وہ مجمع البحرین تھا

واصف رضاواصف مصباحی مدھوبنی بہار
سادگی کااستعارہ
اخلاص کی تمثیل
نظافت کی تشبیہ
نفاست کی تلمیح
اس کی قربت سے پھوٹنے والی خوشبو گل ناسفتہ کی بہارتھی
اس کی حکمت گویا صبح حیات کی نسیم تھی
اس کانگارخانہ ء شرافت جذبہ ء صادق کاامین تھا
وہ طبیعت وفطرت کادھنی لہجوں کامن موہک تھا
وہ صرف باتیں نہ کرتاتھا بلکہ دلوں کی تسخیرکےآداب سے آگاہ کرتاتھا
قیمتی باتیں
گوہر ومرجان کی مانند شفاف گفتگو
روح میں اترنے والی گفتگو
سمع خراشی سے پاک گفتگو
یوں کہ
کانوں کوحسن صوت سے حظ برملاملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کومزاملے
ساحرالبیانی میں نابغہ ء دہرتھا
وہ ہجوم کاقاٸل عمر بھررہاہی نہیں
وہ تنہاانجمن ،جلوت میں خلوت اور خلوت میں جلوت کاشیداٸی
ایک کہنہ اور شکستہ چارپاٸی پر اس کی سلطنت کی نیرنگ فضاتھی
وہ وہیں سے چلاتا تھاحکومت
اس کاایماواشارہ
حد اوسط ،صغری وکبری ،
تساوی و تباین سے
بہت دور محیط تھا
وہ آباد کرتاتھا شہرجاں
نوشاد کرتا تھا دل ملول
شاداب کرتاتھا ویران روح
وہ کشور کشاتھا
وہ اقلیم وفا کابےتاج بادشاہ
اس کی سادگی کبھی اس کی علمیت کو کمزور نہ کرسکی
کروفرسے دور، تمکنت سے گریز،
جاہ وحشمت کے حرص سے مجتنب
مگر رعب ایسا کہ جوکہہ دے صداقت پرمبنی
جو لکھ دے وہ گنجینہ ء اکرام ملت بیضا
اس کے خطوط شیرازہ بندیِ قوم کےلیے سرمایہ
اس کی نگارشات معنویت کی کان
اس نے ایک رنگ بکھیرا
تصوف کا رنگ ،روحانیت کا رنگ
تصفیہ ء نفس کا رنگ
تزکیہ ء قلب کا رنگ
وہ وجود کوسرشار رکھ کر انسان کو ابدی سعادتوں سے بہرہ ور کرناچاہتاتھا۔
وہ مجاز کو حقیقت میں ڈھال کرعشق کےاسالیب سے روشناس کرانے کا خوگرتھا
وہ قطرے میں قلزم اور قلزم میں بیکرانی کی تصویر اہل نظر کودکھاناچاہتاتھا
اس کی شخصیت کی نفاست نے اسے جاوید کردیا اس کے کمالات نے اسے نقش پاٸدار بنادیا۔
اس کی صلابت فکری نے اس کو صیت و شہرت کی خواہشوں سے آزاد کر دیا
وہ ارتحال کی وادی عبور کرنے کے باوجود
آج بھی پاس ہے
عقیدت مندوں کے
اردات کیشوں کے
وابستہ دلوں کے
شیفتہ جگروں کے
وہ رشیدی میخانےکےساقی تھے
سجادگی کا گیارہویں نمبر پرتھے
اور وقت کی انوکھی ترتیب دیکھیے
مسکراٸیے
رشک کیجیے
نازکیجیے
کہ گیارہ رمضان ہے
فضا عبادت آثار ہے
ماحول صیام و صلوٰةکاہے
اور وہ داعی اجل کولبیک کہتے ہیں
یہ مناسبت وترتیب ہمیں فکرکےروزن سے
ان کی پرنور طینت کےاقبال کی گواہی دیتی ہے
وہ مجمع البحرین لقب کاملقب ہی فقط نہ تھا
بلکہ وہ ظاہری احوال اور باطنی کاٸنات کی واقفیت کا مجمع البحرین تھا
وہ طریقت و شریعت کامجمع البحرین تھا
وہ ادبیت وعلمیت کامجمع البحرین تھا
اس کی یادوں کی کرنیں
ہمیشہ ہمیش ،لحظہ بہ لحظہ
آفاقیت کی طرف ماٸل رہیں گی
اور زندہ رکھیں گی ان کے کارنامے کو
ان کے نقوش علمی کو
ان کی تصانیف کے روشن اوراق کو
ان کے خیالات کے زوایے کو
ان کے آثار کی خوش رنگی کو
اور لوگ بیک آواز پکاریں گے۔
ایسا مشفق ،ایسا پیر خوش نما ملتانہیں
مجمع البحرین جیسا خوش ادا ملتانہیں