جمال الحق بندگی شیخ مصطفیٰ عثمانی جون پوری ثم پورنوی

محمد ابرار رضا مصباحی
قطب الاولیا،جمال الحق حضرت بندگی شیخ مصطفیٰ عثمانی جون پوری ثم پورنوی قدس سرہ گیارہویں صدی ہجری کےایک جامع کمالات بزرگ تھے۔ آپ ایک جید عالم و فقیہ ، عظیم داعی و مبلغ ، باکمال عارف و صوفی ، بے نظیر مرشد و مربی اور صاحب ولایت بزرگ تھے۔
نام و نسب :آپ کا نام نامی: شیخ مصطفیٰ، لقب: ’’جمال الحق‘‘ ا ور’’قطب الاولیاء‘‘ اور عرف:’’ حضرت بندگی‘‘ ہے۔ آپ مذہباً سنی، مسلکاً حنفی ،مشربا چشتی اور نسباًعثمانی تھے۔
سلسلۂ نسب مشہور چشتی بزرگ؛ شیخ کبیر حضرت شیخ سری سقطی عثمانی کے واسطے خلیفۂ سوم؛ امیر المومنین،ذو النورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان علم و فضل اوراخلاق و تصوف کا عظیم گہوارہ رہا ہے۔آپ کے اجداد میں اٹھارہویں پشت میں شیخ سری سقطی عثمانی نامی ایک بزرگ گزرے ہیں جو دنیاے علم و معرفت کے عظیم امام و مقتدا تھے۔اسی طرح آپ کے اجداد میں گیارہویں پشت میں قدوۃ المشائخ مخدوم شیخ یخشیٰ عثمانی رومی ایک عارف کامل اور عظیم بزرگ گزرے ہیں جو ’’مخدوم رومی‘‘ اور’’ شیخ رومی‘‘ سے مشہور تھے اور حضرت محبوبِ الٰہی ،سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا دہلوی کے مرید و خلیفہ اور حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلی کے نعمت و فیض یافتہ تھے اور آپ کے مورث اعلیٰ بھی۔آپ کےوالد گرامی امام العارفین حضرت شیخ عبد الحمیدعثمانی تھے جو ولی زماں اورقطب وقت تھے اور والدہ ماجدہ بھی ایک صاحب فضل و کمال اور مستجاب الدعوات خاتون تھیں۔
ولادت وتعلیم:
آپ موضع سکلائی لکھنؤکے ایک علمی و دینی خاندان میں تقریباً ۹۷۰ھ میں پیدا ہوئے۔ قطب وقت بندگی شیخ محمد بن نظام الدین امیٹھوی سے مرید ہو کر کچھ دنوں ان کی خدمت و تربیت میں رہے ، پھر انہی کے حکم سے تحصیل علم کے لیے جو ن پور پہنچے اور شیخ قیام الدین جون پوری کی خدمت میں رہ کرجملہ علوم وفنون کی تکمیل فرمائی۔ استاذ گرامی نے آپ کو سند فراغت کے ساتھ ساتھ خرقۂ خلافت واجازت بھی عطا فرمایا۔
بیعت و خلافت:
آپ اوائل عمر ہی میں حضرت بندگی میاں شیخ نظام الدین امیٹھوی کے خلف و جانشیں حضرت بندگی شیخ محمد عثمانی امیٹھوی سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوچکے تھے۔ آپ کو اپنے پیر کامل سے سعادتِ ارادت کے ساتھ ساتھ نعمت روحانی بھی حاصل تھی۔شیخ کامل کے علاوہ دیگر مشائخ نے بھی آپ کو خرقۂ خلافت ،سند اجازت اور روحانی نعمتوں سے نوازا تھا، جن میں شیخ قیام الدین جون پوری، شیخ نظام الدین نارنولی، شیخ فتح اللہ راج گیری اور شیخ نعمت اللہ جلال وغیرہ شامل ہیں۔
قیام جون پور :
جب آپ تحصیل علوم سے فارغ ہو ئے تو واپس اپنے وطن موضع سکلائی لکھنؤ پہنچے اور کچھ دنوں کے بعد یہاں سے ترکِ سکونت کرتے ہوئے جون پور کے موضع برونہ میں مقیم ہو ئے اوریہیں رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دینے لگے ۔
عقد مسنون:
آپ کاعقد موضع برونہ جون پور کے معروف عالم و بزرگ شیخ نور الدین مداری کی دختر سے ہوا۔ عہد شا ہ جہانی کے نامور عالم و فاضل مولانا شمس نور جون پوری آپ کے حقیقی برادر نسبتی(سالے) تھے۔ اولاد میں صرف آپ کے تین صاحب زادے تھے: (1)شیخ محمدسعید عثمانی،(2)شیخ محمد رشید عثمانی،(3) شیخ محمد ولید عثمانی۔
بڑے صاحب زادے شیخ محمدسعید عثمانی کا مزار درگاہ شریف چمنی بازار پورنیہ میں اپنے والد گرامی کے روضۂ بندگی میں ہے۔ منجھلے صاحب زادے شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری اور چھوٹے صاحب زادے شیخ محمد ولیدعثمانی؛ دونوں کے مزارات آستانۂ عالیہ ر شید آباد جو ن پور میں مرجع خلائق ہیں۔
ولایت سدھور:
سدھورضلع بارہ بنکی کاایک قدیم علمی وتاریخی خطہ ہے۔یہ شیخ خیر الدین انصاری سدھوری، راجی سید حامد شہ مانک پوری، شیخ نظام الدین نارنولی، قاضی مبارک سدھوری، شیخ شہر اللہ سدھوری وغیرہ کے زیرولایت تھا۔ بعدمیں مشائخ عظام نے یہاں کی ولایت آپ کو سپرد کی۔ آپ نے اپنے مرشد کامل شیخ نظام الدین نارنولی کے فرمانِ کرامت نشان: ’’سدھور کا یہ خطہ ہم نے تمھارے سپرد کیا اور وہاں کے باشندگان تم سے مستفیض ہوں گے‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اہالیانِ سدھور کو اپنے علمی وروحانی فیوض و برکات سے مستفیض فرمایا۔
ولایت پورنیہ:
سدھورکے بعدآپ نے ملک کی معروف و مردم خیز سرزمین پورنیہ کی ولایت و قطبیت انجام دی۔جب شیخ عالم فردوسی کے وصال کے بعدیہاں کا منصب ولایت خالی ہوگیاتوآپ ہی کےص سلسلۂ طریقت کے امام و پیشوا،صاحب ولایت بنگال حضرت مخدوم شیخ نور قطب عالم پنڈوی نے بالہام باطنی آپ کو یہاں کی ولایت عطا کی اور آپ حسب اشارۂ روحانی پورنیہ تشریف لائے ۔
قیامِ پورنیہ:
جس عہد میں آپ پورنیہ تشریف لائے، اس وقت پورنیہ کا علاقہ بنگال کا ایک اہم حصہ اور وسیع رقبے میں پھیلاہوا تھا۔موجودہ پورنیہ، کٹیہار، کشن گنج، ارریہ، دیناج پوروغیرہ اضلاع اسی میں شامل تھے اور اس وقت یہاں کی زمامِ حکومت یہیں کے امیروں اور نوابوں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی جو بادشاہ وقت کی طرف سے مقرر ہوتے تھے۔آپ کی تشریف آوری کے وقت پورنیہ کے حاکم نواب مروت خاں تھے جو نواب افتخار خاں ترکمانی کے فرزند اورنواب الٰہ یار خاں کے برادر بزرگ تھے۔یہ انتہائی خلوص و محبت سے پیش آئے اور آپ سے مرید بھی ہوئے،اور انہی کی مخلصانہ محبت و عقیدت کی بنا پر آپ نے محلہ چمنی بازار کو اپنی بود و باش کے لیے اختیار فرمائی ۔نواب موصوف کے بعدان کے برادرِخرد نواب الٰہ یار خاں بھی آپ کے دامن ارادت سے وابستہ ہوئے ۔ان کے سب سے چھوٹے بھائی نواب رحمٰن یار خاں معروف بہ رشید خاں آپ کے خلف وجانشیں قطب الاقطاب حضرت شیخ محمد رشید جون پوری( بانی خانقاہ رشیدیہ) کے صحبت و فیض یافتہ تھے۔اسی طرح سابق صاحب ولایت شیخ عالم فردوسی کے صاحب زادے شیخ محمد رفیع پورنوی بھی محبت و عقیدت کے ساتھ پیش آئے اور غایت محبت اور کمالِ خلوص کی وجہ سے خلافت و اجازت سے بہرہ ور ہوکر روحانی کمالات پر فائز ہو ئے۔چناں چہ گنج ارشدی میں ہے کہ آپ نے ایک دن شیخ محمد رفیع سے تحدیث نعمت کے طور پر ارشادفرمایا:
’’بردارم شیخ محمد رفیع !آپ کے کان میں یہ بات پہنچی ہو گی کہ جب آپ کے والد بزرگ وار کو ان کے پیرکی طرف سے شہر پورنیہ میں قیام کرنے کا حکم ہوا تو انھوں نے اپنے پیر ومرشد سے عرض کی کہ ہم حضرت مخدوم جہاں شرف الملۃ والدین صاحبِ ولا یت بہار کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور صوبۂ بنگال کا شہر پورنیہ حضرت شاہ نور قطب عالم پنڈوی کے زیر ولایت ہے ۔ان کی اجازت اور حکم کے بغیر ہمارا اس علاقے میں ٹھہر نا مشکل معلوم ہو رہا ہے۔حضرت شاہ عالم کے پیرنے اس مقدمے کو حضرت مخدوم جہاں کی خدمت میں پیش کیا تومخدوم جہاں نے شاہ عالم سے فرمایا: آپ عرس کریں۔ اس میں مَیں ،شیخ مظفر اور شیخ حسین حاضر ہوں گے اورحضرت شاہ نور قطب عالم کو اس میں تکلیف شرکت دے کر وہیں ان سے آپ کے قیام کاحکم دلوادیں گے۔حکم کے مطابق حضرت شاہ عالم نے عر س کیا ۔اس میں بزرگا نِ طریقت حاضر ہوئے ۔حضرت مخدوم جہاں نے حضرت شاہ نور قطب عالم سے شاہ عالم کے لیے شہر پورنیہ میں استقامت کی اجازت دلوائی۔حضرت نور قطب عالم نے فرمایا:میں نے ان تکلفات کے بغیر ہی یہ ملک تمہارے حوالے کردیا‘‘ ۔
خانقاہ کی بنیاد:
ورودِ پورنیہ سے قبل یوں تو آپ نے جون پور،سدھور،سکلائی وغیرہ مختلف مقامات میں دعوت و ارشاد کا فریضہ انجام دیا،لیکن ان میں آپ نے کہیں خانقاہ قائم کی یا نہیں ، اس کا کوئی ذکر یا ثبوت نہیں ملتا۔البتہ جب پورنیہ تشریف لائے اورچمنی بازار کو ہمیشہ کے لیے شرف توطن بخشا تو یہاں باضابطہ ’’خانقاہ مصطفائیہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور عظیم پیمانے پرعلم و معرفت کی اشاعت اور رشد وہدایت کا سلسلہ قائم کرکے ایک دورِ زریں کا آغاز فرمایا۔
دعوت و ارشاد :
آپ نے رشد و ہدایت کے ذریعے بے شمار لوگوں کو راہ راست پر گامزن کیا اور اپنے علمی و اخلاقی فیضان سے مالا مال کیا۔ آپ کی صحبت و تربیت سے لائق مریدین اور باکمال خلفا پیدا ہوئے ، جنھوں نے آپ کی علمی و روحانی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے فرزندان اسلام کی ہدایت و رہبری اور مخلوق کی خدمت و راحت رسانی کا عظیم فریضہ ادا کیا۔
شعر و سخن:
آپ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ تخلص ’’ مہوشیؔ‘‘ تھا۔آپ کی مایۂ ناز تصنیف ’’مکتوبات جمالی‘‘ میں عربی و فارسی دونوںمیں جا بجا آپ کی شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ مکتوبات جمالی سے آپ کے چنداشعار حوالۂ قارئین ہیں:
نگاہ را فارغ از ہجر وصالت مہوشیؔ ہر دم
بصد جاں آرزو دارد زعشقت سوز پنہانی
—————
در منزل سر مہوشیؔ را
جز عشق تو میہماں نگنجد
—————
مہوشیؔ را یقین است کہ سر ہر
جز خیالت ازیں جہان نیرزد
—————
بر مہوشیؔ چہ باک ز یاجوج وطعن غیر
بنیاد عشق دوست چوں سدّ سکندر است
—————

فضائل و کمالات:
آپ اپنے عہد کے جیدعالم ، نامور فاضل اور عمدہ شاعر اور صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ ولی کامل، قطب وقت اور صاحب ولایت تھے۔مشاہیر صوفیہ اور باکمال مشائخ کے خلافت ونعمت یافتہ تھے۔ اساطین علم و ادب اور اربابِ تاریخ و تذکرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں آپ کے فضائل و مناقب کا ذکر کیا ہے۔
چناں چہ قطب العارفین مخدوم شاہ طیب بنارسی کے خلیفہ و جانشیں، شیخ یٰسین جھونسوی نے اپنی تصنیف’’ مناقب العارفین(حصہ اول) میں آپ کو’’ شیخ عصراور مرشد دہر‘‘ فرمایا ہے۔ شیخ وجیہ الدین اشرف نے’’ بحر زخار‘‘ میں آپ کو ان القاب سے یاد کیاہے’’آں کاشف اسرار تو حید، آں ثابت قدم توکل وتجرید، آں نو باوۂ بوستان سلاسل علی مرتضیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام، بے نظیر وقت حضرت بندگی مصطفی‘‘۔ اسی طرح مولانا عبد الحی رائے بریلوی نے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں تحریر کیا ہے: ’’ و کان فقیھازاہدامتوکلامتورعا‘‘۔ان کے علاوہ دیگر اصحابِ علم و معرفت نے بھی آپ کے اوصاف و کمالات کو اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے ۔
آپ کے اندر ورع و تقویٰ اورطہارت و پاکیزگی مثالی تھی۔شبہات سے بہت بچتے تھے۔ اپنے کمال تقویٰ ہی کی وجہ سے اپنے برادر نسبتی ملا شمس نور جون پوری جو اپنے عہد کے مشہور عالم وفقیہ اور منصب قضا پر فائز تھے، کے پاس ملکیت ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ سمات الاخیار ص:۳۷؍ میں آپ کے حالات میں مذکور ہے:
’’آپ میں زہد وتقویٰ بے حد تھا، احتیاط اس درجے کی تھی کہ ز مین داروں کے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے، حتی کہ اپنے حقیقی سالے مولانا شمس ابن نور کے یہاں کی کوئی چیز کھاتے نہ تھے کہ وہ ملکیت رکھتے تھے‘‘۔
آپ کے خلف وجانشیں شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری اور مرتب گنج ارشدی شیخ غلام رشید عثمانی جون پوری وغیرہ باکمال علما و مشائخ نے بھی آپ کے تقویٰ و طہارت کا ذکر اپنی تصنیفات وتالیفا ت میں کیا ہے۔ صاحب مکتوبات کے تفصیلی احوال و مناقب کی معلومات کے لیے خواہش مندحضرات راقم کی کتاب’’ بندگی شیخ مصطفی عثمانی: احوال و آثار‘‘ کا مطالعہ کر سکتے یںجو شاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن دہلی کے زیر اہتمام ستمبر ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔
تصانیف:
آپ جہاں عالم و فاضل تھے، وہیں ایک صاحب قلم بھی تھے ،آپ کے نقوش قلم میں ’’ مکتوبات جمالی‘‘ کا ذکر ملتا ہے، جو آپ کی مستقل تصنیف ہے۔اس میں آپ نے مکتوب الیہ کا ذکر کیے بغیر اسرار حقیقت اور رموز معرفت سے متعلق امورکو مکتوب کی شکل میں تحریر فرما یا ہےجس سےآپ کی فکری جولانیت،جودت طبع،علمی بصیرت ،قوتِ استدلال، وسعت مطالعہ اور ذوقِ تحقیق کا پتا چلتاہے۔آپ کے مجموعۂ مکتوبات کو پہلی بار شیخ محمد عبد العلیم آسی غازی پوری کے خلیفہ و جانشیں، شہود الحق حضرت سید شاہ شاہد علی سبزپوش فانیؔ گورکھپوری(نویں سجادہ نشیں: خانقاہ رشیدیہ جون پور) نے ’’ مکاتبات عارفین‘‘ معروف بہ’’ مکتوبات رشیدیہ ‘‘ کے اخیر میں ’’ مکتوبات جمالی‘‘ کے نام سے بطور ضمیمہ شامل کیا اور اپنے عہد سجادگی میں قمر پریس، بلیا سے طباعت کراکے شائع فرمایاہے۔
دینی و روحانی خدمات:
آپ نے دینی و علمی اور اخلاقی و روحانی اعتبار سے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے اور جس طرح آپ کے اسلاف نے عرب ، روم، بغداد اورہندوستان وغیرہ مختلف ممالک میں علم و عرفان کی شمع روشن فرماکر دعوت دین اور تبلیغ اسلام کا عظیم فریضہ نبھایا ہے ،اسی طرح آپ نے بھی ہندوستان کے مختلف مقامات میں تعلیم شریعت اور تلقین معرفت کی خدمت و اشاعت کا تاریخ ساز کارنامہ پیش کیا اورمقاماتِ اودھ میں سکلائی، سدھوراورامیٹھی،اس کے بعدشیراز ہند جون پور اور فخر بدخشاں سرزمین پورنیہ جیسے ملک کے عظیم خطوں کو اپنے شرف قدوم سے نوازا۔
آپ نے اپنے کارولایت اورمنصب قطبیت کو بطریق احسن انجام دیا اوراپنے علمی و روحانی فیوض سے مستفیض کرتے ہوئے سلوک و تصوف کی عظیم خدمت فرمائی۔ بندگان خدا کو اخلاق و تصوف کی تعلیمات سے آراستہ کیا، آپ کے ارشادات تعلیم انسانیت، حسن نیت، احترام مشائخ، رموزِ تصوف، حقائقِ معرفت، جذبۂ اخوت و ہمدردی، دعوتِ اصلاح و موعظت وغیرہ مضامین پر مشتمل ہوتے تھے ۔بے شمار لوگ آپ کے دامن ارادت میں آئے، ایک بڑی تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوکر سعادت دارین سے مالا مال ہوئی، علما وفضلا کا ایک بڑا طبقہ آپ کی صحبت کی برکت سے اعلیٰ مراتب پہ بھی فائز ہوا۔
اپنی حیات مستعار کا اخیر حصہ پورنیہ اور اس کے اطراف میں اشاعت دین اور تعلیم اخلاق کا پرچم لہرایا اوردعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے کر گم گشتگان راہ کو جادۂ مستقیم پر گامزن فرمایا۔ آپ کی ذات سے یہاںاسلام کی نشاۃثانیہ ہوئی اور اس کو علمی وقار اور تاریخی اعتبار حاصل ہوا۔ اپنی روحانی عظمت اور ہمہ جہات خدمات کی بدولت آپ بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا امتیاز مشرب و مسلک دیار پورنیہ کے مرجع و مآویٰ قرار پائے۔اس طرح اخیر دور میں آپ کی علمی و دعوتی آماج گاہ سرزمین پورنیہ قرار پائی اور اسی خطہ کو آپ کی آخری آرام گاہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔آستانۂ عالیہ پورنیہ سیٹی کے محلہ چمنی بازار میں واقع ہے جو ایک طویل مدت کے باوجود آج بھی آباد ہے اور دیار ِ پور نیہ میں بے حد مقبول اور مشہوربھی۔
وصالِ پاک:
آپ کا وصال پاک محلہ چمنی بازارمیں ۲۰؍ ذی الحجہ تقریباً ۱۰۳۸ھ میں صبح صادق کے وقت ہوا اور یہیں مدفون ہوئے۔مزار اقدس چمنی بازار ، پورنیہ ، بہار میں مرجع خلائق ہے۔
روضۂ مصطفائیہ کے دروازے پر سید مقبول حسین وصلؔ بلگرامی کے نظم کیے ہوئے اشعار پر مشتمل ایک کتبہ آویزاں ہے ،جس میں سر زمین پورنیہ کا شرف و تقدس،آستانۂ بندگی کی عظمت و رفعت، روضہ میں مدفون اصحاب مزار کا بیان،حضرت بندگی اوران کے خلف و جانشیں شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری کی قطبیت و ولایت کا والہانہ ذکر اور آستانہ مصطفائیہ کی برکات وغیرہ کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔چند اشعار اہل ذوق کی خدمت میں نذر ہیں:
اللہ اللہ! یہ پورنیہ اور یہ اس کا شرف
اس جگہ وہ آستانہ ہے، نہیں جس کا نظیر
ہے یہیں نظارۂ نورِ جمال مصطفی
زائروں کا ہاں یہیںرہتا ہے اک جم غفیر
بندگی حضرت جمال الحق جناب مصطفی
جون پوری شیخ عثمانی وہ پیر دستگیر
آپ ہی کے تو خَلَف ہیں افتخارِ جون پور
جن کا نور مصطفائی سے بنا سارا خمیر
قطب الاقطاب زمانہ کون شمس الحق رشید؟
ہادی دین، سالک راہِ خداوند قدیر
