بھارتی مسلمان

محمد نذرالباری جامعی پورنوی
حالات حاضرہ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے والا ہر فرد اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ عہد رواں میں وطن عزیز کا مسلم فرد ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور مسلم کمیونٹی داخلی و خارجی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ بلکہ اسے عالمی سطح پر انتشار و افتراق سے دوچار کہا جائے تو بھی صد فیصد درست ہے ۔
آج مسلمانان عالم جہاں خارجی مخالف عسکری قوت سے نبردآزما ہیں وہیں تعلیمات اسلام پر عمل پیرا ہونے پر جابجا مضبوط باندھ سے دو دو ہاتھ کرنے پر مجبور ہے ۔ یہی کیا کم تھا کہ ہمارے وجود مسعود سے ان مخالف طاقتوں کو بے انتہا نفرت ہے کہ اس پر مزید اسلام کے بنیادی مسائل پر عمل درآمدگی سے باز رکھ کر ہماری ایمانی غیرت و حمیت کو للکارا جارہا ہے ۔ ایک جمہوری نظام میں بود و باش اختیار کرنے اور پسندیدہ مذہب کے مطابق حیات مستعار گزارنے پر رکاوٹیں کھڑی کرنا اس کی جمہوریت پر شب خون مارنے اور اس پر سوالیہ نشان لگنے مترادف ہے ۔ ایسی نازک صورت حال میں جب کہ مسلمان ہر شش جہات سے مخالفین کے نرغے میں محصور نظر آتا ہے، پریشانی اور بے چارگی مزید نظر آتی ہے کہ ایک مسلمان جن مسائل پر خود مختار ہے جہاں اس پر عمل کرنے کی اسے مکمل آزادی حاصل ہے ان مسائل میں بھی وہ غیر اسلامی روش اختیار کیا ہوا ہے۔ چاہے ان مسائل کا تعلق بنیادی عقائد و احکام سے ہوں یا فروعی اور معاشرتی معاملات سے ۔ آج ہماری دینی حرارت میں اس وقت ضرور جوش پیدا ہوجاتا ہے جب کوئی ہمیں ان سے روکے اور باز رکھنے کی کوشش کرے ۔ اگر مخالفین کے ذریعے کسی دینی بھائی کی جان کو خطرات درپیش آ جائے تو ہم سب اس کی حفاظت و نصرت کے لیے بیک آواز کھڑے نظر آتے ہیں جو یقیناً محمود اور قابل ستائش ہے۔ مگر جب یہی صورت حال ہمارے ہی کسی فرد ، معاشرہ اور تنظیم سے صادر ہو تو یہ ہم تشتت پسند اور ٹولیوں میں بٹتے نظر آتے ہیں ۔ کیا اس وقت ہماری دینی حرارت سرد پڑجانی چاہیے ؟ ہماری اسلامی غیرت و حمیت کو محو خواب رہنا چاہیے ؟ کیا اس وقت ہمیں اجتماعیت کے ساتھ اس کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے ؟ کیا ہمیں وہی طریقہ اور منہج اختیار نہیں کرنا چاہیے جو کسی غیر سے صادر ہوتے وقت ہم کرتے ہیں ؟
یاد رہے! آج ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا سبب ہماری یہی سرد مہری ہے ۔ جب ہم آپسی معاملات میں بکھراؤ کے شکار ہیں ، ہم میں یک جہتی اور اجتماعی عنصر کا فقدان ہے ۔ دینی ، سماجی اور سیاسی امور میں کوئی واضح اور معمول بہا گائیڈ لائن ہمارے پاس نہیں ہے تو تاک میں بیٹھے ہمارے مخالفین کو بلا جد وجہد ہم پر ظلم و تعدی کرنے کا راستہ مل جاتا ہے اور انجام کار کی لاپرواہی انہیں بےباک بنادیتی ہے ۔ انہیں ظلم و زیادتی کرنے کے لیے الگ سے کوئی سبیل تلاش نے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
کسی بھی معاشرہ کی مضبوطی کا لازمی عنصر اس کے افراد کا مضبوط ہونا ہے ۔ ایک مضبوط و مستحکم معاشرہ کی تشکیل اس کے افراد کو مضبوط کئے بغیر ناممکن ہے ۔ اور مسلم سماج کی مضبوطی کے لیے اس عنصر کی ضرورت کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن جائزہ تو دور سر سری نظر ڈالنے سے ہی اس کا فقدان دن کے اجالے میں پہاڑ نظر آنے سے زیادہ دکھتا ہے ۔
آج ہمارے سماج میں طبقاتی تفاوت ، خاندانی تفاخر ، سروری و سرداری تعیش ، مذہبی تسافل اور نظام حیات کے تانے بانے کے الجھاؤ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔
ہماری نظروں میں ہمارا مکان کا عالیشان ہونا کامیابی ہے اگرچہ ہماری دیوار کے سایے میں رہنے والے کو زندگی کی چھوپڑی بھی نصیب نہ ہو ۔
زرق برق لباس زیب تن کرنا خوش حالی ہے اگرچہ ہمارے ارد گرد سکونت پذیر افراد کو تن ڈھکنے کے لیے ضروری کپڑے تک مسیر نہ ہو.
ماکولات ومشروبات کی نت نئے ڈشیں دسترخوان پر پروسنا ہمارا مقصود عالی ہے اگرچہ ہماری آبادی کا ایک حصہ کپوشن کی وجہ سے زندگی کی آس تک چھوڑ دیا ہو.
مہنگے مہنگے اسپتال میں علاج کرنے کے لیے میڈیکلیم کی الگ الگ اور مہنگی پالیسی میں پیسہ جمع کرنا ہمارا ہدف ہے اگرچہ ہماری جوار میں سسکیاں لینے والے مریضوں کے پاس معمولی اور بنیادی ادویہ کے لیے روپے نہ ہوں.
عصری اعلیٰ تعلیم کے لیے لاکھوں لاکھ روپے بطور رشوت بنام ڈونیشن دینا ہماری ترجیحات میں شامل ہے اگرچہ ہمارا کوئی ہم سایہ بنیادی تعلیم کے لئے ضروری اخراجات مہیا نہ ہونے کی وجہ تعلیم چھوڑ نے پر مجبور ہوگیا ہو ۔
تعاون کے نام پر نام و نمود کی خاطر بےسود اور بے محل خطیر رقم دینا ہمارا مزاج بن گیا ہے اگرچہ بر محل اور مفید چیزیں یا تو اپنے وجود میں آنے کے لیے یا تکمیل کے لیے ترس رہی ہوں ۔
شادی بیاہ میں بے دریغ روپے خرچ کرنا ہمارے ذہنی سکون کا سامان بن گیا ہے اگرچہ ہمارے پاس کی چھوپڑی میں کسی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے لالے پڑ گئے ہوں اور صرف اس لیے بیاہی نہیں جا رہی ہیں کہ ان کے پاس ضرورت کے لائق روپے نہیں ہیں ۔
آج ہماری ترجیحات میں سالانہ عمرہ کے نام پر سفر حرمین شریفین کرنا ہے جس میں لاکھوں روپے صرف ہوتے ہیں مگر ہماری نظروں کے سامنے ضرورت مندوں کی ایک بھیڑ ہونے کے باوجود ان کی خیر خواہی اور حاجت روائی کا خیال تک نہیں آتا ۔
مسلمانو! مخالفین کے ہر دو حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے مفاسد کی اصلاح کریں ۔ جن مسائل پر عمل کرنے سے کوئی مانع نہیں ہے ان کو اسلامی شعور کے ساتھ اپنائیں ۔ پہلے خود اپنے اندر صالح انقلاب پیدا کریں مخالفین خود بخود کنارے لگ جائیں گے ۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کا لازمی سہارا بنیں پھر کسی کے اندر آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوگی ۔ میثاق مدینہ کا جو سبق ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ کر دیوار بن جائیں ۔ الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا (الحدیث) ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے ۔ زندگی کا مقصد صبح وشام ہونا نہیں ہے ۔ زندگی کا مقصد کسی کو زندگی عطا کرنا بھی ۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔ عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے ۔ ایک جانور اور بہیمۃ الارض میں بھی پایا جاتا مگر ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے ۔ آج ہم بنام مسلم پٹے جارہے ہیں ، گھسے جارہے ہیں ۔ اگر ہم نے اپنی اصلاحات کی طرف توجہ نہ دی تو کل بھی پٹے جائیں گے ۔ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور قبر میں رسوائی مقدر بنے گی ۔