خبرنامہ

استنبول کے میئر کی گرفتاری، ترکی میں چوتھے روز بھی احتجاجی مظاہرے جاری

استنبول کے میئر اکرم امام اغلو کی گرفتاری کے خلاف ترکی میں چوتھے روز بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، جسے ایک دہائی میں سب سے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔

ترکی میں استنبول کے میئر اکرم امام اغلو کی گرفتاری کے بعد سے چار روز سے جاری احتجاجی مظاہروں کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ امام اغلو، جو صدر رجب طیب اردوغان کے اہم مخالف ہیں، کو بدھ کے روز حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے ممکنہ امیدوار تھے۔
سنیچر کو امام اغلو کو استنبول کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں پراسیکیوشن نے ان پر دہشت گردی اور بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی درخواست کی۔ امام اغلو نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ صدر اردوغان نے ایک تقریر میں مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے امام اغلو کی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) پر ’’بدامنی پھیلانے اور معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے‘‘ کا الزام لگایا۔
استنبول کے میئر آفس کے باہر مظاہرے شروع ہونے سے پہلے ہی پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ شام تک مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوا، جس کے بعد پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ حکومت کی جانب سے عوامی اجتماعات پر پابندی کے باوجود، مظاہرین نے ’’حقوق، قانون، انصاف‘‘ کے نعرے لگائے۔ کئی افراد کا کہنا تھا کہ امام اغلو کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
ایک نوجوان خاتون، جو سیاہ لباس میں ماسک پہنے مظاہرے میں شریک تھیں، نے کہا کہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ جمہوریت کے دفاع کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’ہم آزاد لوگ ہیں، اور ترک عوام اس طرح کے اقدامات کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘ایک اور خاتون، جو اپنے 11 سالہ بیٹے کے ساتھ مظاہرے میں شریک تھیں، نے کہا کہ وہ ترکی میں بڑھتی ہوئی مشکلات اور عدم انصاف سے پریشان ہیں۔
انقرہ اور ازمیر میں بھی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ جمعرات سے اب تک مظاہرین اور پولیس کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔ حکام کے مطابق، جمعے کی شب 343 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
امام اغلو کو صدر اردوغان کے سب سے بڑے سیاسی مخالفین میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی گرفتاری سے ایک روز قبل، استنبول یونیورسٹی نے مبینہ بے ضابطگیوں کے باعث ان کی ڈگری منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر یہ فیصلہ برقرار رہا، تو امام اغلو 2028 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہیں گے۔ امام اغلو نے اس اقدام کو “بے بنیاد اور غیر قانونی” قرار دیا ہے۔
صدر اردوغان، جو 2023 میں تیسری بار صدر منتخب ہوئے تھے، آئین کے مطابق 2028 کے بعد دوبارہ صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ تاہم، ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے دوبارہ انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں نے امام اغلو اور دیگر افراد کی گرفتاریوں کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے، جبکہ وزارت انصاف نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انصاف کے حصول کی آزادی ہے۔
ترکی میں اگلے صدارتی انتخابات 2028 میں ہونے والے ہیں، لیکن قبل از وقت انتخابات کا بھی امکان ہے۔ اس وقت، ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں، جو ترکی کی سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر