سیاسی بصیرت

کہ خوشی سے مر نہ جاتے

ودود ساجد

(ایڈیٹر روزنامہ انقلاب)

آر ایس ایس کے قیام کے 100 سال پورے ہونے پر منعقد سہ روزہ تقریبات میں اس کے 75 سالہ سربراہ موہن بھاگوت نے جو سب سے اہم بات کہی وہ یہ ہے کہ ’’ہندوستانی مسلمان بھی ہمارے اپنے ہیں‘‘۔ اس مفہوم کی بات وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں لیکن اس بار انہوں نے یہ بات کچھ مختلف انداز سے کہی ہے۔ ان کے خطاب کا وہ حصہ خاصا گردش میں ہے جس میں انہوں نے قومیت پرستی کے تناظر میں ملک کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ذکر کیا ہے۔

جمعیت علماء ہندکی سہ روزہ مجلس عاملہ میں اپنے آخری خطاب میں مولانا ارشد مدنی نے بھی موہن بھاگوت سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرکے ان سے دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے۔ موہن بھاگوت نےدہلی کے وگیان بھون میں مسلسل تین دن تک جو ’شائستہ’ خطاب کیا ہے مختلف مبصرین اس کا مختلف انداز سے جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کو درپیش داخلی مسائل پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔ انہوں نے جہاں اور بہت سی باتیں کہی ہیں وہیں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ہندوستان کو ہندوراشٹر ’ڈکلیر‘ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ (عملاً) پہلے سے ہی ہندو راشٹر ہے۔

آر ایس ایس کے سوچنے کا اپنا زاویہ ہے۔ یہ تنظیم اس زاویہ کو قومیت پرستی قرار دیتی ہے۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ قومیت پرستی ایک وسیع نقطہ نظرہے۔ موہن بھاگوت اپنی تقریروں میں اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن 100 سالہ جشن کے موقع پر انہوں نے متھرا اور بنارس کی گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ کا مسئلہ ’بانداز دگر‘ اٹھاکر اس نقطہ نظر کو محدود کر دیا ہے۔ ان کی کچھ باتیں واضح ہیں’ کچھ غیر واضح ہیں‘ کچھ باتیں حوصلہ بخش ہیں’ کچھ حوصلہ شکن ہیں‘ کچھ باتیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھانے والی ہیں اور کچھ فرقہ وارانہ منافرت کو ۔ ایسے میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ان کے اصل افکار کیا ہیں۔

مسلمانوں کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان کی قیادت آر ایس ایس کی قیادت سے مل کر ان تمام اشوز پر کھل کر بات کرے جن کے سبب کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ اس کشیدگی کا یکطرفہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہورہا ہے۔ اس ضمن میں مولانا ارشد مدنی کا یہ اعلان اہم ہے کہ پہلے وہ موہن بھاگوت سے ملنے ان کی دعوت پر گئے تھے اب وہ خود ان سے ملنے جائیں گے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تناظر میں موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ عیسائیت اور اسلام مذاہب باہر سے ضرور آئے لیکن ہمارے لوگوں میں سے جن لوگوں نے ان مذاہب کو قبول کیا وہ تو ہمارے ہی ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اُن کے اِن مذاہب کو قبول کرنے سے کیا بدلا؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ صرف عبادت کا طریقہ ہی تو بدلا؟ باقی تو سب کچھ وہی ہے‘ لیکن جو ڈر بھر دیا گیا ہے کہ یہ ساتھ رہے تو کیا ہوگا؟ کتنی لڑائی ہوئی‘ کتنےقتل ہوئے‘ کتنے مظالم ہوئے‘ ملک بھی ٹوٹا‘ ہوشیار رہو۔‘‘

اب یہاں ٹھہر کر ان سے یک سطری سوال کرنا چاہئے کہ یہ ڈر ہندئوں کے ذہنوں میں کس نے بھرا؟ اور یہ ڈر کتنا مبنی بر حقیقت ہے؟ پھر یہ سوال بھی اہم ہوجاتا ہے کہ کیا کبھی ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایسا کوئی ایک کام کیا کہ جس سے ہندئوں کے ذہنوں میں بھرے ہوئے اس ڈر کو تقویت ملتی ہو؟۔ موہن بھاگوت اپنی بات کو متوازن کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک طرف تو یہ ہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ—- ارے بھئی‘ ان کے ساتھ رہیں گے تو تمہارا اسلام چلا جائے گا‘ ختم ہوجائے گا‘ تم الگ ہو‘ الگ ہی رہو‘‘۔

یہاں ٹھہر کر پھر ایک سوال کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے ایسا کب‘ کس مجمع میں اور کس اجلاس میں کہا؟ یہاں شمار کرانے کا موقع نہیں ہے لیکن ایک دو نہیں ہزاروں بڑی بڑی مثالیں ایسی ہیں جن سے آپ ہندوستان کے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی‘ پیار محبت اور یگانگت کے مضبوط رشتوں کی تصدیق کرسکتے ہیں۔

موہن بھاگوت آگے کہتے ہیں کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مذہب بدلنے سے قومیت نہیں بدلتی‘ مجھے ارشد مدنی صاحب نے بتایا تھا کہ ان کے چاچا (والد) نے بھی یہی بات کہی تھی‘ تو ہماری شناخت تو ایک ہی ہے‘ ہم ہندو ہیں‘ بھارتیہ ہیں‘ ہندی ہیں‘ جو بھی آپ کو کہنا ہے کہئے۔‘‘ اتنا کہہ کر تو موہن بھاگوت نے خود اپنی کھڑی کی ہوئی عمارت کو ہی ڈھادیا ہے۔ جو مسلمان پاکستان نہیں گئے وہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی ہی کے کہنے پر تو نہیں گئے‘ وہ بھی انہی دونوں اور ان جیسے دوسرے درجنوں بڑے علماء اور مجاہدین آزادی کے افکار ہی کے تو پیرو کار ہیں۔ تو پھر وہ کون سے مسلمان ہیں جنہیں آپ کے ساتھ رہنے میں تکلف تھا اور جنہیں اپنے اسلام کے چلے جانے کا خطرہ تھا۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ سب توہمات اور مفروضات ہیں ! ان کا حقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ مو ہن بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ ’’اسلام یہاں شروع سے تھا ‘ ہے اور رہے گا‘ سب ساتھ چلیں گے‘ ہندئوں میں اعتماد کی کمی ہے لیکن ہندو ایسی سوچ کا نہیں ہوسکتا کہ اسلام نہیں رہے گا‘ دونوں جگہ یہ اعتماد قائم ہو تب یہ ’سنگھرش‘ ختم ہوگا‘ پہلے یہ ماننا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں‘ہماری زبان‘ مذہب الگ ہے‘ تضادات اور خصوصیات ہیں‘ لیکن سب سے اوپر ہمارا ملک ہے‘‘۔

سوال یہی ہے کہ ملک کو سب سے اوپر سمجھنے کا آپ کا پیمانہ کیا ہے؟ کبھی اس پیمانہ کے تعلق سے کیا آپ نے مسلمانوں اور ان کے قائدین سے بھی گفتگو کی یا یکطرفہ طور پر ملک کو سب سے اوپر سمجھنے کا اپنا پیمانہ بناکر پیش کردیا اور ہر ایک سے اسی پیمانہ کو ماننے کی توقع کرنے لگے؟ مسلمان کے یہاں وطن سے محبت اس کے ایمان کا حصہ ہے۔ بار بار یہ بات دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس ملک کے مسلمانوں نے ہر موقع پر اس کا عملی ثبوت دیا ہے۔ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔

موہن بھاگوت نے متھرا اور کاشی کی مسجدوں کے تعلق کہا کہ ان دونوں مقامات کیلئے جاری کسی تحریک میں آر ایس ایس خود تو شامل نہیں ہوگی لیکن اس کے ورکروں کو آزادی ہے کہ وہ اس تحریک میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر باقی ہی کیا رہ گیا؟ جب آپ نے اپنے تمام ورکروں کو چھوٹ دیدی تو پھر تنظیم کے شامل ہونے اور نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اور کون سا ورکر ایسا ہوگا جو آپ کی طرف سے چھوٹ ملنے کے بعد متھرا اور کاشی کی تحریکوں میں شامل نہیں ہوگا؟ درست بات یہ ہے کہ چھوٹ کا مطلب اختیار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ان کا حکم ہے۔ موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کہی لیکن اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ ’ وہ بھائی چارے کی خاطر ان دونوں مقامات سے دستبردار ہوجائیں‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ایجنڈے میں توصرف بابری مسجد تھی ۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ کاشی اور متھرا کی مسجدیں تو آر ایس ایس کی قراردادوں میں بابری مسجد سے بھی پہلے سے موجود تھیں۔

موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ (ہندو مسلم ) مل کر دیش کو چلائیں گے۔ لیکن ان سے کہا جاسکتا ہے کہ ذرا یوپی کے وزیر اعلی کی زبان دیکھئے اور ان کا کام دیکھئے‘ آسام کے وزیر اعلی کی زبان دیکھئے اور ان کا کام دیکھئے۔ ایک بالواسطہ طور پر یوپی کے مسلمانوں کو دھمکی دے رہا ہے کہ ’وہ پلاین (نقل مکانی) پر مجبور ہوجائیں گے‘ اور ایک آسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے رہا ہے۔ آسام کا وزیر اعلی تو ان مولانا ارشدمدنی کو ہی دھمکی دے رہا ہے جن کی موہن بھاگوت تعریف کر رہے ہیں اور جن کے آبا و اجداد کو قوم پرست اور محب وطن قرار دے رہے ہیں۔

یوپی کے وزیر اعلی ایک ایسی رپورٹ کا سہارا لے کر‘جو ابھی عام بھی نہیں ہوئی ہے اور جسے ابھی اسمبلی میں پیش بھی نہیں کیا گیا ہے‘ کہہ رہے ہیں کہ سنبھل میں صرف 15 فیصد ہندو رہ گئے ہیں۔ آخر اس کا کیا ثبوت ہے کہ سنبھل میں ہندئوں پر ظلم ہوا اور ان کی تعداد گھٹ گئی؟ سنبھل کی جامع مسجد کو مندر بتایا جارہا ہے‘ اس کے سروے کا آرڈر بھی عدالت جاری کردیتی ہے‘حکومت ایسے لوگوں کی حمایت اور تائید کرتی ہے‘ پولیس مسلمانوں پر مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کرلیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت اس کا جائزہ لینے کیلئے تحقیقاتی کمیٹی بنادیتی ہے کہ ہندئوں پر ظلم ہوا ۔

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ موہن بھاگوت نے اس طرح کا بیان پہلی بار نہیں دیا ہے۔ ممبئی میں 3 جون 2022 کو انہوں نے اپنے سینکڑوں عہدیداروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ٹھیک ہے کہ کاشی سے ہماری پرانی عقیدت ہے‘ وہاں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار نہ ہندو ہیں اور نہ مسلمان‘ کچھ قانونی اشوز ہیں جو عدالت میں زیر غور ہیں‘ لیکن ہر مسجد کے نیچے شولنگ کیوں ڈھونڈنا؟ آخر جھگڑا کیوں بڑھانا‘ روز ایک نیا معاملہ نکالنا‘ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘ لیکن اس کے بعد ملک کی مختلف عدالتوں میں مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف ایک درجن عرضیاں دائر کردی گئیں۔ گیان واپی سمیت دیگر کئی مقامات پر مقامی عدالتوں نے ان عرضیوں پر سرسری سماعت کرکے بجلی کی رفتار سے سروے کے احکامات جاری کردئے۔ ایجنسیوں اور انتظامیہ نے بھی سرعت کے ساتھ سروے کر ڈالے۔ مسجدوں کے نیچے مندروں کی باقیات تلاش کرنے والے شرپسندوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور اجمیر میں آٹھ صدیوں سے قائم درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے خلاف بھی مقامی عدالت میں عرضی دائر کردی۔

موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ حکومت یا بی جے پی کے معاملات پر آر ایس ایس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ جب کہ آر ایس ایس ہی ان کے الیکشن میں انہیں حمایت دیتی ہے‘ وزیر اعظم ان کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں‘ پہلے 75 سال میں سبکدوشی کی بات کرتے ہیں لیکن پھر پلٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے بھائی چارہ کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ مسجدوں کے آگے ٹھہر کر جو لوگ اشتعال انگیزی کرتے ہیں‘ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں‘ وہ کون سا بھائی چارہ دکھا رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ان کی قیادت میں آر ایس ایس نے مسلمانوں کے ساتھ روابط قائم کرنے میں غیر معمولی گرم جوشی دکھائی لیکن یہ بھی درست ہے کہ دونوں قیادتوں کی یہ گرم جوشی زمین پر کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکی۔ لیکن پھر بھی اگر اتنی بڑی ‘منظم اور اثر و رسوخ والی تنظیم کے سربراہ دوبارہ اس گرم جوشی کے دور کی واپسی کی بات کر رہے ہیں تو من حیث القوم مسلمانوں کو اس کا خیر مقدم کرکے بات کو آگے بڑھانا چاہئے۔

(ایف بی، وال سے)

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں