خبرنامہ

استنبول مذاکرات:روس کے سخت مطالبات، یوکرین کا دوٹوک انکار

تین سال سے جاری روس-یوکرین جنگ کیا اب اختتام کے قریب ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پہلی مرتبہ یوکرین اور روس کے نمائندے براہِ راست بات چیت کے لیے استنبول میں موجود ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ توقع کم ہے کہ ان بات چیت سے فوری طور پر کوئی فیصلہ کن حل نکلے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملاقات کی تجویز روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ مگر یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے شرط رکھی تھی کہ اگر پوتن خود مذاکرات میں شریک ہوں، تو وہ فوراً بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ تاہم پوتن نے اس دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے نمائندوں کو بھیجنے پر اکتفا کیا اور اسی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔
صورتحال کا رخ کچھ یوں ہے کہ سفارتی محاذ پر کوئی واضح سمت دکھائی نہیں دے رہی۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے جلد از جلد جنگ بندی کروانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مؤثر حل تلاش کرنے کی راہ میں گہری خلیج حائل ہے۔ یوکرین اور روس کی شرائط ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔روس کا مؤقف ہے کہ وہ جنوبی اور مشرقی یوکرین کے ان علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا جن پر وہ قابض ہے اور اس کے ساتھ ہی مزید یوکرینی علاقے بھی اس کے مطالبات میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ روس نے 2022 میں ڈونیٹسک، لوہانسک، زاپوریزیا اور خیرسون جیسے خطوں پر مکمل کنٹرول حاصل نہ ہونے کے باوجود ان کا الحاق کر لیا تھا۔ اس سے قبل 2014 میں روس نے کریمیا پر بھی قبضہ کر لیا تھا، جس پر آج تک اس کا کنٹرول ہے۔
پچھلے برس پوتن نے مذاکرات کے لیے شرط رکھی تھی کہ یوکرین کو ان علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہوں گی جہاں روسی فوج تعینات ہے۔ استنبول میں ہونے والی حالیہ بات چیت کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے پوتن کے ان مطالبات کو کسی ممکنہ سمجھوتے کی بنیاد قرار دیا۔ مگر یوکرین نے دو ٹوک کہا ہے کہ وہ کریمیا سمیت کسی بھی مقبوضہ علاقے کو روس کا حصہ تسلیم نہیں کرے گا۔اگرچہ زیلنسکی نے غیر رسمی طور پر اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ کسی امن معاہدے کے نتیجے میں روس کو کچھ علاقوں پر کنٹرول دیا جا سکتا ہے، تاہم اس کی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔
روس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ اس نے کئی مواقع پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ زیلنسکی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے۔ 2022 میں روس نے یوکرین پر حملہ کرتے وقت واضح طور پر کہا تھا کہ اس کا مقصد زیلنسکی کو حکومت سے بے دخل کرنا ہے اور روسی حکام نے یوکرینی جرنیلوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر کے ماسکو سے مذاکرات شروع کریں۔
مارچ میں پوتن نے تجویز دی تھی کہ یوکرین کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں عارضی انتظامیہ کے تحت لایا جائے، جس سے یہ اشارہ ملا کہ روس زیلنسکی کو ہٹانے کی اپنی پرانی خواہش پر قائم ہے۔ جنگ کے آغاز سے ہی روس کا مؤقف رہا ہے کہ یوکرین کو عسکری طور پر غیر مؤثر (ڈی ملٹرائز) کیا جائے اور وہاں سے مبینہ نازی نظریات کا خاتمہ کیا جائے۔ تاہم یوکرین، مغربی ممالک اور آزاد ماہرین روس کے ان دعووں کو یکسر مسترد کرتے آئے ہیں۔روس نے بارہا یہ بھی کہا ہے کہ یوکرینی فوج کی طاقت محدود کی جائے اور ملک کو غیر جانبدار ریاست قرار دیا جائے، ساتھ ہی مغربی ممالک کو یوکرین کو اسلحہ دینے سے روکا جائے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی گزشتہ کئی مہینوں سے روس کی دوبارہ جارحیت کو روکنے کے لیے سکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا جائے یا کم از کم نیٹو کے اجتماعی دفاع کے اصول (آرٹیکل 5) کے تحت تحفظ دیا جائے۔ تاہم ٹرمپ نے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی امکان کو مسترد کر دیا ہے، جبکہ روس واضح کر چکا ہے کہ وہ اس قدم کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرے گا۔اس وقت یوکرین کی حکومت مغربی ممالک سے ایسی دفاعی یقین دہانیاں مانگ رہی ہے جو ماسکو کو باز رکھ سکیں۔ برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں کچھ یورپی ممالک یوکرین میں سیزفائر کے بعد اپنی افواج کی تعیناتی پر غور کر رہے ہیں۔ کییف کو اب بھی امید ہے کہ امریکہ اس سلسلے میں یورپی اتحادیوں کا ساتھ دے گا، مگر روس نے صاف کہا ہے کہ وہ یوکرین میں کسی بھی شکل میں نیٹو افواج کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا۔
یوکرینی صدر فوری، مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی چاہتے ہیں۔ انہوں نے مارچ میں امریکہ کی اس تجویز کو قبول بھی کر لیا تھا، لیکن روس نے اسے مسترد کر دیا۔ البتہ روس نے دو موقعوں پر مختصر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جن میں ایک ایسٹر کے موقع پر اور دوسرا 9 مئی کو روس کے یومِ فتح کے موقع پر کیا گیا۔ استنبول مذاکرات کے حوالے سے پوتن نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ کسی قسم کے جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہو سکتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر