خبرنامہ

بھارت اور نیپال کا 1950 معاہدہ: دوستی یا بالادستی؟

بھارت اور نیپال کے درمیان 1,751 کلومیٹر طویل سرحد موجود ہے جو بھارت کی پانچ ریاستوں۔ اتراکھنڈ، اتر پردیش، بہار، سکم اور مغربی بنگال سے جڑتی ہے۔ دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک میں جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی، اور تجارت سمیت کئی معاملات میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت حاصل ہے۔ یہ سب 1950 میں طے پانے والے ایک تاریخی معاہدے کی بنیاد پر ممکن ہوا جسے “امن و دوستی معاہدہ” کہا جاتا ہے۔یہ معاہدہ 31 جولائی 1950 کو بھارت اور نیپال کے درمیان طے پایا تھا اور آج بھی دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام، داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور باہمی دوستی کے فروغ جیسے اصول شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے تحت دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ہاں رہائش، روزگار، تجارت اور جائیداد کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ نیپال صدیوں سے بھارت کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور خاندانی رشتوں میں جڑا ہوا ہے، اور تجارتی و روزگار کے لحاظ سے بھارت پر خاصا انحصار کرتا ہے۔ بھارتی شہری بھی نیپال میں کاروبار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ مستقل طور پر آباد بھی ہوتے ہیں۔
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر سوالات بھی اٹھنے لگے۔ نیپال کی جانب سے بارہا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ یہ معاہدہ برابر کی سطح پر نہیں ہوا بلکہ اس وقت کے ایک غیر مقبول رانا حکمران کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ بعض نیپالی حلقے اسے بھارت کی بالادستی کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ نیپال کو خاص طور پر اس معاہدے کی شق نمبر 2، 6 اور 7 پر اعتراض رہا ہے۔ شق 2 کے مطابق دونوں ممالک کو کسی بھی تیسرے ملک کے ساتھ پیدا ہونے والے سنجیدہ اختلافات یا معاملات پر ایک دوسرے کو آگاہ کرنا ہوگا۔ نیپال کے نزدیک یہ شرط اس کی آزاد خارجہ پالیسی پر قدغن لگاتی ہے، کیونکہ اس سے پہلے بھارت کو اطلاع دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، شق 6 اور 7 میں دونوں ممالک کے شہریوں کو مساوی معاشی اور شہری حقوق دیے گئے ہیں، لیکن نیپال میں بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ اس کا فائدہ زیادہ تر بھارت کو ہوتا ہے۔
1988 میں نیپال نے چین سے ہتھیار درآمد کیے، تو بھارت نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نیپال کے ساتھ تجارتی راستے بند کر دیے۔ اس اقدام سے نیپال کی معیشت پر منفی اثر پڑا اور روزمرہ اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی۔ نیپال کا مؤقف تھا کہ چونکہ یہ ہتھیار بھارت کے راستے نہیں لائے گئے، اس لیے بھارت کو اطلاع دینا ضروری نہیں تھا، جبکہ بھارت نے اسے معاہدے کے تحت مشورے کی خلاف ورزی سمجھا۔ سرحدی پابندیاں تقریباً 17 ماہ جاری رہیں، جس سے نیپال کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
1990 کی دہائی میں بھارت مخالف جذبات نے نیپالی سیاست میں زور پکڑا۔ 1994 میں نیپال کی کمیونسٹ پارٹی (یو ایم ایل) نے اسی بیانیے کو بنیاد بنا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد سے بھارت پر بالادستی کا الزام اور معاہدے کو یک طرفہ قرار دینا نیپال میں کئی سیاسی جماعتوں کا مستقل مؤقف بن چکا ہے۔اگرچہ 1950 کا معاہدہ بھارت اور نیپال کے درمیان دوستی اور تعاون کی بنیاد ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ نیپال کی خواہش ہے کہ معاہدے پر نظرِ ثانی ہو تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات مزید مساوی بنیادوں پر استوار ہو سکیں، جبکہ بھارت کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف اس کی سیکیورٹی کے لیے اہم ہے بلکہ ایک قریبی اور دوستانہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کا ضامن بھی ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر