بہار کے انتخابی میدان میں ’پی کے فیکٹر‘، بی جے پی پر نشانے

پرشانت کشور نے بہار میں بی جے پی رہنماؤں پر سنگین الزامات لگائے، بی جے پی نے رد کیا اور نتیش کمار پر بھروسہ جتایا۔
نئی دہلی:بہار اسمبلی انتخابات کے پیشِ نظر سیاسی منظرنامہ دن بدن دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔ اس بار خاص طور پر انتخابی بحث کا مرکز بنے ہیں پی کے یعنی پرشانت کشور۔ ان کی جماعت ’جن سوراج‘ سوشل میڈیا پر سرگرم ہے اور خود پرشانت کشور زمین پر اتر کر ریاست کے مختلف اضلاع کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ لگاتار حکمران قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) پر حملہ آور ہیں اور بی جے پی و جے ڈی یو کے کئی بڑے رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔پی کے نے اپنی پریس کانفرنسوں میں بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ جیسوال، سابق صدر سنجے جیسوال اور نائب وزیراعلیٰ سمراٹ چودھری کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ ان کا الزام ہے کہ سمراٹ چودھری ماضی میں قتل کے ایک معاملے میں ملزم رہے اور نابالغ ہونے کے باعث ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ پی کے نے ان پر نام بدلنے کا بھی الزام لگایا۔ دلیپ جیسوال پر ایک میڈیکل کالج پر قبضے اور قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، جب کہ سنجے جیسوال پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔
البتہ ان تینوں رہنماؤں نے پرشانت کشور کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ وہ “فری لانس سیاسی مشیر” ہیں جو ہر انتخاب میں رخ بدلتے ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ ان کی باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف ایک سیاسی چال ہے۔بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرشانت کشور محض سرخیوں میں رہنے کے لیے پرانے مقدمات کو اچھال رہے ہیں۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ موجودہ الیکشن میں اصل مقابلہ این ڈی اے اور آر جے ڈی کانگریس اتحاد کے درمیان ہے۔ بی جے پی کے مطابق یہ انتخاب وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت اور کارکردگی کے نام پر لڑا جا رہا ہے، اور اتحادیوں کے لیے ان کی شبیہ سب سے اہم ہے۔
جہاں تک پرشانت کشور کے اثر کا سوال ہے، بی جے پی کا خیال ہے کہ ابھی کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا کیونکہ یہ ان کا پہلا انتخاب ہے۔ بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ بی جے پی کے ’فاروَرڈ کاسٹ‘ ووٹ بینک میں نقب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر فی الحال بڑی لڑائی صرف دو محاذوں کے درمیان دکھائی دیتی ہے۔ اگر پی کے اپنی موجودگی مؤثر انداز میں درج کرانے میں کامیاب رہتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں وہ ایک طاقت کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ الیکشن میں بغیر کسی بڑی جماعت سے اتحاد کیے وہ کتنی کامیابی حاصل کریں گے، یہ آنے والے نتائج ہی بتائیں گے۔