غزہ میں طبی کارکنوں پر اندھا دھند فائرنگ

غزہ میں طبی عملے پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا انکشاف، سو سے زائد گولیاں انتہائی قریب سے چلائی گئیں۔
23 مارچ کو غزہ کی پٹی میں پیش آنے والے دلخراش واقعے میں 15 طبی اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ اس سانحے کی حقیقت جاننے کے لیے ایک موبائل فون سے بنی 19 منٹ کی ویڈیو کا ماہرین کے ساتھ مل کر تجزیہ کیا گیا، جس سے کئی اہم نکات سامنے آئے۔ویڈیو تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی افواج نے اس قافلے پر سو سے زائد گولیاں برسائیں، جن میں سے بعض بہت ہی قریب، محض بارہ میٹر کے فاصلے سے چلائی گئیں۔ یہ حقیقت فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے دعوے کو تقویت دیتی ہے، جس کا کہنا ہے کہ طبی رضاکاروں کو انتہائی قریب سے نشانہ بنایا گیا۔
اس کے برعکس، اسرائیلی فوج کا ابتدائی مؤقف یہ تھا کہ فائرنگ دور سے کی گئی اور ان کے مطابق ہلاک شدگان میں چھ افراد کا تعلق حماس سے تھا۔ تاہم، اس دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا ۔
ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ قافلہ ایمرجنسی لائٹس کے ساتھ رات کے اندھیرے میں سفر کر رہا تھااور عملے کے کم از کم ایک فرد نے چمکدار حفاظتی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس ویڈیو کا ماخذ وہ موبائل فون ہے جو ایک ہلاک ہونے والے رضاکار، رفعت رضوان، کے قبضے میں تھا۔آڈیو اور ویژوئل ماہرین، جن میں مونٹانا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور ایف بی آئی کے سابق کنسلٹنٹ شامل ہیں، نے فائرنگ کے فاصلے کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ گولیاں ابتدا میں 40-43 میٹر کے فاصلے سے اور بعد میں محض 12 میٹر کے فاصلے سے چلائی گئیں۔ ان کے مطابق شاک ویوز اور گولیوں کی آوازوں سے واضح ہوتا ہے کہ فائرنگ براہِ راست موبائل کی سمت کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ریکارڈنگ کے آخر میں عبرانی زبان میں کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں، جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجی قریب موجود تھے اور احکامات دے رہے تھے۔ آوازوں کے تجزیے سے یہ بھی پتا چلا کہ ایک ہی وقت میں متعدد ہتھیاروں سے فائرنگ ہو رہی تھی، جن میں سے کچھ آٹومیٹک ہتھیار بھی ہو سکتے ہیں۔سابق برطانوی فوجی افسر کے مطابق، 50 میٹر کے فاصلے سے کسی قافلے کی شناخت ممکن ہےاور اگر یہ طبی عملہ تھا تو اسے نشانہ بنانا کسی طور قابلِ جواز نہیں۔ اسرائیلی فوج نے بعد میں اپنا ابتدائی بیان واپس لیا اور اعتراف کیا کہ قافلہ مشکوک طریقے سے نہیں بلکہ واضح شناخت کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔