہ اور بصیرت افروز جواب تحریر کیاجس کی تایید و توثیق اساطینِ علم و فقہ نے فرمائی، جن میں مفتی اعظم ہند حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی، سید العلماء حضرت مولانا سید شاہ آل مصطفیٰ مارہروی، مفتی اعظم کان پور حضرت مولانا شاہ رفاقت حسین مظفر پوری، مجاہدملت حضرت مولاناشاہ حبیب الرحمٰن اڑیسوی،حافظ ملت حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری، شمس العلماء حضرت مولانا قاضی شمس الدین جون پوری وغیرہ شامل ہیں ۔ آج بھی آپ کے مُرتبہ دستور العمل کی روشنی میں ادارۂ شرعیہ پٹنہ سے دینی مسائل پر فیصلے صادر کیے جاتے ہیں ۔
آ پ کی ایک عظیم فقہی خدمت ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ جلد چہارم کی تصحیح وغیرہ ہے جسے آپ نے اپنےدورِ فراغت یعنی ۱۹۶۷ء میں اپنے استاذ گرامی حضرت علامہ عبد الرؤف بلیاوی کے ساتھ انجام دیا۔اس کے علاوہ مختلف ابوابِ اسلامی اور موضوعاتِ دینی پر فتاوے کا ضخیم مجموعہ آپ کا ایک زبردست فقہی کارنامہ اورایک عظیم دینی سرمایہ ہے ۔آپ کی ایک اہم فقہی خدمت یہ بھی ہے کہ علامہ ارشد القادری کے زیر ادارت ماہنامہ جام نور کلکتہ کے ’’باب الاستفتاء‘‘کے کالم میں آپ ہی کے فتاوے شائع ہوتےتھے۔
بحث و مناظرہ:
آپ نے ملک کے مختلف علاقوں میں کئی باطل شکن مناظرے کیے اوراحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریْضہ انجام دیا۔ آپ کے مناظرے علمی ، تاریخی اور معلوماتی اعتبار سے انتہائی اہم اورکافی دلچسپ ہیں اور میدان مناظرہ کے لیے رہ نما خطوط بھی ۔ آپ نے پہلا مناظرہ اشرفیہ مبارک پور کے دورِ طالب علمی میں ۱۹۶۷ء میں احیاء العلوم مبارک پور کے طلبہ سے کیا اور فتح حاصل کی جس کی روداد سننے اور جاننے کے بعدحافظ ملت اور دیگراساتذۂ اشرفیہ نے اپنی بے پایاں مسرت کا اظہار فرمایا اور آپ کو کافی دعائیں دیں۔دوسرا مناظرہ دار العلوم نداے حق جلا ل پور فیض آباد کے دورِ تدریس میں اپنے علاقےکےموضع سمل ٹولہ مادھے پور(ضلع کٹیہار بہار) میں ۱۷؍رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ /۱۳؍ستمبر۱۹۷۶ء میں کیا جس میں فریق مخالف کو کھلی ہزیمت ہوئی اور اسے اقرارِ شکست کرنا پڑا ۔ تیسرا مناظرہ ۱۹۸۰ء میں آشا پور ، مالدہ ، بنگال میں کیا۔چوتھا مناظرہ غالباً ۱۹۸۱ء میں گلسی بازار، بردوا،ن بنگال میں کیا ۔ آپ نے ان مناظروں میں اپنے فن مناظرہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حیرت انگیز فتح حاصل کی ۔
بیعت و ارادت:
آپ دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار کے دورِ طالب علمی ہی میں۱۴؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۷۶ھ میں خانقاہ رشیدیہ جون پور کے دسویں سجادہ نشیں؛ منظور الحق حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش شہیدگورکھ پوری قدس سرہ سے خانقاہ عالیہ مصطفائیہ چمنی بازار میں سلسلۂ چشتیہ مصطفائیہ میں بیعت ہوئے تھے ۔ اس وقت آپ ’’ ہدایۃ النحو‘‘ کی جماعت میں زیر تعلیم تھے ۔
خلافت و اجازت:
سب سے پہلے آپ کے والد بزرگ وار زبدۃ الاتقیاء حضرت مولاناشاہ لطیف الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ نے آپ کو جمیع سلاسل کی خلافت، اذکار و اشغال کی اجازت اور بزرگوں کی نعمتیں عطا فرمائیں ،جو انھیں اپنے استاذ گرامی قطب پورنیہ حضرت مولانا شاہ سکندر علی رشیدی اور اپنے شیخ کامل شہود الحق حضرت سید شاہ شاہد علی سبز پوش رشیدی گورکھ پوری علیہما الرحمہ سے حاصل تھیں۔اُس وقت جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس میں آپ کے دورِ تدریس کا دوسرا سال تھا۔خلافت کا یہ واقعہ ۱۹۷۱ء کا ہے ۔اس کے بعد ۱۹۸۶ء میں خانقاہ رشیدیہ جون پور میں آپ کی رسم سجادگی و خرقہ پوشی کے وقت آپ کے استاذ گرامی زعیم العلماء حضرت مولانا شاہ غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی علیہ الرحمہ نے آپ کو اجازت و خلافت عطا کی جو انھیں اپنے شیخ کامل حضرت سید شاہ شاہد علی سبزپوش رشیدی فانی گورکھ پوری اور مرشد گرامی حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبزپوش رشیدی گورکھ پوری قدس سرہما سے حاصل تھی ۔ اس کے بعد آپ کے پیر ومرشد کے خلیفۂ مطلق حضرت ولی الحق میرسید شاہ زاہد سجاد جعفری پٹنوی علیہ الرحمہ ( سابق سجادہ نشیں: خانقاہ جعفریہ رشیدیہ پٹنہ)سے ۲۸؍ شوال ۱۴۰۹ھ میں آپ کو جملہ سلاسل واذکار کی اجازت و خلافت عطا ہوئی جو انھیں آپ کے پیر ومرشد حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبزپوش سے عطا ہوئی تھی۔
سجادگی و جانشینی:
خانقاہ رشیدیہ جو ن پور بر صغیر کی ایک قدیم اور تاریخی خانقاہ ہے ۔اس خانقاہ میں سجادگی اہلیت ولیاقت کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ خانقاہ کے مریدین و متوسلین میں اسی کو باتفاقِ راے سجادہ نشیں منتخب کیا جاتا ہے جو علم و اخلاق کے اعتبار سے کامل ہو ۔ چناں چہ آپ اپنے علمی و اخلاقی اوصاف کی بدولت اس باعظمت اور مثالی خانقاہ کی سجادگی کے عظیم منصب پر فائز کیے گئے۔
۶؍ صفر ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء میں خانقاہ رشیدیہ کے اربابِ حل و عقد خصوصاً خانقاہ رشیدیہ کے سابق متولی و معنوی سجادہ نشیں سید السادات حضرت سید شاہ ہاشم علی سبز پوش جامی گورکھ پوری قدس سرہ (فرزند و خلیفہ سید شاہ شاہد علی سبزپوش گورکھ پوری ) اور زعیم العلماء حضرت مولاناشاہ غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی علیہ الرحمہ( مرید و خلیفہ :سید شاہ شاہد علی سبزپوش فانی گورکھپوری ) نے علما ومشائخ، خلفا و مرید ین اور عمائدین ومعززین وغیرہ کے مجمع عام میں آپ کو سجادہ نشیں منتخب کیا اور خرقہ پوشی کی رسم اد اکرکے آپ کومسند سجادگی پہ متمکن فرمایا اورآپ خانقاہ رشیدیہ کے گیارہویں سجادہ نشیں کی حیثیت سے مقرر ہوئے ۔
آپ سجادۂ خانقاہ اور مسند ِطریقت کو رونق بخشتے ہوئےبڑی سادگی اور خاموشی کے ساتھ مقاصد شریعت کی تفہیم،حقائق معرفت کی تشریح اور طالبین طریقت کی تربیت اور سلسلۂ رشیدیہ کی ترویج میں مصروف ہوئے ۔کثیر تعداد میں آپ کے مریدین و معتقدین موجود ہیں ۔
خلفا و مجازین:
آپ نےاشاعتِ اخلاق ، فروغِ تصوف اور سلسلۂ عالیہ رشیدیہ کی توسیع کے لیے کئی حضرات کو خلافت و اجازت سے بھی نوازا ہے جن کے اسماے گرامی درج ذیل ہیں:
- سید شاہ مطلوب احمد رشیدی ( سادات پور، سیوان)
- قاری رضاء المصطفیٰ اعظمی(کراچی)
- پروفیسر شاہ فرید الحق رشیدی(کراچی)
- سید شاہ محمدمنظر رشیدی سادات پوری (کراچی)
- مولانا میر سید عبد الرب رشیدی ( دیلال پور،کٹیہار)
- سید مرتضیٰ حسن (عثمان آباد،حیدر آباد)
- پروفیسر جمال نصرت رشیدی( لکھنؤ)
- سید شاہ طارق علی سبزپوش رشیدی(جعفرا بازار،گورکھ پور)
- مولاناسجاد احمد رشیدی (سکندر پور، بلیا)
- مولانا غلام عبد القادر رشیدی (بائسی ،پورنیہ)
- مولانا فخر الحسن رشیدی (نرکٹیا گنج،مغربی چمپارن)
- مولانا غلام ارشد رشیدی( مہواری ،سیوان)
- مولانا نور عالم رشیدی(ریاں پور ،کٹیہار)
- مولانا صبغۃ اللہ رشیدی( بائسی ،پورنیہ)
- مولانامعراج علی رشیدی(نرکٹیا گنج،مغربی چمپارن)
- مولانا سید اظہر رضا رشیدی( کمل پور،کٹیہار)
- مولانا معز الدین عثمانی (امیٹھی لکھنؤ)
- حافظ محمد اسماعیل رشیدی(ناسک مہاراشٹر)
- حافظ محمد خالد رشیدی (سکندر پور بلیا)
تعمیرو توسیع:
آپ نے دار العلوم مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ، مدرسہ خانقاہ رشیدیہ جون پور، دار العلوم سرکار آسی سکندر پور بلیا وغیرہ جیسے بڑے اداروں کی سرپرستی کے ساتھ۱۹۹۰ء میں خانقاہ طیبیہ معینیہ بنارس میں دار العلوم طیبیہ معینیہ،۲۰۰۴ء میں خانقاہ علیمیہ غازی پور میں مدرسہ علیمیہ ہاشمیہ، اور۲۰۰۷ء میں آستانۂ عالیہ رشید آباد جون پور میں مدرسہ آستانۂ عالیہ رشیدیہ جیسےتعلیمی ادارے بھی قائم فرمائے۔ ملک کے مختلف خطوں میں کئی اہم مسجدیں قائم کیں۔ خانقاہوں کی تعمیرات کی توسیع فرمائی۔ ان کے علاوہ کئی اہم علمی و تحقیقی،فکری وادبی اورسماجی و اصلاحی تنظیمیں اور انجمنیں بھی قائم کیں چناں چہ ۲۰۰۷ءمیں ناند گاؤں ضلع ناسک مہاراشٹر میں’’ انجمن فیضانِ مصطفیٰ‘‘ قائم کیا جس سے اصلاح معاشرہ اور تعلیمی بیداری کا کام اچھے پیمانے پر انجام پارہا ہے۔۲۰۱۳ء میں شاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن کے نام سے ایک علمی و تحقیقی اور اشاعتی ادارہ قائم فرما کر سلسلۂ رشیدیہ اور دیگر سلاسل کے علما و بزرگان دین کے قلمی نوادرات اور تحقیقی نگارشات کی اشاعت و طباعت کا سامان مہیا کیا جس کے تحت بڑی تیزی اور سرگرمی کے ساتھ معیار ی انداز میں تصنیفی و تحقیقی امور انجام پارہے ہیں ۔ ۲۰۱۵ء میں اپنے گائوں میں اسکول میں پڑھنے والے بچوںاورسماج کے دیگر ناخواندہ لوگوں کی دینی و عصری تعلیم کے لیے مصطفائی کلب قائم کیا جو آج مخدوم زادۂ گرامی قدر محترم ڈاکٹر محمد فیض ارشد رشیدی صاحب کی نگرانی میں اپنے اہداف ومقاصد کی طرف تیزگامی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اوربڑی تعداد میں سماج کے بچے اور بچیاں یہاں دینی و عصری علوم سے آرستہ ہورہی ہیں ۔
تصنیف و تحقیق:
آپ کے تصنیفی آثار اور قلمی نقوش میں کئی علمی و تحقیقی کتب اور دینی و اصلاحی رسائل ہیں جو دادِتحقیق اور قبولِ عام حاصل کر چکے ہیں چناں چہ جامعہ شمس العلوم گھوسی کے دورِ تدریس میں آپ نے ’’اختیار نبوت‘‘ تصنیف فرمائی جو ایک غیر مقلد عالم مولانا صفی الرحمن اعظمی کی کتاب ’’رزم حق و باطل ‘‘ کے رد میں ہے۔دار العلوم حمیدیہ رضویہ بنارس کے ایامِ تدریس میں’’ بیانِ حقیقت ‘‘ رقم فرمائی جو ایک دیوبندی عالم کے کتابچے ’’نور حق‘‘کا جواب ہے۔ دار العلوم محمدیہ ممبئی کے زمانۂ تدریس میں اپنے استاذ گرامی اشرف العلماء حضرت مولاناسید حامد اشرف کچھوچھوی کے حسب ِارشاد مسئلۂ تقلید پر ’’جواہر الحدیث ‘‘ تحریر فرمائی ۔ مریدین و معتقدین کی خواہش پراذکارووظائف پر مشتمل ’’آیات نافعہ‘‘،’’اذکارِنافعہ‘‘اور’’معمولات قطب الاقطاب‘‘ مرتب فرمائیں۔نیزآپ نے علمی و دینی موضوعات اور فقہی و تحقیقی مباحث پر مقالات تحریر کیے ہیں جومختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو ئے ۔ ان شاء اللہ مجموعۂ مقالات جلد منظر عام پر آئے گا۔علاوہ ازیں آپ کے ملفوظات و ارشادات کا بھی ایک ضخیم مجموعہ ہے جس کو راقم نے’’ گنج عبیدی‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے اورالحمد للہ حصہ اول خود صاحبِ ملفوظات حضرت مجمع البحرین علیہ الرحمہ کی نظر مبارک سے بھی گزرچکاہے جس میں آپ نے جابجا اپنے قلم سے اصلاح فرمائی ہے۔ عن قریب یہ مجموعہ بھی اشاعت پذیر ہوگا ۔ان کے علاوہ آپ کے کچھ قلمی اور غیر مطبوعہ رسائل بھی ہیں جو ان شاء اللہ کسی موقع پر شائع ہوں گے۔
وصال پرملال:
آپ اپنے وصال سے قبل ڈھائی مہینے تک بستر علالت پرتھے۔ ہر وقت آپ پر استغراقی کیفیت اور جذبی حالت طاری رہتی ۔ ہوش و حواس بھی متاثر ہوگئے ۔ کبھی آنکھ کھلتی تو بے ربط گفت گو فرمانے لگتے اور کبھی ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ۔ کافی کمزوری آگئی تھی۔درست طریقے سے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا۔وہیل چیئر سے ہی آپ کو اندر باہر کیا جاتا تھا۔
خلاصہ یہ کہ مختلف ڈاکٹروں سے آپ کا علاج کرایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ مشیت الٰہی کچھ اور ہی تھی۔آخر کار وہ روح فرسا اور قیامت خیز وقت آ ہی گیاکہ طویل علالت کے بعد آپ نےجمعرات کا دن گزار کر شب جمعہ بوقت ڈھائی بجے۱۱؍رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ مطابق۲۲؍مارچ ۲۰۲۴ء کو خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ میں وصال فرمایا اور واصل بحق ہوگئے ۔انا للہ و انا لیہ راجعون ۔نماز ِجنازہ خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ میں ادا کی گئی جس میں علما و فضلا،مشائخ و صوفیہ،اہل عقیدت و ارادت وغیرہ شریک تھے اور دو لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی ۔ نماز جنازہ آپ کے فرزند ارجمند اور مرید سعادت مند محترم ڈاکٹر محمد فیض ارشد رشیدی صاحب کی اجازت سے آپ کے مرید و خلیفہ مولانا شاہ محمد نور عالم رشیدی صاحب نے پڑھائی اورحسبِ وصیت آپ کے جسد خاکی کوخانقاہ طیبیہ معینیہ منڈواڈیہ بنارس لے جایا گیا جہاں آپ۲۳؍ مارچ۲۰۲۴ء کو سنیچر کے دن بڑی درگاہ میں قطب العارفین مخدوم شاہ طیب بنارسی قدس سرہ کے والد بزرگ وار حضرت مخدوم شاہ معین الدین چشتی بنارسی قدس سرہ کی پائینتی کی جانب مدفون ہوئے۔آپ کا مزار مقدس زیارت گاہِ خلائق ہےجہاں سے ہمہ دم آپ کے فیوض وبرکات کا فیض جاری ہے۔

مزار اقدس حضرت مجمع البحرین