سیاسی بصیرت

اسرائیلی جارحیت اورہندوستان!

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

عالمی سطح پر اَمن و انصاف کے دعویدار طاقتور ممالک جب خود ظلم و جبر کے مرتکب ہوں، تو عالمی سطح پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں نے ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ کو میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔ فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی جارحیت اور اُس پر امریکا کی اندھی حمایت ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا کے انصاف پسند طبقے نے بارہا اپنے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔امریکا واسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو اَگر جارحیت کا نام دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر حملے، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کی تباہی، یہ سب معمول بن چکا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود اِسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکر مزاحمت یا سزا کاسامنا نہیں کرنا پڑتا، کیوں کہ اس کی پشت پر امریکا جیسی عالمی طاقت کھڑی ہے۔ امریکا، جو خود کو عالمی امن کا علمبردار ظاہر کرتا ہے، دراصل اسرائیل کے ہر ظلم کی حمایت میں پیش پیش رہتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں جب بھی اسرائیل کے خلاف کوئی قرار داد پیش کی جاتی ہے، تو امریکا یا تو اُس کی مخالفت کرتا ہے یا اُسے خرد برد کر دیتا ہے۔ آج دنیا میں امن و آشتی اور حقوق انسانی کے نام پر جہاں کہیں بھی اور جس قدر بھی غیر اِنسانی اور اخلاقی واقعات رونماہورہے ہیں اُن میں امریکا اور اسرائیل کانام سر فہرست نظر آتا ہے، اِس کی واضح مثالیں کیوبا، ویتنام، کمبوڈیا، سوویت، ایراق، لبیا، شام، طالبان وغیرہ کی تخریب کاریوں کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہیں، اِن تمام ممالک کی تباہ کاریوں کا اگر کوئی مجرم ہے تو صرف اَمریکا ہے۔اِس سے صاف ہو جاتا ہےکہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں، انصاف پر نہیں بلکہ ذاتی مفادات اور تخریب کاریوں پر مبنی ہیں۔
آج ایران پر جس طرح غیر دستوری طریقے سے امریکا نے ہلّہ بولا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔حالاں کہ ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے پردے امریکا نے اپنی دادا گیری کا رعب جمانے کی کوشش تو کی تھی مگر اِس بار وہ اپنے جال میں خود پھنس گیا ہے۔دوسری طرف ہندوستان، جو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے، وہ بھی امریکا واسرائیل کی جارحیت پر مسلسل خاموش ہے۔ موجودہ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات اور دفاعی معاہدات اِس خاموشی کی اصل وجہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ خاموشی صرف ایک سفارتی رویہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی پر ایک اخلاقی ناکامی بھی ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ مظلوموں کی حمایت اور سامراج کے خلاف جد وجہد کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ قبل آزادی اور بعد آزای ہندوستان کی سیاسی وسماجی رہنماؤں نے ظلم و جبرکے خلاف ہمیشہ موثر آواز بلند کی ہےاور محروموں کو اُن کے حقوق دلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں،مثلاً: آنجہانی گاندھی جی نے۱۹۳۸ء میں ہریجن نامی اخبار میں لکھا تھا کہ فلسطین عربوں کا ہے، جس طرح انگلستان انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ یہودیوں کو وہاں بزور طاقت وطن بنانے کا کوئی حق نہیں۔یہاں تک کہ ہولوکاسٹ جیسے مظالم کے باوجود اُنھیں فلسطین پر بزور حق جتانے کا کوئی اختیار نہیں۔اگر یہودی امن وانصاف کے ساتھ فلسطین میں رہنا چاہتے ہیں، تو یہ اُسی وقت ممکن ہے جب وہ عربوں کے ساتھ مصالحت سے رہیں۔گاندھی جی نے ہمیشہ ظلم کے خلاف پُرامن اور عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کی حمایت کی، چاہے وہ کسی بھی فریق سے ہو۔چناں چہ اُن کے مطابق نہ تو یہودیوں کو فلسطین میں طاقت کے بل پر آباد ہونا چاہیے، نہ ہی عربوں کو تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔یہی حال پنڈٹ نہرو کا تھاجونہ صرف عالمی انصاف اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے حامی تھے،بلکہ فطری طور پر فلسطینی عوام کے حقِ خودمختاری کے حمایتی بھی تھے۔ یہی سبب ہےکہ اُنھوںنے۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد بھی فوری طور پر اُسے تسلیم نہیں کیا۔ نہرو حکومت نے فلسطین کے مسئلے پر اعلانیہ عرب ممالک کے موقف کی حمایت کی۔ اُنھوں نے اسرائیل کو ایک نوآبادیاتی طاقت قرار دیا اور فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کر نے والا بتایا۔ علاوہ ازیں نہرو نے متعدد مواقع پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پربھی فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آوازیں بلند کیں۔اُسی طرح اٹل بہاری واجپئی نے بھی فلسطین کے مسئلے پر فلسطینی کاز کے لیے اصولی حمایت جاری رکھی، جیسا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا روایتی حصہ تھا، جب کہ اِس سے پہلے ۱۹۷۷ء میں بحیثیت وزیر خارجہ اُنھوں نے رام لیلا میدان میں اعلانیہ کہاتھا کہ عربوں کی زمین پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے، اُسے خالی کرنا ہوگااور جو فلسطینی ہیں، اُن کے مناسب حقوق کی بحالی ہونی چاہیے۔ اپنے اِسی موقف کا اظہار اُنھوں نے اقوام متحدہ میں بھی کیا تھاکہ فلسطینیوں کو اُن کی زمین پر واپس ہونے کا حق ملنا چاہیے اور غیر قانونی طور پر قابض علاقوں کو خالی کرایا جانا چاہیے۔اِس سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان غاصب و قابض ریاستوں کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ اس کے برعکس ہمیشہ اُمن اور عدل کا حمایتی ر ہا۔اِسی کے ساتھ ہندوستان کی طرف سے ’’دو ریاستی حل‘‘پربھی زور دیا گیا، تاکہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو خودمختاری حاصل رہے اور دونوں کا یکساں احترام کیا جائے۔
۲۰۰۳ میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا، جو کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اس موقع پر واجپئی نے اسرائیل کو ہندوستان کا ’’اہم پارٹنر‘‘ قرار دیا،لیکن اسرائیل کے ساتھ اِس قربت کے باوجود اُنھوں نے فلسطین کی خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ، یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں ووٹ دینے سے غفلت نہیں برتی۔نیز فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے ساتھ تعلقات قائم رکھے اور یاسر عرفات کے ساتھ بھی اپنا رشتہ برقرار رکھا۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو واجپئی ’’مشرق وسطیٰ میں ایک خوشگوار توازن قائم رکھنا چاہتے تھے کہ ایک طرف اسرائیل کے ساتھ دفاعی وبتکنیکی معاونت بھی جاری رہے،تو دوسری طرف فلسطینی عوام کے حقوق کی سفارتی و اخلاقی حمایت بھی برقرار رہے۔
لہٰذا ہندوستان جیسے بڑے اور با اثر ملک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی سیاست نہ کرے بلکہ انسانیت، انصاف اور عالمی امن کے حق میں آواز بلند کرے،جیساکہ ہندوستان کے سیاسی وسماجی رہنماؤں نے بلاخوف وخطر اِنسانیت کے تحفظ اور قیام امن وآشتی کے لیے عالمی سطح پر اپنی آواز بلندکی ہے اور اِسرائیل کواہم پارٹنر تسلیم کرنے کے باوجود اُس کے ظلم وجبر کو آئینہ دکھایا اور فلسطین کے مقابلے اُسے غاصب و قابـض قرار دیا۔
بالخصوص آج کے تشویشناک ماحول اور پُرآشوب حالات میں فلسطین کے ساتھ ایران کی حمایت میں بھی ہندوستان کو کھڑا ہو نا چاہیے،کیوں کہ ایران ہمیشہ ہندوستان کا ٹریڈیشنل فرینڈ رہا ہے۔جب بھی ہندوستان پر کوئی مصیبت آئی، تو اُس نے ساتھ دیا ہے۔ ایک بار جنیوا میں حقوق انسانی کے مسئلے پر ہندوستان گھر گیا تھا، جب نرسمہا راؤ نے اٹل بہاری واجپئی کو اَپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا، تو اُس وقت ایران ہی تھا جس نے ہندوستان کی حمایت کی اور اُسی حمایت کی بدولت ہندوستان جیت حاصل کرسکا۔ ہندوپاک جنگ میں بھی ایران کبھی ہندوستان کے خلاف نہیں رہا۔ آج وہ پریشانی میں ہے،جبراً اُس پر حملہ کیا گیا ہے، تو ایسے میں ہندوستان کو یقینی طور پر اِیران کی حمایت میں آگے آنا چاہیے اور اُسے ایک مثالی کردار پیش کرنا چاہیے،تاکہ امریکا واسرائیل کی جارحیت اور اُن کی دادا گیری کا خاتمہ ہوسکے،نیز مظلوموں کو اِنصاف اور ظالموں کو سزا مل سکے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں