بھارت-امریکہ جوہری معاہدہ: 20 سال بعد بڑی پیش رفت

بھارت اور امریکہ کے درمیان جوہری توانائی پلانٹس کے مشترکہ ڈیزائن و تعمیر پر 20 سال بعد اتفاق ہوا، جسے بھارتی سفارتی کامیابی اور چین کے لیے چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان جوہری توانائی کے پلانٹس کے مشترکہ ڈیزائن اور تعمیر کے معاہدے کو آخرکار امریکی محکمہ توانائی کی حتمی منظوری مل گئی ہے۔ 2007 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور امریکی صدر جارج بش کے دستخطوں کے بعد اس معاہدے کو عملی شکل دینے میں 20 سال لگے، جس دوران قانونی، تکنیکی اور سفارتی معاملات پر طویل مذاکرات ہوئے۔ اس سے قبل امریکی کمپنیاں بھارت کو جوہری ری ایکٹر اور آلات تو فراہم کر سکتی تھیں، لیکن انہیں بھارت میں ڈیزائن اور تعمیر کا اختیار نہیں تھا، جس پر نئی دہلی نے ہمیشہ اصرار کیا۔ اب امریکہ نے بھارت کی شرائط تسلیم کر لی ہیں، اور دونوں ممالک کی کمپنیاں مل کر چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹر (SMR) اور ان کے تمام پرزہ جات تیار کریں گی۔ اس پیش رفت کو بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، تاہم امریکہ نے شرط رکھی ہے کہ یہ جوہری پلانٹس کسی تیسرے ملک یا ادارے کو امریکی حکومت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس معاہدے سے بھارت کے نجی شعبے کو جوہری توانائی کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کا موقع ملے گا، جو اب تک صرف سرکاری اداروں تک محدود تھا۔ بھارت کے پاس پہلے ہی چھوٹے PHWR جوہری ری ایکٹر بنانے کی مہارت موجود ہے، اور اب وہ عالمی سطح پر استعمال ہونے والے جدید PWR جوہری پلانٹس کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر سکے گا۔ اس معاہدے سے نہ صرف بھارت کو توانائی کے میدان میں برتری ملے گی بلکہ چین کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی، جو سستے ماڈیولر ری ایکٹر بنا کر عالمی منڈی پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔