دارالعلوم طیبیہ معینیہ بنارس میں تربیتی سلسلہ براۓ فکر و قلم کا آغاز

دارالعلوم طیبیہ معینیہ میں آسی فاؤنڈیشن کے تحت 15 مئی کو قلمی و فکری تربیت کا آغاز ہوا، جہاں علما و اساتذہ نے مطالعہ، تحریر اور فکری بیداری کی اہمیت پر زور دیا۔

بنارس(نشاط اختر رومی مصباحی) ۔11ویں صدی ہجری کے عظیم عالم و بزرگ قطب بنارس حضرت مخدوم شاہ طیب بن معین الدین فاروقی بنارسی قدس سرہ العزیز کی خانقاہ عالم پناہ کے احاطے میں سن 1990 میں حضرت مجمع البحرین الشاہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ( گیارہویں سجادہ نشین خانقاہ رشیدیہ جون پور شریف) نے دارالعلوم طیبیہ معینیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ اپنے روز قیام ہی سے طالبان علوم اسلامیہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے گراں قدر ثابت ہوا ہے۔ مدرسہ و خانقاہ کے حسین امتزاج کی وجہ سے طلبہ کی بہترین تعلیم کے ساتھ ان کی صالح تربیت کا باقاعدہ نظام اس ادارے کو خاص بناتا ہے۔ اب تک فارغین کی ایک بڑی تعداد یہاں سے تعلیم حاصل کرکے ملک کے مختلف اطراف و اکناف میں دین و ملت کی خدمات انجام دینے میں مصروف ہے۔ اس وقت تقریباً دوسو طلبہ زیور علم و فن سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
امسال دار العلوم طیبیہ معینیہ کے اساتذہ اور آسی فاؤنڈیشن کے نگراں کے باہمی مشورے سے طلبہ کی قلمی و تحریری تربیت کے لیے”شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن”( جو خانقاہ رشیدیہ کا ایک علمی و تحقیقی اور اشاعتی ادارہ ہے)کے زیر اہتمام ایک تربیتی سلسلے کا آغاز کیا گیا تاکہ طلبہ کے مابین علمی، ادبی ماحول کو پروان چڑھایا جاسکے اور ان کے اندر مطالعہ کتب کا ذوق اور قرطاس و قلم کا شوق بیدار کیا جاسکے۔

15 مئی 2025 بروز جمعرات، صبح ساڑھے دس بجے” مجمع البحرین لائبریری” کے وسیع و عریض ہال میں اس سلسلے کا افتتاحی پروگرام منعقد ہوا۔ پروگرام کی ابتدا تلاوت کلام ربانی سے شعبہ قرأت خصوصی کے طالب علم محمد رضا نے کی۔ پھر درجہ رابعہ کے طالب علم محمد ساجد رضا نے نعت پاک کے اشعار سے مجلس کو نغمہ زار کیا۔ اس کے بعد تمہیدی کلمات پیش کرنے کے لیے مولانا ابرار رضا مصباحی(آسی فاؤنڈیشن) روبرو ہوۓ۔ انہوں نے اپنے بیان میں قلم کی اہمیت و افادیت پر بھر پور روشنی ڈالی اور طلبہ کے جذبہ و لگن کو مہمیز کیا۔ پھر ادیب شہیر حضرت علامہ عارف اللّٰہ فیضی مصباحی صاحب قبلہ (شیخ الحدیث دارالعلوم طیبیہ معینیہ) کاخصوصی خطاب ہوا۔ حضرت فیضی صاحب نے قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں علم اور حصول علم کے لیے جادہ پیمائی پر خوبصورت اور دلنشین اسلوب میں بہت معلوماتی گفتگو فرمائی۔ الفاظ و معانی کی شوکت، سلاست و روانی کی چاشنی، آیات و احادیث کی دقیقہ سنجی کے عناصر نے پورے خطاب میں رنگ بھر دیے۔ ان کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ علم سے ہی فضیلت و برتری حاصل ہوتی ہے۔ اور حصول علم کے لیے مطالعہ کتب ناگزیر ہے۔ پھر حاصل کردہ علم کی اشاعت کے لیے قلم کی اہمیت و افادیت مسلم ہے۔ اور قرطاس و قلم میں زود افزونی کے لیے بھی مطالعہ و ممارست سنگ میل سے کم نہیں۔ دنیا میں تخلیق (Creation) کے جتنے شعبے ہیں، سب میں انسانی ذہن کی نادرہ کاری کے کرشمے بکھرے پڑے ہیں۔ جب تک فکر و خیال میں وسعت و ندرت کا عنصر نہیں پیدا ہوگا ایک شاندار نثر یا نظم بھی معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ اور فکر و خیال میں بلندی کا شجر تبھی نمویاب ہوگا جب مطالعہ کی عادت بن جاۓ گی۔ اخیر میں ادارے کے مؤقر استاذ حضرت مفتی سید فاروق مصباحی صاحب قبلہ نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے سپید و سیاہ میں آج انہیں لوگوں کا قبضہ ہے جن کے ہاتھوں میں قلم ہے۔ اس لیے آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ اسلام مخالف طاقتیں برسر پیکار ہیں، ہمیں ہر طور پر دفاعی اور تبلیغی پوزیشن سنبھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور حقانیت و صداقت کو واشگاف کرنے کے لیے اپنی فکر و قلمی استعداد کو پروان چڑھانا چاہیے۔ جب ہاتھ میں قلم آجاۓ تو ہمیشہ سچ لکھنے کو لازم پکڑیے۔ تعلیم و تربیت کی یہ خوشگوار مجلس حضرت سید صاحب قبلہ کے بیان اور دعا پر ختم ہوئی۔ اور کثیر طلبہ نے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تربیتی بزم میں شرکت کے لیے اپنے اسما درج کراۓ۔ اس موقع پر دارالعلوم طیبیہ معینیہ کے پرنسپل مولانا عبدالسلام رشیدی کی دعائیں اور محبتیں شامل کار رہیں۔ اور اساتذہ میں مولانا سبیل رضا مصباحی، مفتی حسنین رضا مصباحی، مولانا شہروز عالم مصباحی، مفتی سید عمران مصباحی، مولانا ارسلان احمد مصباحی، مولانا قاری ظفر العلی نعیمی، حافظ مجیب الرحمٰن برکاتی، حافط شہنواز طیبی، ماسٹر مظہر طیبی، ماسٹر سنتوش کمار اور نشاط اختر رومی مصباحی مجلس کی رونق بنے رہے۔