مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں : برصغیر کا نہایت قدیم اور تاریخی تعلیم گاہ

ڈاکٹرارشاد عالم نعمانی
استاذمدرسہ شمس العلوم گھنٹہ گھر بدایوں
’مدرسہ عالیہ قادریہبدایوں‘ اسلامی علوم وفنون کی ترویج واشاعت کے لیے قائم برصغیر کے قدیم اور تاریخی اداروں میں سے ایک اہم دینی وعلمی ادارہ ہے ،اس عظیم تاریخی درس گاہ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔معلوم تاریخ کی روشنی میں دو سو سال سے یہ علمی و دینی دانش گاہ ’’مدرسہ قادریہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس نام سے انتساب سے قبل یہ ادارہ مختلف ادوار میں ’’مدرسہ معزــیہ‘‘ اور ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کے نام سے موسوم رہا۔ اس ادارے کا قیام خانوادہ عثمانیہ کے مورث اعلیٰ، حضرت دانیال قطری علیہ الرحمۃ (م ۶۱۸ھ) نے ۵۹۹ھ/۳-۱۲۰۲ء میں قطر سے ترکِ وطن کرکے سلطان قطب الدین ایبک کے لشکر کے ساتھ ہندوستان آمد اور بدایوں میں مستقل سکونت کے بعد کیا۔ سلطان شمس الدین التمش نے باصرار لاہور سے آپ کو بدایوں بلوایا اور منصب قضا تفویض کی جس پر آپ تا حین حیات فائز رہے اور قاضی القضاۃ کے نام سے مشہور ہوئے۔
بارہویں صدی کے نصف آخر میں خانوادہ عثمانیہ بدایوں ہی کے ایک نامور عالم دین بحرالعلوم ملا محمد علی عثمانی (م۱۱۹۷ھ/۱۷۸۳ء) نے اپنے عہدمیںمذکورہ آبائی درس گاہ کو ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کےنام سے موسوم کیا اور تاحین حیات اس میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔ آپ کے عہد میں اس درسگاہ علم وفضل نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور ملک وبیرون ملک سے تشنگان علوم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے یہاں آنے لگے ۔بحرالعلوم ملامحمد علی عثمانی اپنے عہد کے نامور فاضل علامہ قاضی مبارک گوپاموی کے تلمیذ رشید تھے۔ آپ کی خداداد ذہانت و فطانت دیکھ کر علامہ قاضی مبارک نےآپ کو انتہائی لگن اور شفقت و محبت سے پڑھایا اور آپ کی خاطر ایک نایاب کتاب تحریر فرمائی جو علمی حلقوں میں ’’حاشیہ قاضی مبارک‘‘ کے نام سے متعارف ہے۔ یہ معقولات کی منتہی کتاب سلم العلوم کی معر کہ آرا شرح ہے۔حضرت بحرالعلوم کا خاص مشغلہ درس و تدریس تھا۔آپ کے عہد میں اس ادارے کی شہرت اور طلبہ کی کثرت کو بتاتے ہوئے فاضل علوم اسلامیہ مولانا فضل رسول محمد عزام میاں قادری لکھتے ہیں کہ :
ایک مرتبہ نواب آصف الدولہ بدایوں کا دورہ کرنے آیا تو اس نے بیرون شہر ایک نالہ بہتاہوا دیکھا اس نے شہر کوتوال سے دریافت کیا کہ یہاںقریب کوئی ندی ہے جس کا پانی بہہ کر یہاں آرہاہے،کوتوال نے بتایا کہ ’’اس وقت مولوی محمد علی صاحب کے مدرسہ کے طلبہ وضو کررہے ہیں ،یہ پانی وہاں سے آرہاہے ۔‘‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مدرسہ محمدیہ میں طالبان علوم کا کیسا ازدحام ہوتا ہوگا۔ (اداریہ سالانہ مجلہ افق ،بدایوں ،جولائی ۲۰۱۰ ء،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں ص۸)
بانی خانقاہ قادریہ،افضل العبید حضرت مولانا شاہ عین الحق عبدالمجید قادری بدایونی (م ۱۲۶۳ھ ) کے خلف اکبر سیف اللہ المسلول حضرت مولانا شاہ فضل رسول قادری (م ۱۲۸۹ھ) تلمیذ ملا نورالحق فرنگی محلی(م ۱۲۳۸ھ) نے اپنے والد اور مرشد برحق کے حکم سے اپنے آبائی ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کو ’’مدرسہ قادریہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ جب سے یہ ادارہ اسی نام سے علمی خدمات انجام دے رہا ہے۔برصغیر کے اس ممتاز اور شہرہ آفاق دانش گاہ علم وفضل کی سب سے اہم خصوصیت یہ کہ اپنے دوسو سالہ عہد میں یہ کبھی تعطل کا شکار نہیں ہوا بلکہ ہردور میں اس کے ذریعے تشنگان علم سیراب ہوتے رہے ۔
صدیوں قدیم اس تاریخی ادارے کے قیام وبنا اور عروج وارتقا کی تاریخ طویل بھی ہے اور عظیم بھی ۔اس نے اپنے قیام و بنا اور عروج وارتقا کے مختلف مراحل وادوار میں نشیب وفراز بھی دیکھے لیکن مسلما نوں کے دینی وفکری تعلیم و تربیت اور ملک ووطن کی تعمیر وترقی میںکسی بھی عہد میں اپنی لو کو مدھم نہیں پڑنے دیا بلکہ سخت جاں گسل حالات میں بھی اس کا کاروان علم وفضل ہر دور میں سبک خرامی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا جن کی تفصیل کے لیے دفتر درکار ہے یہاں اس کے مختلف تاریخی ادوار سے صرف نظر کرتے ہوئے خانوادہ عثمانیہ کے نامور اصحاب درس علما ومشائخ کے لحاظ سے تعلیم وتربیت کے میدان میں اہم خدمات کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جارہاہے جس کی روشنی میں یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس دارے کےذریعے مختلف ادوار میں فروغ علم ،اور مختلف میدان فکر وعمل کے لیے افراد سازی کی کس قدر نمایاں اور قابل افتخار خدمات انجام دی گئیں اور ہنوز یہ سلسلہ خیر وبرکت کس خوش اسلوبی کے ساتھ جاری وساری ہے ۔
سیف اللہ المسلول حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ نے اپنے عہد میں شریعت و طریقت، قضا و افتا، تصنیف و تالیف ہر میدان میںکلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ مدرسہ قادریہ کو شہرت کے بام عروج پر پہنچایا اور نامور تلامذہ کی ایک وسیع جماعت قوم کے حوالے کی جن میں مشاہیر تلامذہ کے اسما ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں:
۱- تاج الفحول شاہ عبدالقادر بدایونی (م ۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۱ء)
۲-مولانا شاہ محی الدین بن شاہ فضل رسول قادری (م ۱۲۷۰ھ)
۳-مجاہدآزادی مولانا فیض احمد بدایونی (مفقود: ۱۲۷۴ھ)
۴-قاضی القضاۃ مفتی اسد اللہ خاں الہ آبادی (م ۱۳۰۰ھ)
۵-مولانا عنایت رسول چریاکوٹی
۶ – مولانا شاہ احمد سعید دہلوی (م ۱۳۷۷ھ)
۷- مولانا کرامت علی جون پوری (م ۱۲۹۰ھ)
۸-مولانا عبدالقادر حیدرآبادی (م ۱۳۲۹ھ)
۹-مولانا سید اشفاق حسین (م ۱۳۲۸ھ)
۱۰-مولانا خرم علی بلہوری (م ۱۲۷۳ھ)
حضرت سیف اللہ المسلول کے بعد ان کے صاحبزادۂ اصغر تاج الفحول مولانا شاہ عبدالقادر قادری بدایونی (م ۱۳۱۹ھ) نے مدرسہ قادریہ کی تعلیمی و تعمیراتی ترقی میں نمایاں کردار انجام دیا۔ آپ اپنے عہد میں کاروانِ سنیت کے علمبردار، مرجع علما اور قافلہ تصوف و سلوک کے سالار تھے۔ آپ کی محبت سنیت کی علامت و شناخت سمجھی جاتی تھی۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے جید علما آپ کی علمی عظمت کے معترف تھے اور آپ کو اپنا امام و رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ساری عمر درس و تدریس، تصنیف و تالیف، رشد و ہدایت اور احقاق حق کا مقدس فریضہ انجام دیا۔ معاصرین نے آپ کو اپنے زمانے میں امام سنت اور معیار سنیت قرار دیا۔ آپ کی درسگاہ سے ایک عالم نے فیض حاصل کیا۔ تلامذہ میں یہ چند نام نمایاں ہیں:
۱-سید شاہ ابوالقاسم حاجی اسمٰعیل حسن مارہروی (م ۱۳۳۰ھ)
۲- سید شاہ حسین حیدر صاحب مارہروی
۳-سرکار صاحب الاقتدار مولانا عبدالمقتدر قادری (م ۱۳۳۴ھ )
۴-حافظ بخاری مولانا شاہ عبدالصمد سہسوانی (م ۱۳۲۳ھ)
۵-استاذ الاساتذہ علامہ محب احمد قادری بدایونی (م ۱۳۴۱ھ)
۶-حضرت مولانا عمر الدین ہزاروی (م ۱۳۴۹ھ)
۷-حضرت مولانا فضل مجید قادری فاروقی بدایونی (م ۱۳۲۵ھ)
۸-مولانا مفتی حافظ بخش آنولوی (م ۱۳۳۹ھ)
۹-مولانا محمد حسن سنبھلی (م ۱۳۰۵ھ)
آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے سرکار صاحب الاقتدار، مطیع الرسول مولانا شاہ عبدالمقتدر قادری بدایونی (م۱۳۳۴ھ) نےمدرسہ قادریہ کی تعلیمی و تعمیراتی ترقی کی ذمہ داری سنبھالی۔ اور مختلف میدان فکروعمل میں بلند پایہ خدمات انجام دینے کے ساتھ درس و تدریس کے ذریعے علما کی ایک اہم جماعت قوم کے حوالے کی۔ آپ سے اکتساب علم کرنے والوں میں درج ذیل اسما قابل ذکر ہیں:
۱-مفتی اعظم شاہ عاشق الرسول محمد عبدالقدیر قادری
۲- مجاہد آزادی مولانا عبدالماجد قادری بدایونی
۳-تاج العلما سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی
۴-حضرت سید ارتضا حسین پیر میاں قادری
۵-حضرت سید حسین احمد میاں صاحب بےؔباک شاہ جہاں پوری
۶-محدث اعظم ہند مولانا سید محمد اشرفی الجیلانی
۷-مفتی حسین احمد مفتی ریاست پہاسو
۸-مولانا مفتی حبیب الرحمن قادری بدایونی
۹-مولانا مفتی ابراہیم قادری بدایونی ابن استاذ العلما مولانا محب احمد قادری
۱۰-مولانا سید عبدالوہاب حیدرآبادی
۱۱-مولانا حافظ عبدالمجید قادری آنولوی
۱۲-مولانا حبیب الٰہی مارہروی
۱۳-مولانا حکیم عبدالشکور پٹنوی
۴ ۱- مفتی عزیز احمد قادری آنولوی ثم لاہوری
آپ کے بعد آپ کے برادر اصغر عاشق الرسول ،مفتی اعظم سلطنت آصفیہ حیدرآباد ،مولانا مفتی عبدالقدیر قادری بدایونی (م ۱۳۷۹ھ) باقاعدہ مدرسہ قادریہ میں مسند تدریس پر متمکن ہوئے اور پورے انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے درس دیا۔ آپ سے اکتساب فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد کثیر ہے، ان میں درج ذیل حضرات قابل ذکر ہیں:
۱- مولانا فیض الحسن دہلوی
۲-مولانا عبدالحامد قادری بدایونی
۳-مولانا حیرت بدایونی
۴-مولانا عبدالہادی ہادی القادری (استاذ شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد )
۵- تاجدار اہل سنت حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم قادری
تاجدار اہل سنت حضرت شیخ عبدالحمید محمد سالم القادری قدس سرہ نے۶؍شوال المکرم۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ ءمیں سجادگی کو زینت بخشنے کے ساتھ مدرسہ قادریہ کے اہتمام و انصرام کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ اورتقریباساٹھ سال سے زائد عرصے تک خانقاہِ قادریہ کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ مدرسہ قادریہ کی نشاۃ ثانیہ، مدرسہ و خانقاہ میں جدید عمارتوں کی تعمیر، کتب خانہ قادریہ کی جدید کاری میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ آپ کی زیر نگرانی آپ کے خلفِ اکبر شہید بغداد حضرت علامہ شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری (شہادت ۲۰۱۴ء) نے اپنے دس سالہ عملی زندگی میں ادارے کی تعلیمی و ترقیاتی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے اکابر کی تصنیفی وعلمی خدمات کو وسیع پیمانے پر عام کیا۔آپ کے عہد تدریس میں شوال۳۱ ۱۴ھ/۲۰۱۰ء میں جماعت فضیلت (دورہ حدیث )کا پھر سےآغازہوا ، جب سے شعبہ درس نظامی کی پوری تعلیم کا نظم ونسق دوبارہ سے جاری وساری ہے ۔اس درمیان متعد د جماعتیں فارغ ہوکرکچھ تو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ملک وبیرون ملک کا رخ کرچکی ہیں کہ اور ان میں سے بہت سےافراد اپنی عملی زندگی کا اآغاز کرتے ہوئے ملک وقوم کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس وقت مدرسہ قادریہ میں تین شعبے ہیں: (۱) پرائمری درجات (۲) شعبہ حفظ و قرأت (۳) شعبہ درسِ نظامی از ابتدا تا دورۂ حدیث۔موجودہ وقت میں عصری تقاضوں کے مطابق مدرسے کے نصابِ تعلیم اور نظام تعلیم میں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ عالم ربانی شیخ اسیدالحق قادری نے اپنے عہد تدریس میں ادارے کے تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر کرنے اور ادار ے کی تعلیمی وتدریسی اور تاریخی عظمت رفتہ کی بازیافت کے اپنے والد گرامی حضرت تاج دار اہل سنت قدس سرہ کی زیر سرپرستی متعد د انقلابی اقدامات اٹھائے مروجہ درس نظامی میں مناسب اورضروری تبدیلی کرتے ہوئے علوم عقلیہ کی بجائےزیادہ سے زیادہ علوم قرآن وسنت کی کتابوں کو شامل درس فرمایا۔اور حسب ضرورت وافادیت اصول تفسیر ،حدیث اور عقائد وکلام میں درسی کتابیں بذات خود ترتیب دیں یا اپنے تلامذہ سے ترتیب دلائیں اور انہیں شامل نصاب کیا ۔ساتھ ہی اپنے اکابر خانوادہ اور دیگر محققین اور ماہرین تعلیم کی کتابوں کو شامل درس فرماکر موجودہ عہد کے تقاضے سے ہم اآہنگ کیا ۔نصاب میں تبدیلی کا یہ عمل انہوں نے ابتدا تامنتہی جماعت کیا ۔اس کے علاوہ حسب ضرورت انگلش ،ہندی ،حساب اورابتدائی سائنس کو بھی انہوں نے نصاب کا لازمی جزء بنایا ۔ نصاب میں مختلف علوم وفنون کی رعایت اور طلبہ کے معیار اورذہنی سطح کا خیال کرتے ہوئے نصابی کتابوں کا انتخاب اور نصابی کتابوں کی از خود ترتیب وتصنیف آپ کی تعلیمی وتدریسی مہارت پر روشن ثبوت ہے ۔موجودہ وقت میں مدرسہ قادریہ کی تدریسی ٹیم آپ کےدرس گاہ بافیض کی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے جو آپ کے تشکیل کردہ تعلیمی تربیتی وتدریسی خطوط پر اپنے فرا ئض منصبی کو حسن عمل کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔
حضرت تاج دار اہل سنت قدس سرہ کے وصال (۲۰۲۱ء)کے بعد یہ ادارہ جانشین تاج دار اہل سنت ،وارث علوم سیف اللہ المسلول حضرت شیخ عبدالغنی محمد عطیف میاں قادری کے اہتمام ونگرانی اور فاضل علوم اسلامیہ حضرت علامہ فضل رسول محمد عزام میاں قادری کی نظامت تعلیم اور ترجمان قادریت حضرت الحاج حافظ عبدالقیوم قادری راجی کی نظامت میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔
اخیر میں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ مدرسہ قادریہ کے عظیم المرتبت فضلانے اپنےاپنے عہد میں ملک وملت کی تعمیر وترقی ،نوجوان نسل کی دینی ،علمی،شرعی ،فقہی رہنمائی ،ادارہ سازی ،تحریک وتنظیم کا قیام اور مختلف تحریکات میں قائدانہ شرکت ، افراد سازی غرضیکہ مختلف میدان فکروعمل میں اپنی بیش بہا خدمات کے ایسے روشن نقوش یادگار چھوڑے ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔مدرسہ قادریہ اور فرزندان مدرسہ قادریہ کی روشن تاریخ وخدمات کا شدید تقاضا ہے کہ اس کی ایک مبسوط تاریخ قلم بند کی جائے۔یہ محققین کے لیے ایک اہم موضوع ہے جس پر کام ہونا برصغیر کی علمی وتدریسی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے کیوں کہ:
’’مدرسہ عالیہ قادریہ مولوی محلہ بدایوں میں واقع محض ایک چار دیواری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ لفظ علم و فضل، تعلیم و تربیت، معقول و مقبول، علوم ظاہر و باطن، بلند نظری، اعلیٰ ظرفی اور تصلب فی الدین کے ساتھ معتدل مزاج و مسلک کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جو اپنے پیچھے دینی خدمات کی دو سو سالہ عظیم الشان تاریخ رکھتا ہے۔ اور جس کی تاریخی معنویت اور اہمیت سے صرف نظر کسی انصاف پسند مورخ کے لیے ممکن نہیں۔‘‘ (سال نامہ ’’اُفق‘‘،تاثر عالم ربانی شیخ اسیدالحق قادری ، ص: ۶)