اسرائیلی کابینہ کی منظوری:غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی منتقلی کا متنازع منصوبہ

اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے غزہ پر قبضے، آبادی کی منتقلی اور حماس کے خلاف فوجی کارروائی کی توسیع کے متنازع منصوبے کی منظوری دے دی، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنی فوجی مہم کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سکیورٹی کابینہ نے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دی ہے جس میں غزہ کے مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے شہریوں کو جنوبی حصے کی طرف منتقل کرنے کا امکان شامل ہے۔ یہ اقدام انسانی بحران کو مزید بڑھا سکتا ہے۔اسرائیلی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس منصوبے کو “شاندار” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حکمت عملی حماس کو شکست دینے اور باقی یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار کرے گی۔ سکیورٹی کابینہ نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جب اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد مارچ کے وسط سے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے جا چکے ہیں۔
اس منصوبے کے تحت نجی کمپنیوں کے ذریعے انسانی امداد کی ترسیل کو بھی منظوری دی گئی ہے، جس کا مقصد اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے کردار کو محدود کرنا ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے اس اقدام کو انسانی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دے کر تعاون سے انکار کر دیا ہے۔حماس نے اس نئی پالیسی کو “سیاسی دباؤ” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہ سب عالمی ہمدردی حاصل کرنے اور اپنی جنگی کارروائی کو جائز قرار دینے کے لیے کر رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، فوجی منصوبے کے پہلے مرحلے میں غزہ کے مزید علاقوں پر قبضہ اور سرحدی علاقوں میں “بفر زون” کی توسیع شامل ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسرائیل کو مذاکرات میں برتری دلانا ہے، خاص طور پر ان یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے جو تاحال حماس کی قید میں ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر کے مطابق، فوج نے اپنے خصوصی دستوں کو اگلے مراحل کی تیاری کا حکم دے دیا ہے اور ہزاروں ریزرو فوجیوں کو بھی دوبارہ طلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم اپنے اہداف کے حصول کے لیے زمین اور زیر زمین حماس کے تمام نیٹ ورکس کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔”
ادھر اسرائیل کے اندر سے بھی اس منصوبے پر شدید تنقید سامنے آ رہی ہے۔ ریزرو فورسز کے ہزاروں اہلکاروں نے جنگ بندی کی حمایت میں خط پر دستخط کیے ہیں، جب کہ کئی سابق اعلیٰ عہدیداروں نے نتن یاہو پر ذاتی مفادات کو قومی سلامتی پر ترجیح دینے کا الزام لگایا ہے۔اس وقت اسرائیلی ریزرو فورسز کی حاضری میں نمایاں کمی آئی ہے اور رپورٹس کے مطابق صرف 50 سے 60 فیصد اہلکار ہی اب رپورٹ کر رہے ہیں۔ اس بغاوت نما رویے نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔
غزہ میں جاری شدید فوجی کارروائی کے باعث لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی جیسے پانی، خوراک اور ادویات کی شدید قلت رپورٹ ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی ادارے اسے ممکنہ “جنگی جرم” قرار دے رہے ہیں، تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک جنگ میں 52,500 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 2,400 سے زیادہ افراد مارچ کے بعد جاری کارروائی میں جان سے گئے۔ حالیہ دنوں میں مزید 40 افراد کی ہلاکت اور 125 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے ایک بڑے حملے کے بعد اسرائیل نے یہ فوجی مہم شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔