کشن گنج اور دیناج پور میں شرح خواندگی: ایک جائزہ

محمد منصور عالم نوری مصباحی
تعلیم و تعلم کی اہمیت و افادیت سے بھلا کسے انکار ہوسکتا ہے ۔ تعلیم تو وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سجاتا اور سنوارتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے ۔ آج وہ قوم ترقی کے راستہ پر گامزن ہے جس کے پاس بہتر تعلیم ہے ،اچھی پڑھائی اور لکھائی ہے ، جدید علوم سے لیس ہے اور ان کے پاس اپنے نونہالوں کو تعلیم کے میدان میں عروج و ارتقاء کی منزل تک پہنچانے کےلیے معیاری ادارے ہیں اور اداروں میں قابل اساتذہ اور باصلاحیت اشخاص مقرر ہیں ۔ اساتذہ کو معقول وظائف دیئے جاتے ہیں ، فنی و ادبی شخصیات کی قدر و منزلت و رتبہ کا خیال رکھا جاتا ہے ، اعلیٰ و معیاری تعلیم کے تقاضوں کو پوراکیا جاتا ہے ، محنتی اور مجتھد بچوں کی بے دریغ حوصلہ افزائی ہوتی ہے پھر ایسی قوم کی شرح تعلیم کیوں کر بلند نہ ہو؟؟؟ لیکن جس قوم اور جس ملک میں معیاری تعلیم پر نہ توجہ دی جاتی ہو اور نہ تعلیم کے لیے خوش گوار ماحول ہو اور نہ صحت مند فضا بھلا وہاں کیوں کر بہتر شرح خواندگی ہو سکتی ہے ؟ پوری دنیا میں یہودی برادری تعلیم و تعلم کے فیلڈ میں برتری اور فوقیت حاصل کی ہوئی ہے اور اس کے بچے دوسری قوموں سے مناسبتا زیادہ مدت تک اسکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں یعنی یہودی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتی ہے ۔
اس سلسلے میں 16 دسمبر 2016 کا ایک رپورٹ پڑھئے ۔ بی بی سی لندن سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر جناب شجاع ملک صاحب لکھتے ہیں ” یو ریسرچ سنٹر کی تعلیم اور مذہب کے حوالہ سے ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر یہودی برادری میں لوگ اوسطًا 13.4 سال تک باضابطہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ عیسائی برادری میں یہ اوسط 9.3 ہے ادھر مسلمان برادری اور ہندو برادری میں 5.6 سال تک اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جوکہ عالمی سطح پر 7.7 سال سے کم ہے ۔
(BBC URDU.COM ISLAM ABAD)
اس تناظر میں یہ تو آپ پر آشکار ہوگیا کہ مسلمان عالمی پیمانے پر تعلیم میں بہت پسماندہ قوم بن کر رہ گئی ہے اب آئیے اپنا علاقہ کشن گنج اور اتر دیناجپور کا جائزہ لیں۔ کشن گنج اور اتر دیناجپور کا تعلیمی جائزہ لینا ہی میرا عنوان و مقصد ہے۔
ضلع کشن گنج اور شرح تعلیم
بہار کے اس مردم خیز ضلع میں 70 فی صد یا 68 فی صد مسلم ہیں راجدھانی پٹنہ سے 425 کیلو میٹر اتر پورب کی رخ پر واقع ہے ۔ کشن گنج کے نام کی تاریخ بہت پر لطف ہے مغلیہ دور میں یہ علاقہ نیپال کا حصہ تھا جو نیپال گڑھ سے مشہور تھا مغل حکمراں کی ہدایات کے مطابق جب محمد رضا نیپال گڑھ کے قلعے کو فتح کیا تو انہوں نے اس نام کو تبدیل کرکے عالم گنج کردیا پھر بعد میں کرشنا گنج ہوا پھر کرشنا گنج سےکشن گنج ہوگیا۔ یہ پہلے پورنیہ ضلع کا انو منڈل (سب ڈویزن) تھا حکومت بہار نے 14 جنوری 1990ع میں اسے مستقلا ضلع کا درجہ عطا کیا صرف ایک انومنڈل اور سات پرکھنڈ والا یہ ضلع تعلیم ، تجارت ، روزگار کے میدان بہت پسماندہ ہے یہاں عام لوگوں کی امدنی کا زریعہ دھان ،مکئی سن پٹ کی کاشتکاری ہے ۔ گزشتہ کچھ سالوں سے چائے پتی کی زراعت بھی جگہ جگہ ہونے لگی ہے یہاں کے زیادہ تر لوگوں کی زبان سورجاپوری ہے ۔ سنہ 2011 کی مردم شماری کے اعتبار سے ضلع کی کل آبادی1690948اور تعلیمی شرح 04۔57 فیصد ہے جب کہ 2001 کی شرح تعلیم اعداد و شمار کے مطابق 02۔31 فیصد تھا سنہ 2011 کی مردم شماری میں شرح تعلیم میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ڈاکٹر جلیس نصیری کے مطابق اعداد وشمار “خواندگی” کی شرح بیان کرتے ہیں جوکہ “تعلیم یافتہ ہونے” کے بالکل مختلف ہے خواندگی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ایک انسان کسی رسم الخط کو پڑھنے پر قدرت رکھتاہو ۔خواندگی کے بعد تعلیم یافتہ ہونا اور پھر تعلیم یافتہ کے بعد انسان کا دانشورانہ سطح تک پہنچنا ایک بڑی بات ہوتی ہے جس کے حوالہ سے اس خطے کی قسمت بہت اچھی نہیں رہی ہے ۔ (انکشاف 2024)
تعلیمی پسماندگی اور اعلیٰ تعلیم کی کمی اس علاقہ کی غربت وپسماندگی کا اہم سبب ہے علاقہ میں فی الوقت اسکول و مدارس کی کمی نہیں ہے ہر دو تین کیلو میٹر پر کوئی نہ کوئی مکتب و مدرسہ ہے۔ ہر گاؤں اور قصبہ میں اسکول ہے۔ کمی اگر ہے تو معیاری اور اعلیٰ تعلیم کی کمی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بچے اچھی تعلیم کے لئے کٹیہار، پٹنہ ، دربھنگہ اور دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ حکومت بہار کو چاہئے کہ تعلیم کو مزید معیاری اور اعلیٰ بنانے کی کوشش کرے ۔
اتر دیناجپور اور شرح تعلیم
حضرت علامہ مفتی محمد ساجد رضا مصباحی اپنے وسیع ، وقیع اور گرانقدر مضمون ” بنگال اور مسلم مسائل” میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ضلع اتر دیناجپور میں سنہ ۲۰۱۱ع کے مردم شماری کے اعتبار سے 92۔49 فیصد مسلم آبادی ہے حالانکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے اعتبار سے یہاں تقریبا 60 فیصد مسلم آبادی ہے اس کثیر مسلم آبادی والے ضلع میں تعلیمی اداروں کی شدید قلت ہے ۔آج بھی اتر دیناجپور کے کئی بلاک ایسے ہیں جہاں بچوں اور بچیوں کو ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے دس پندرہ کلو میٹر کی مسافت روزانہ طئے کرنی پڑتی ہے ، کئی بار سڑک حادثات بھی رونما ہوتے ہیں اور بچیاں تحفظ کے مسائل کی بھی شکار ہوتی ہیں ۔ان علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول مزید مشکل ہوجاتا ہے ۔انہیں گریجویشن کے لئے بھی بڑی مشقتوں کا سامنا ہوتا ہے ۔ہائی اسکول کی تعلیم جیسے تیسے مکمل کرنے کے بعد اکثر بچے کشن گنج بہار کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے ساتھ کئی طرح کے مسائل پیش آتے ہیں ۔مائیگریشن کارڈ کے لیے دفاتر کا چکر لگانا پڑتا ہے ۔ابتدائی تعلیم کے لیے جو پرائمری اسکول ہیں ان کا نظام تعلیم اس قدر غیر منظم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنا گوارہ نہیں کرتے ۔ادھر چند سالوں سے مڈ ڈے میل اور سرکاری وظائف نیز مفت ڈریس کے نام پر کچھ بچے ان اسکولوں میں جانے لگے ہیں لیکن وہ بھی کھچڑی خوری تک محدود ہے سچر کمیٹی نے اپنے رپورٹ میں کہاتھا کہ پرائمری اسکولوں میں مسلم بچوں کی شرح 50 فیصد کے قریب ہے جو میڈل اسکول جاکر 26 فیصد ہوجاتا ہے اور ہائی اسکول میں صرف 12 فیصد مسلم بچے ہی پہنچ پاتے ہیں اس رپورٹ کے بعد اقتدار کی کرسی تو بدلی لیکن اس بدتر تعلیمی صورت حال کو سدھارنے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں ہوئی ۔
( ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور مارچ ۲۰۲۴)
اتردیناجپور میں تعلیمی صورت حال کو آپ نے ملاحظہ کیا باوجود ان مشکلات و دشواریوں کے اس ضلع کے لوگوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے مناسبتا اچھی کوشش کی ہے تعلیم کا فیصد کوئی خوش افزا نہیں پھر بھی قراردل کے لیے کچھ بہتر ہے جو مندرجہ ذیل رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
سنہ 2011 ع کے ہندوستانی مردم شماری کے اعتبار سے اتر دیناجپور ضلع میں شرح تعلیم ٪ 54۔49 ہے جو ضلع کے اوسط ٪07۔59 سے کم ہے جبکہ مسلم خواتین کی شرح تعلیم اس سے بھی کم ہے یعنی٪68۔48 ہے۔
(https://www researchhate .net.)
یہ اسکولی تعلیم کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا اب آئیے ذرا مدارس و مکاتب کا جائزہ لیاجائے ۔
کشن گنج اوراتر دیناجپور کے مدارس و مکاتب کی تعلیم
سیمانچل کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے ضلع کشن گنج کی طرح اتر دیناجپور بھی مسلم اکثریت والا مغربی بنگال کا ایک مردم خیز ضلع ہے۔ جہاں چاروں طرف مسلم بستیاں اور قصبے آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں کو مذہبی رجحان، روایت پسندی اور اسلامی تہذیب و تمدن وراثت میں ملی ہوئی ہے اور قد آور علمائے کرام کی تعداد بھی ان دونوں ضلعوں میں اچھی خاصی ہے ۔ ہر گاؤں سے کثیر تعداد میں مسلم بچے دینی تعلیم کے لئے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں اور محنت کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں؛ لیکن المیہ یہ ہے کہ علاقائی مدرسوں میں ڈھنگ سے ناظرہ کی تعلیم بھی نہیں ہوتی(الا ماشاء اللہ) پرانا طرز تعلیم جاری ہے کہ بس حروف کی شناخت کراکر بچوں کو آگے بڑھایا جائے جب کہ بچوں کو شروع سے ہی حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھانا بنیادی ضرورت ہے، نیز ایسا ہی معاملہ تحریر کا بھی ہے۔
پہلے کے منشی حضرات بچوں کی املاء نویسی اور خوش نویسی ( اچھی لکھاوٹ) پر خوب دھیان دیا کرتے تھے؛ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مدرسوں سے لکھائی کا معیار گھٹ گیا ہے جس کی وجہ سے موجودہ مدرسوں کے طلبہ میں لکھنے کی صلاحیت بہت کمزور ہے۔ یہ ایسی کمیاں ہیں جس کی تلخی و ترشی ہمارے علاقائی طلبہ اونچی جماعتوں میں پہنچنے کے بعد بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں؛ اس لئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ معیاری مدرسہ عالی شان عمارت و بلڈنگ کا نام نہیں، اور نہ طلبہ کی کثرت داخلہ کا نام ہے؛ بلکہ معیاری مدرسہ وہی ہے جس کا طریقۂ تعلیم ایسا ہو جو بچوں کے زبان وبیان میں نکھار لائے، جو بچوں کی بنیاد کو مضبوط کرے ، جو بچوں کی پڑھائی ، لکھائی کی صلاحیت کو توانائی دے اور ان کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے ۔
علاقے میں معیاری مدرسوں کی کمی کی وجہ سے علاقائی بچے ناظرہ اور درجہ اعدادیہ پڑھنے کے بعد اتر پردیش، بہار کے دربھنگہ ، چھپرہ ، سیتا مڑھی کے اضلاع، مہاراشٹر کے ممبئی، پونہ، مالیگاؤں، اورنگ آباد، رتناگیری، ناسک، کلیان، ناندیڑ ، کرناٹک، آندھرا، گجرات اور تیلنگانہ وغیرہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان شہروں اور صوبوں کے بڑے مدارس میں بچوں کا داخلہ ہو تو جاتا ہے؛ لیکن درجہ بندی کی تعلیم سے طلبہ کی محنت نصابی کتابوں کو یاد کرنے اور ان کو سمجھنے میں صرف ہوجاتی ہے جو کمیاں وہ اپنے ساتھ لائے تھے ان پر محنت کرنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے؛ اس لئے ہم علاقائی مدسوں کو معیاری بنانے کی اہمیت و ضرورت سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔
معیار کیسے ممکن ہو؟ چند تجاویز:
(١) اپنے علاقائی مدرسوں میں تعلیم وتدریس کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، جس سے ہم طلبہ کی بنیادی خامیاں دور کر سکیں اور ابتدائی جماعتوں سے ہی تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنےکی قوت اور خوش نویسی کا درک پیدا کرسکیں ۔
(٢) علاقائی مدارس کو معیاری بنانے کے لئے ہمیں دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ جو مدارس ناظرہ لیبل کے ہوں، ان میں دیگر مدرسین کے ساتھ ایک قاری صاحب کا تقرر ضرور ہو، جن کی پوری ذمہ داری بچوں کو مشق حروف کرانا ہو۔
(٣) عصری تعلیم کے لئے ایک ماسٹر بھی ہو اور اسکول کے طرز پر گھنٹی بائی گھنٹی ہر سبجیکٹ یعنی عربی ،ارود ہندی / بنگلہ ، انگلش ،ریاضی (حساب) اور مشق قرأت وحروف اور املاء نویسی وخوش نویسی کی تعلیم ہو۔
(٤) تدریس وتعلیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال بھی کیا جائے ، بچوں کو سمجھانے کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے ۔
(٥) اگر آپ کا مدرسہ ناظرہ لیبل سے اوپر کا ہے، جس میں اعدادیہ ،اولیٰ ، ثانیہ اور ثالثہ تک پڑھائی ہوتی ہے تو نصاب تعلیم وہی رکھا جائے، جو نصاب تعلیم الجامعة الاشرفیہ مبارکپور اور جامعة الرضا بریلی شریف اور دوسرے بڑے اداروں کا ہے۔ ان نصابوں کے مطابق تعلیم وتدریس ہو تو ہمارے علاقائی بچے آسانی سے ان بڑے اداروں میں داخلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ہماری پوری کوشش ناظرہ اور عالمیت کے ابتدائی درجوں کی تعلیم وتدریس بہتر بنانے کی طرف ہونی چاہئے اور تربیت پر بھی توجہ ہونی چاہیئے کہ بچے ابتدا ہی سے نماز و روزہ کا پابند ہو اور ان میں خوف خدا بھی ہو۔ اگر درجہ ثالثہ تک کے لئے بھی علاقائی درس گاہوں کے اندر معیاری تعلیم ،تدریس اور تربیت کا انتظام ہو جائے تو یہ علاقہ اتر دینا ج پور و کشن گنج واطراف کے لئے فخر کی بات ہوگی۔
(٦) درجہ اعدادیہ تا درجہ ثالثہ کے لئے کم از کم پانچ باصلاحیت مدرسین کی ضرورت ہوگی۔ چار مدرسین درس نظامی کے لئے اور ایک ماسٹر صاحب عصری تعلیم کے لئے اور حفظ کا کورس بھی ہو تو طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے، معقول تنخواہ سے، کہنہ مشق حفاظ کا انتخاب کیا جائے۔
بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے علاقائی اسکولوں اور مدرسوں کو معیاری بنانے ، دینی و عصری علوم کو فروغ دینے کی توفیق سعید عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔