سفر پنڈوہ کی روداد

محمد شہباز عالم مصباحی
ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز
دو چار دن پہلے دبستان پنڈوہ کے معروف تذکرہ نگار مفتی عبد الخبير مصباحی صاحب کا فون آیا کہ میری نئی کتاب “شیخ نور قطب عالم پنڈوی: حیات اور کارنامے” شائع ہوئی ہے جسے مطالعہ اور نقد و تبصرہ کے لئے آپ کو پیش کرنا ہے اور میں بتاریخ 23 جنوری، 2025 پاچھو رسیا کے جلسے میں آ رہا ہوں تو کیا ملاقات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ میں جلسے میں تو جاتا نہیں، لیکن اس تاریخ میں، میں کالج کے بجائے اپنے غریب خانہ واقع گنجریا ہی میں رہوں گا، اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو جلسے کے بعد غریب خانے پر ہی تشریف لائیں اور آرام کریں اور صبح ناشتے کے بعد پھر آپ اپنے گھر چلے جائیں تو انہوں نے کہا کہ در اصل مجھے 24 جنوری میں پنڈوہ شریف عرس میں بھی جانا ہے جس میں مذکورہ کتاب کی رسم اجرا بھی ہونی ہے تو میں جلسے کے بعد آپ کے یہاں نہیں جا پاؤں گا، نہیں تو آ جاتا۔ پنڈوہ شریف جانے کی بات جیسے ہی میں نے سنی تو معا کہا کہ اس سفر میں مجھے بھی شریک کریں، کیونکہ ایک دو سال سے پنڈوہ شریف میں حاضری دینے کے لئے میں بھی سوچ رہا ہوں، لیکن فرصت نہ ہونے کی وجہ سے محرومی ہے تو آپ کے ساتھ اس بار حاضری دے ہی لی جائے۔ حسب وعدہ 24 جنوری کی صبح تقریباً بوقت 08:30، میں گنجریا بازار پہنچا جہاں پہلے سے مفتی صاحب فور ویلر لے کر ہائی وے پر مجھے لینے کے لئے پہنچے ہوئے تھے اور پھر ہم لوگ پنڈوہ کی جانب روانہ ہوئے۔ قافلے میں مفتی صاحب کے علاوہ مولانا ظہیر الدین، حافظ مہدی حسن، ایک چچا میاں، فقیر شہباز چشتی اور جناب الیاس اشرفی قادری تھے. راستے میں صرف ایک جگہ ہم لوگوں نے اٹہار سے پہلے ایک ڈھابے میں ناشتہ کیا، ورنہ سفر مسلسل جاری رہا اور ٹھیک جمعہ کی نماز سے آدھے گھنٹے پہلے ہم لوگ سعد اللہ پور پہنچ گئے، پہنچ کر وضو کیا اور جمعہ کی نماز ادا کی، اس کے فورا بعد حضرت شیخ سراج الدین اخی آئینۂ ہند کے روضے پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی، عرس میں شریک کچھوچھہ شریف کے بعض سادات کرام سے ملاقات ہوئی اور پھر ہم لوگ وہاں سے پنڈوہ شریف کے لئے روانہ ہوئے، ظہیر الدین بھائی ناشتے کے طور پر گھر سے گوشت اور روٹی لائے ہوئے تھے تو ظہرانے کے طور پر ہم سبھوں نے مل کر اسے ہی کھا لیا۔ واضح رہے کہ سعد اللہ پور میں حاضری دینے والے کھانے کا سامان گھر سے باندھ کر ہی لے جاتے ہیں، کیوں کہ وہاں آس پاس میں اب زیادہ ہندو آبادی ہے اور کوئی ڈھنگ کا کھانا کھانے کا ہوٹل نہیں، ہاں چائے اور پوڑی وغیرہ مل جاتی ہے، بلکہ گروپ کی شکل میں بعض حاضری دینے والے تو من دو من سامان ساتھ لے کر آتے ہیں اور وہیں پکا کر کھاتے ہیں اور بعض زائرین کو اپنے ساتھ کھلا بھی دیتے ہیں جن کے پاس کھانے کا کچھ بھی نہیں ہوتا، خیر ہم لوگ پنڈوہ شریف سے پہلے راستے میں واقع غنی خان چودھری انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (نرائن پور) گئے جہاں ظہیر الدین بھائی کے ہم زلف کا ایک لڑکا زیر تعلیم ہے اور اسے ان کو روپے دینے تھے، کالج کے کینٹین میں پھر ہم لوگوں نے بریڈ – آملیٹ تناول کیا اور چائے نوش کی، اس کے بعد مغرب کی نماز سے پہلے ہم لوگ مخدوم اشرف مشن واقع پنڈوہ شریف میں پہنچے، سب سے پہلے ادارہ کے صدر المدرسين و شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الودود مصباحی سے ملاقات ہوئی جن کو مفتی عبد الخبير مصباحی صاحب نے پہلے سے ایک کمرے کے لئے کہ رکھا تھا اور حسب وعدہ انہوں نے تیسرے فلور پر ہم لوگوں کو ایک پورا کمرہ گدا، تکیہ اور کمبل کے ساتھ عنایت فرمایا، لیکن کمرے میں جانے سے پہلے ہم لوگوں نے دیکھا کہ مشن کے سربراہ اعلی پیر طریقت حضرت مولانا جلال الدین اشرف کچھوچھوی قادری میاں دام ظلہ اپنے حجرۂ خاص میں اپنے چند خاص مریدین کے ساتھ چائے نوش کر رہے ہیں تو موقع غنیمت سمجھ کر فورا حضرت سے شرف ملاقات حاصل کیا، حضرت نے ہلکا ناشتہ کرایا اور چائے پلوائی، مفتی عبد الخبير صاحب کی جانب روئے سخن کرتے ہوئے حضرت نے کچھ دلچسپ گفتگو بھی کی، اسی دوران حافظ مہدی صاحب مرید بھی ہوئے اور پھر ہم لوگ اجازت لے کر روم میں آ گئے اور مغرب کی نماز کے بعد پھر میں اور ظہیر الدین بھائی نے سب سے پہلے ختم بخاری شریف کی محفل میں شرکت کی. بخاری شریف کا آخری درس ادارے کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الودود مصباحی ہی نے بڑے عالمانہ و فاضلانہ انداز میں دیا، درس کے اختتام کے بعد حضرت قادری میاں دام ظلہ نے بڑی رقت انگیز اور پر سوز دعا فرمائی. اس کے بعد ہم دونوں نے حضرت مخدوم علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمۃ کے روضے پر حاضری دی اور چادر پوشی اور فاتحہ خوانی کی، بعدہ ہم دونوں نے بریانی کھائی، اور پھر کمرے میں آکر لنگر کا تبرک بھی تناول کیا، اب دستار بندی کا جلسہ شروع ہوا، متعدد خطبا سمیت مفتی عبد الخبير مصباحی صاحب نے بڑا عالمانہ خطاب کیا، اسی دوران جس کمرے میں ہم لوگ ٹھہرے تھے، آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ، سملیہ یونٹ کے معزز ارکان مولانا احمد رضا اشرفی چشتی، مولانا رضوان ہاشم اشرفی، مولانا بدر الحق رضوی وغیرہ تقریباً بارہ تیرہ افراد مجھ فقیر سے ملنے تشریف لائے جو خود بھی عرس میں حاضری دینے آئے ہوئے تھے، ان حضرات سے کچھ اہم گفتگو ہوئی، تقریباً رات ساڑھے تین بجے مفتی عبد الخبير مصباحی صاحب کی وقیع تاریخی تصنیف “شیخ نور قطب عالم پنڈوی: حیات اور کارنامے کی رسم اجرا غازی ملت حضرت سید ہاشمی میاں، حضرت سید جلال الدین اشرف قادری میاں، حضرت سید نظام اشرف، حضرت سید خالد اشرف اور حضرت سید سراج اشرف سمیت تقریباً 15 سادات کرام کے مقدس ہاتھوں سے عمل میں آئی، بعدہ غازی ملت حضرت ہاشمی میاں دام ظلہ کا بڑا پر مغر، فکر انگیز، بصیرت افروز اور چشم کشا خصوصی خطاب ہوا، اس کے بعد چند طلبا کی کتابوں کا بھی اجرا ہوا اور پھر ادارہ کے طلبۂ فضیلت، عالمیت، حفظ اور قرأت کی دستار بندی ہوئی جس کے بعد دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا اور پھر ہم لوگ گھر کے لئے روانہ ہوئے.