وقف ترمیمی بل 2024 کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری اپوزیشن کی سخت مخالفت

نئی دہلی
نئی دہلی، 28 جنوری 2025: مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) نے وقف ترمیمی بل 2024 کو 14 ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا، جس میں حکمران این ڈی اے کے اراکین کی تجاویز کو شامل کیا گیا جبکہ اپوزیشن کی تمام 44 ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ اس فیصلے کے بعد سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اپوزیشن نے کمیٹی کے طریقۂ کار کو “جمہوریت مخالف” قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں اپنے مؤقف کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا۔
اہم ترامیم کی تفصیلات
- وقف جائیدادوں کے تنازعات کا فیصلہ:
پہلے وقف جائیدادوں کے معاملات ضلع کلکٹر کے اختیار میں تھے، لیکن اب ریاستی حکومت کا مقرر کردہ افسر ان معاملات کا فیصلہ کرے گا۔
اس ترمیم کے بعد ریاستی حکومتوں کا کردار زیادہ مضبوط ہو جائے گا، جس پر اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ حکومتیں سیاسی بنیادوں پر فیصلے کریں گی۔
- غیر مسلم اراکین کی شمولیت:
مرکزی اور ریاستی وقف بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم اراکین کو شامل کیا جائے گا۔
اگر حکومت چاہے تو وقف بورڈ میں مزید غیر مسلم افسران کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم سے وقف بورڈ کا اسلامی تشخص متاثر ہوگا۔
- وقف بائی یوزر (Waqf by User) کا خاتمہ:
موجودہ وقف جائیدادوں کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کی صورت میں ‘وقف بائی یوزر’ کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم جائیداد پر قبضہ کر لے تو اسے چیلنج کرنے کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔
- وقف کے عطیہ دہندگان کے لیے شرائط:
جو لوگ زمین وقف کریں گے، انہیں کم از کم پانچ سال تک مسلمان ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔
وقف کنندہ کو یہ بھی تصدیق کرنی ہوگی کہ وقف جائیداد کے عمل میں کوئی دھوکہ نہیں ہوا۔
اپوزیشن کے اعتراضات:
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کے اراکین، بشمول ٹی ایم سی، کانگریس، اور ڈی ایم کے، نے الزام لگایا کہ اجلاس میں انہیں مؤقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ٹی ایم سی کے ایم پی کلیان بنرجی نے کہا، “ہمیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ جمہوریت کا سیاہ دن ہے۔”
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ انہیں اجلاس کے تمام دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے اور انہیں ترامیم پر اعتراض اٹھانے کا موقع نہیں دیا گیا۔
اپوزیشن اراکین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم مسلمانوں کے حقوق اور وقف جائیدادوں پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کی کوشش ہے۔
حکمران جماعت کا مؤقف:
بی جے پی کی اپراجیتا سرنگی نے وضاحت کی کہ اجلاس میں تمام اراکین کو بولنے کا موقع دیا گیا اور ترامیم کو اکثریتی ووٹ سے منظور کیا گیا۔
کمیٹی کے سربراہ جگدمبیکا پال نے کہا، “16 اراکین نے حمایت میں اور 10 نے مخالفت میں ووٹ دیا، جو جمہوری عمل کا حصہ ہے۔”
بی جے پی کے مطابق، یہ ترامیم وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام اور شفافیت کے لیے ضروری ہیں۔
پس منظر اور سیاسی تناؤ:
یہ بل 1995 کے وقف ایکٹ میں اصلاحات کرتا ہے تاکہ وقف جائیدادوں کے انتظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی حکومتوں کو وقف جائیدادوں پر زیادہ کنٹرول دے گا اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو محدود کر سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے 10 اپوزیشن اراکین کو معطل کر دیا گیا تھا، جس سے سیاسی کشیدگی مزید بڑھ گئی۔
مسلم تنظیموں نے بھی اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقف املاک کے اصل مقصد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اگلے اقدامات:
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی حتمی رپورٹ 29 جنوری تک جاری کر دی جائے گی۔
بل کو پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر مزید بحث اور ووٹنگ متوقع ہے۔
مسلم جماعتیں بل کی مخالفت میں عدالت جائے گی۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر کیا پیش رفت ہوتی ہے اور کیا اپوزیشن اپنی ترامیم شامل کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں۔