کیا یہ ایکٹ اوقاف پر قانونی ڈاکہ زنی ہے؟

محمد حیدر رضا مصباحی
ریسرچ اسکالر، ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد، 5/ اپریل کو صدر جمہوریہ، دروپدی مرمو نے “وقف (ترمیمی) بل،، کو اپنی منظوری دے دی۔ اس طرح، یہ مسلم-مخالف بل اب قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ وقف املاک کے انتظام و انصرام میں وقف بورڈز کے ذمے داران سے بد عنوانیاں ہوئی ہیں اور لا پروائی و بے توجہی بھی برتی گئی ہے۔ اس لیے جواب دہی طے کرنے اور شفافیت لانے کے لیے اس میں کچھ ترمیم ضروری تھی (اور بارہا ایسا ہوتا ہے کہ اللہ عز و جل اپنے دین کا کام سخت ترین دشمنوں سے بھی لے لیا کرتا ہے)۔ اسی طرح زمانے کی برق رفتاری کے پیش نظر، ڈجیٹلائزیشن کی سمت اٹھنے والا قدم بھی غلط نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تاہم اس نئے قانون کا اصل مقصد بد عنوانی کا ازالہ ہے اور نہ ہی دستاویزات کو ڈجیٹل کر عوام کی سہولت۔ تو اخیر کیا ہے حکومت کا منشا؟ در اصل، گورنمنٹ اس کے ذریعہ مسلم دشمنی نکالنا چاہتی ہے اور وقف پراپرٹیز پر للچائی اور گندی نظریں جماے بیٹھی ہے۔ یہ اس لیے تاکہ اس دیش سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے نشانات جس حد تک ممکن ہو، مٹاے جا سکیں۔ مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر، اس مضمون کی تیاری کے لیے راقم نے نہ صرف وقف (ترمیمی) ایکٹ کا کئی بار مطالعہ کیا بلکہ آریجنل قانون یعنی وقف ایکٹ- ١٩٩٥ء پر بھی جستہ جستہ نظر دوڑائی۔ مضامین کی قراءت اس پر مستزاد۔ سج یہ ہے کہ اس مضمون کے لیے میں نے جتنی محنت کی، اس نوعیت کی تحریر کے لیے شاید ہی کبھی کی ہو۔ خیر، اب یہ ہیچ مداں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مودی حکومت کے مسلم- مخالف قوانین کی فہرست میں یہ ترمیم شدہ قانون شاید اب تک کا شدید ترین ایکٹ ہے۔ اس میں ویسے تو کئی مسلم-مخالف دفعات ہیں۔ لیکن کچھ تو انتہائی حد تک خطرناک ہیں۔ مثلا:
1– وقف بورڈز اور کاؤنسل میں غیر مسلموں کی شمولیت
وقف (ترمیمی) ایکٹ میں سینٹرل وقف کاؤنسل اور اسٹیٹ وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے۔ ملک میں اس وقت جو حالات ہیں، ظاہر ہے کس ذہنیت کے ممبران آئیں گے اور وقف کے تئیں وہ کتنے خیر خواہ ہوں گے۔ ایسے میں کاؤنسل اور بورڈز میں مسلمانوں کے علاوہ کو شامل کرنا بہت بڑا سوال کھڑا کرتا ہے۔ یہ اسلام کے اصول و ضوابط سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی آئین کی روح سے۔ ایسا کرنا دستور ہند کے آرٹیکل 26/ کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کی رو سے ہر طبقے کو اپنے مذہبی اداروں کے انتظام و انصرام کا حق حاصل ہے۔
2– وقف کر سکنے کے لیے پریکٹسنگ مسلم ہونے کی شرط
نئے قانون کی رو سے اب وہی شخص وقف کر سکتا ہے جو کم از کم پانچ سالوں سے ‘پریکٹسنگ’ (با عمل) مسلم ہو۔ اس پر پہلا سوال تو یہ ہے: کیسے طے ہوگا کہ کون پریکٹسنگ مسلمان ہے اور کون نہیں؟ کیا دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ پنج وقتہ نمازی اور داڑھی والے کو ہی باعمل مسلم مانا جاے گا (جیسا کہ ظاہر ہے)؟ اگر ایسا ہے بھی تو اس کا فیصلہ کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ کیا اس سلسلے میں واقف کی بات مان لی جاے گی یا اسے اس پر گواہ بھی پیش کرنا ہوگا؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب شریعت مطہرہ نے وقف میں یہ شرط نہیں رکھی تو حکومت کو یہ اختیار کس نے دے دیا؟ در اصل، اس شگوفے کا بس ایک ہی مقصد ہے: مسلمانوں کی کم سے کم تعداد وقف کر پاے۔ اور ہندو و دیگر غیر مسلمین کو وقف کرنے کا بالکل ہی اختیار نہ رہے۔ یہ شہریوں کے حق استعمال کو سلب کرنا ہے۔ ہر آدمی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے اور جہاں چاہے، اپنا مال خرچ کرے۔ مگر یہ حکومت غیر مسلموں کو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد میں خرچ کرنے سے روکنا چاہتی ہے۔ اس لیے یہ شق بڑھائی گئی ہے۔
3– وقف علی الاولاد اور شریعت میں مداخلت
اگر کوئی انسان اپنی اولاد پر وقف کرنا چاہتا ہے تو اسلام میں اس کی پوری اجازت ہے۔ نئے وقف قانون میں اس کی گنجائش تو ہے۔ تاہم، یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی واقف اسی وقت وقف علی الاولاد کرنے کا مجاز ہوگا جب اس نے اپنے وارثین خصوصا خواتین، بیوہ اور مطلقہ (اگر کوئی ہو) کو وراثت سے ان کا حصہ دے دیا ہو۔ اسلامی قانون کی رو سے وقف علی الاولاد کرتے وقت ایسا کرنا ضروری نہیں۔ اور ہو بھی کیسے؛ کہ وراثت کے قوانین کسی بھی انسان کی موت کے بعد جاری ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں نہیں۔ اور رہی بات مطلقہ کی تو عدت کے بعد شوہر سابق پر کچھ بھی لازم نہیں رہ جاتا۔ اس لیے مساوات اور انصاف کا ڈھکوسلہ کرنا اور جبرا خواتین کو ‘ان کا حصہ’ دلانے کا دل فریب نعرہ دینا شریعت اسلامیہ میں بے جا مداخلت کی ناروا کوشش ہے، اور کچھ نہیں۔
4– تنازعہ کی صورت میں وقف بورڈ کی لا چاری
اگر کسی جائیداد کے متعلق تنازعہ ہو جاتا تو پہلے یہ ہوتا تھا کہ وقف ٹریبونل (اوقاف سے متعلق جھگڑوں کے حل کے لیے قائم کی گئی ایک طرح کی عائلی عدالت) میں اس کا مقدمہ چلتا، اور پھر اس کا جو فیصلہ آتا، فریقین تسلیم کرتے۔ لیکن ترمیم کے بعد اب یہ ہو گا کہ اگر کسی پراپرٹی کے بارے میں جھگڑا ہو تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ضلع کلیکٹر سے اوپر درجے کا ایک افسر جائیداد کا سروے کرے گا اور اس کی تفتیش کر اسٹیٹ گورنمنٹ کو رپورٹ سونپے گا کہ آیا وہ وقف کی زمین ہے یا گورنمنٹ کی۔ رپورٹ آنے تک وقف بورڈ پر لازم ہوگا کہ اس پراپرٹی کو اوقاف میں شمار نہ کرے۔ اگر وہ افسر حکومت کے حق میں اپنی راے دیتا ہے تو ریاستی حکومت بورڈ کو آرڈر دے گی کہ اپنے اندراجات میں فوراً ترمیم کرے اور اس جائیداد کو وقف املاک کی لسٹ سے خارج کرے۔
آج بھارت میں جس طرح سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت مٹانے اور ان کے املاک کو ہڑپنے کی ناروا کوششیں جاری ہیں، عین ممکن ہے کہ کسی بھی وقف کو متنازعہ پراپرٹی قرار دے دیا جاے۔ اور حالات کے پیش نظر کوئی بھی افسر گورنمنٹ کے خلاف جانے کی ہمت شاید ہی کر پاے۔ ایسے میں اس طرح کی ساری جائیدادیں یکے بعد دیگرے سرکار کی جھولی میں گرتی چلی جائیں گی۔
5- اوقاف، لمی ٹیشن ایکٹ-1963ء کے دائرۂ اثر میں
١٩٦٣ء میں بھارتی حکومت نے ایک قانون پاس کیا تھا جو “لمیٹیشن ایکٹ” (حد بندی قانون) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اگر کسی جائیداد غیر منقولہ کے بارے میں تنازعہ ہوتا ہے اور کسی کو لگتا ہے کہ اس کا حق مارا جا رہا تو ایک مقررہ میعاد کے اندر تک ہی اس کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے، اس کے بعد نہیں۔ اور وہ مدت 12/ برس ہے۔ پرانے وقف قانون میں دفع 107/ میں یہ کہا گیا تھا کہ وقف پراپرٹیز لمیٹیشن ایکٹ سے باہر رہیں گے۔ یعنی اگر بارہ برس کی مذکورہ میعاد گزر جاے، پھر بھی بورڈ اپنے مقبوضہ املاک کو غیر قانونی قبضوں سے چھڑا سکتا تھا۔ مگر، نئے قانون میں اس استثنا کو ختم کر وقف کو بھی حد بندی قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص/ جماعت کسی وقف پراپرٹی پر بارہ سالوں سے زیادہ سے ناروا قبضہ کر بیٹھا ہے تو وہ زمین بورڈ کی ملکیت سے نکل جاے گی اور قابض اس پر اپنا دعویٰ ٹھونک سکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ وقف بورڈز کی لا پروائی اور بے توجہی کے سبب سینکڑوں املاک پر دوسروں کا ناجائز قبضہ ہے۔ اور ان میں بہت سے دہائیوں سے قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ اب ایسے تمام لوگ ان اوقاف کے مالک بننے کے اہل ہو جائیں گے۔
6– مقبوضہ اوقاف پر بورڈ کا مالکانہ حق ختم
وقف ایکٹ 1995ء کے سیکشن 40 کو اس ترمیمی قانون سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وقف املاک پر کسی فرد یا جماعت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے تو اب وقف بورڈ اس پر دعویٰ نہیں کر سکے گا۔ در اصل، ملک بھر میں ایسی متعدد مثالیں ہیں کہ اوقاف پر اغیار نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ جیسے تامل ناڈو میں ترو چین تھری (Thiruchenthurai) گاؤں، بہار میں گووند پور گاؤں، کرناٹک میں وجے پورہ وغیرہ گاؤں (یہ سب ہندو آبادیاں ہیں)۔ اسی طرح کیرل کے ارناکولم ضلع میں 600/ عیسائی گھروں نے اوقاف پر اپنے گھر بنا رکھے ہیں۔ اور تو اور گجرات میں سورت میونسپل کارپوریشن کا ہیڈ کوارٹر وقف کی زمین پر قائم ہے۔ راقم نے یہ نام مودی حکومت کے سرکاری دستاویزات سے لیے ہیں۔ ان مثالوں سے گورنمنٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یہ بستیاں آباد ہیں اور وہاں لوگ برسوں سے بسے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ان جائیداد کے مالک ہیں۔ اب اگر الگ الگ وقف بورڈز ان املاک پر دعویٰ کر رہے ہیں تو غلط ہے۔ اس لیے گورنمنٹ کا ماننا ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے غیر منطقی دعوے کے امکان کو خارج کرنے کے لیے دفعہ 40/ کو ہٹانا ضروری تھا۔
تعجب ہے، یہ بات اسی دستاویز میں کہی جا رہی جس میں یہ مذکور ہے کہ اگر کوئی جائیداد مسلمانوں کے اجتماعی استعمال میں ہو تو نئے قانون کے نفاذ کے بعد، محض استعمال میں ہونے سے اسے وقف نہیں مانا جاے گا۔ واہ رے دوغلاپن، اگر کوئی زمین اغیار کے استعمال میں ہو (ناجائز ہی سہی) تو اسے ان کا مان لیا جاے گا اور اس پر بورڈ کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جاے گا۔ لیکن اگر وہیں ایک جائیداد مسلمانوں کے اجتماعی استعمال میں ہو تو اس کے سبب اسے وقف نہیں مانا جاے گا، بلکہ کاغذ دکھانا پڑے گا۔
7– وقف بائی یوزر، اہمیت اور اس کا انجام
اس نئے قانون کے بعد آپ نے ایک ترکیب خوب سنی اور پڑھی ہوگی ‘وقف بائی یوزر’۔ اس کا مطلب ہے: اگر کوئی پراپرٹی مسلمانوں کے اجتماعی استعمال میں ہے اور وقف بورڈ اسے اپنی ملکیت کہتا بھی ہے تو محض استعمال میں ہونے سے ہی اسے وقف مانا جاے گا (کسی کاغذ کی ضرورت نہیں). پہلے اسی پر عمل تھا۔ یعنی 1995ء کے آریجنل قانون میں وقف بائی یوزر کے اصول کو درست مانا گیا تھا۔ اور یہ شریعت مطہرہ کے مطابق تھا۔ مگر نئے ترمیمی قانون کے اصل ڈرافٹ میں اسے ہٹا دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ڈرافٹ پارلیمنٹ کے اندر اگست 2024ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اور یہ اس قانون کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو تھا اور بہت حد تک اب بھی ہے۔
بھارت میں وقف کی لمبی تاریخ ہے۔ مسلم حکمرانوں کے دور سے ہی وقف کرنے کا رواج چلا آ رہا ہے۔ سلاطین، نوابین اور عامہ مسلمین راہ خدا میں وقف کیا کرتے تھے۔ اور اس وقت کاغذات/ وقف ناموں کا موجودہ نظام تو تھا نہیں۔ جسے اپنی پراپرٹی راہ خدا میں دینا ہوتا تھا، وہ منہ سے بول کر کر دیتا۔ اور وہ چیز وقف املاک میں آ کر مسلمانوں کے اجتماعی استعمال میں آ جاتی۔ اس طرح یہ تعامل سال دو سال، دہائی دو دہائی یا سو دو سو سال پر ہی محیط نہیں، بلکہ اس کا سلسلہ کئی سو سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ ملک بھر میں جو تاریخی/ شاہی مسجدیں، مزارات، قدیم قبرستان یا پرانے مدرسے ہیں، ان میں بہتوں کی حیثیت ایسی ہی ہے کہ ان کے پاس کوئی کاغذ یا وقف نامہ نہیں ہے۔ اس لیے وقف بائی یوزر کو درست مانا گیا۔ اب اس شق کو ہٹانے کا سیدھا مطلب تھا کہ اس طرح کے املاک وقف نہیں، بلکہ بھارت سرکار کی جائیدادیں ہیں۔ سوچیے، اگر یہ بات پاس شدہ قانون میں جوں کی توں رہ جاتی یعنی وقف بائی یوزر کو ہٹا دیا جاتا تو بہت سی تاریخی مسجدوں، مزارات اور قبرستانوں کا کیا حال ہوتا؟ قانون کے نفاذ کے دوسرے دن ہی، بلڈوزر پہنچ کر، اپنا کام کر آتے۔
بھلا ہو کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اسے بر وقت بھانپ لیا۔ چناں چہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ہنگامہ کر جے پی سی (جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی) یعنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اسے پیش کرنے کی مانگ کی تھی۔ حکومت نے گھٹنے ٹیکے اور کمیٹی تشکیل دی۔ جے پی سی میٹنگز میں اپوزیشن نے بہت سی باتیں رکھیں۔ ان میں یہ بھی تھا کہ وقف بائی یوزر کو پھر سے بحال کیا جاے۔ گورنمنٹ نے ان کی اکثر سفارشات کو تو نظر انداز کر دیا۔ تاہم، یہ بات سنی اور وقف بائی یوزر کو بحال کر دیا۔ مگر پھر بھی یہ کہہ کر ایک پینچ پھنسا دیا گیا ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے پہلے تک جو جائیدادیں وقف بورڈز میں رجسٹرڈ ہیں، ان کے حق میں وقف بائی یوزر کے اصول کو تو مانا جاے گا (نفاذ کے بعد وقف کے لیے، یہ اصول کارگر نہیں رہے کا)؛ تاہم کسی تاریخی مسجد/ مزار/ قبرستان کے سلسلے میں اگر پہلے سے تنازعہ ہے یا حکومت کا دعویٰ ہے تو وہاں وقف بائی یوزر کو دلیل نہیں مانا جاے گا۔ اور اس کا اثر کتنا زیادہ ہوگا، اس کا کچھ اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، آج کی تاریخ میں، پورے بھارت میں قریب قریب آٹھ لاکھ بہتر ہزار وقف پراپرٹیز ہیں۔ اور ان میں تقریباً چار لاکھ دو ہزار وقف بائی یوزر کے خانے میں آتے ہیں۔
یہ ایک چور دروازہ ہے جس کا مقصد ہے ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف دنگے بھڑکانا۔ ہماری متعدد مسجدیں (مثلا وارانسی کی گیان واپی مسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ وغیرہ) عرصے سے سنگھ کے نشانے پر ہیں۔ ایک تو پہلے سے ہی ہندو تنظیموں کی کوشش ہے کہ تحفظ عبادت گاہ قانون- 1991ء کو ختم کیا جاے یا کم سے کم اس میں ترمیم کی جاے (راقم اس قانون پر لکھ چکا ہے). اور اب اس نئے وقف (ترمیمی) قانون کی آڑ میں نہ صرف ان پرانے قضیوں کو زور و شور سے اٹھایا جاے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ آے دن نئے نئے قضیے پیدا کر ملک کی پہلے سے زہر آلود فضا کو اتنا مکدر کر دیا جاے کہ مسلمانوں کے لیے سانس لینا دو بھر ہو جاے گا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس کی شروعات ہو بھی چکی ہے۔ کل ہی ٥/ اپریل کو یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی کے سبھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو آرڈر دیا ہے کہ ریاست میں ‘غیر قانونی’ وقف پراپرٹیز (جو رجسٹرڈ نہیں ہیں) کی نشان دہی کر انہیں ضبط کیا جاے۔
ان سب کے باوجود ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ اس (ترمیمی) قانون کے ذریعے نریندر مودی نے جہاں اسلام و مسلم دشمنی کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا ہے، وہیں امبانی دوستی کی مثال قائم کر دی ہے۔ در اصل، ملک کے سب سے بڑے دولت مند شخص یعنی مکیش امبانی کا 27/ منزلہ محل جہاں کھڑا ہے، وہ وقف کی زمین ہے۔ 2002ء میں انھوں نے ذمے داران سے اونے پونے بھاؤ میں اسے خرید لیا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی چل رہا ہے (حالاں کہ 2016ء میں کورٹ نے ایک رولنگ میں یہ کہا تھا کہ سودا قانونی طور پر صحیح تھا۔ تاہم، ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے). تھوڑی دیر کے لیے سوچیے، اگر مکیش کے خلاف فیصلہ آ جاتا اور ان کے “انٹیلیہ” نامی محل کو زمیں دوز کرنے کا حکم صادر کر دیا جاتا تو دنیا نہ صرف ان کے پیسوں پر لعنت بھیجتی، بلکہ مودی سے ان کی قرابت کی بھی تھو تھو ہوتی۔ مگر اب کچھ نہیں ہوگا۔ تنازعہ والی پراپرٹی ہونے کے سبب، حکومت کا ایک عہدے دار زمین کا سروے کر، یہ لکھ کر رپورٹ بھیج دے گا کہ سودا درست تھا۔ اس لیے اس کے مالک امبانی ہیں۔
پرانے زمانے سے ہی عرف عام میں رات اور خاص کر دیر شب کسی نہ کسی طرح چوری، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار سے منسوب رہی ہے۔ اور آج کے ترقی یافتہ عہد میں بھی بے چاری رات کی حیثیت میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہو سکی۔ وہ اب تک اس تاریکی سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکی ہے۔ دوسری طرف، سنجیدہ اکیڈمک ایشوز کے حل کے لیے اسکالرز کی کانفرنسز ہوں یا عالمی مسائل کے حل کی کوشش میں لیڈرز کی سیاسی ملاقاتیں، سب عموماً دن میں منعقد ہوتی ہیں۔ یعنی معاملات دن کی روشنی میں حل پذیر ہوتے ہیں، رات کے اندھیرے میں نہیں۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ وقف (ترمیمی) بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے علی الترتیب 3/ اور 4/ اپریل کو دیر شب تقریباً ایک بجے پاس ہوا تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک طرح کا اشارہ ہو کہ حکومت نے اس بل کو پاس کر کیسے کالے کرتوت انجام دیے ہیں۔