یوپی میں انصاف یا تعصب؟ سرکاری سختی کا نشانہ صرف ایک طبقہ کیوں؟

یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے شرپسندوں پر سخت کارروائی کا اعلان کیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی سختی کا نشانہ اکثر صرف مسلمان بنتے ہیں، جب کہ اکثریتی طبقے کی اشتعال انگیزی پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔
لکھنؤ۔ اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار پھر سخت لہجے میں عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ لوک بھون میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم کی املاک کو برباد کرنے والے سماج کے دشمن ہیں اور ایسے لوگوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اگر کہیں ایسی حرکت دیکھیں تو ویڈیو بنا کر وائرل کریں، باقی کارروائی — چاہے پوسٹر لگوانا ہو یا مالی تلافی — حکومت خود کرے گی۔یوگی آدتیہ ناتھ ہائی اسکول و انٹرمیڈیٹ 2025 کے نمایاں طلبہ کو اعزازات دینے کے لیے اس تقریب میں شریک تھے۔ انہوں نے طلبہ کو ایک لاکھ روپے کا چیک، ٹیبلیٹ، تعریفی سند اور تمغہ پیش کیا، اور ساتھ ہی 100 کروڑ روپے سے زائد کی تعلیمی اسکیموں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔
تاہم، ان بیانات اور حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اترپردیش میں ان سخت اقدامات کی تلوار اکثر صرف ایک مخصوص طبقے، بالخصوص مسلمانوں، پر ہی گرتی نظر آتی ہے۔ ہر بڑے یا چھوٹے ہنگامے کے بعد، خواہ اس کا آغاز کہیں اور سے ہوا ہو، نشانہ صرف ایک ہی طبقہ بنتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا قانون کا نفاذ سب کے لیے برابر ہے یا نہیں۔
ماضی کے کئی واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یوپی میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے نعرے لگانے، مسجدوں کے سامنے اشتعال انگیز مظاہرے کرنے، یا عبادت گاہوں پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرانے جیسے اقدامات اکثر ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے خلاف نہ تو کوئی بلڈوزر چلتا ہے، نہ ہی پوسٹر لگتے ہیں اور نہ ہی ویڈیو وائرل کیے جاتے ہیں۔متعدد شہروں میں درگاہوں، مسجدوں اور دیگر مذہبی املاک کو نقصان پہنچانے کی خبریں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، لیکن حکومت کی ‘زیرو ٹالرنس’ پالیسی ایسے معاملات میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ سنبھل، کانپور، پریاگ راج اور دیگر شہروں کے حالیہ واقعات اس دوہرے معیار کی گواہی دیتے ہیں۔
ایسے میں وزیرِ اعلیٰ کا “قانون سب کے لیے برابر” کا دعویٰ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے تو پھر کارروائی کا دائرہ سب پر یکساں ہونا چاہیے، نہ کہ مخصوص شناخت یا طبقے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا حکومت اپنے عمل سے بھی وہی مساوات اور انصاف دکھا پائے گی، جس کا دعویٰ وہ زبان سے کرتی ہے؟ یا پھر یہ سختی صرف سیاسی مفاد اور اکثریتی جذبات کو خوش کرنے کا ایک ذریعہ ہی رہے گی؟