خبرنامہ

بہار میں ووٹر لسٹ کی جانچ پر اپوزیشن اورالیکشن کمیشن آمنے سامنے

بہار میں اسمبلی انتخابات اگرچہ سال کے آخر میں ہونے ہیں، مگر انتخابی گہماگہمی ابھی سے شروع ہو چکی ہے۔ اس بار بحث صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان محدود نہیں، بلکہ حزبِ اختلاف اور الیکشن کمیشن کے درمیان براہِ راست ٹکراؤ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ریاست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ کی خصوصی جانچ کی جا رہی ہے، جس کا مقصد فہرست کو درست بنانا، نقل یا فوت شدہ افراد کے نام ہٹانا اور غلط پتے والے اندراجات کو حذف کرنا ہے۔ تاہم، حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ یہ محض ایک معمول کی کارروائی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی سازش ہے، جس سے غریب، پسماندہ طبقات اور ایک خاص برادری کے لوگ متاثر ہوں گے۔یہ معاملہ اتنا حساس بن چکا ہے کہ اسے سپریم کورٹ تک لے جایا گیا۔ عدالت نے اس عمل پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ آدھار، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ جیسے دستاویزات کو قبول کرے۔ مگر اپوزیشن کا سوال ہے کہ اگر یہ عمل واقعی ضروری تھا تو گزشتہ 22 برسوں میں اس پر عمل کیوں نہ ہوا؟ اور وہ لوگ جو بہار سے باہر روزگار کی تلاش میں ہیں، وہ یہ دستاویزات کیسے فراہم کریں گے؟ کیا سب کے پاس یہ ثبوت موجود ہیں؟ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے انتخابات میں اصل مسائل جیسے روزگار، مہنگائی اور بدعنوانی پس منظر میں چلے گئے ہیں اور عوام سے ان کے ووٹ کے حق کو ثابت کرنے کی غیر ضروری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔
‘بھارت جوڑو ابھیان’ سے وابستہ کاماینی سوامی نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے آٹھ اضلاع میں کیے گئے مطالعے سے پتا چلا کہ 63 فیصد لوگوں کے پاس وہ دستاویزات ہی موجود نہیں جو مانگے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر خواتین، دلت اور دیگر محروم طبقات کے لیے یہ عمل مزید پیچیدہ ہے کیوں کہ ان کے لیے اپنی پہچان ثابت کرنا آسان نہیں۔دوسری جانب حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے جیسوال کا کہنا ہے کہ اس عمل کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر شامل افراد کی نشاندہی ہو سکے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض علاقوں میں ووٹرز سے زیادہ آدھار کارڈز بنے ہیں، جو شکوک کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ جن کے خاندان کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں درج ہے، ان کے لیے یہ عمل نہایت آسان ہے اور صرف 50 سے 60 لاکھ لوگوں کو اضافی ثبوت دینا ہوگا۔
مزید یہ کہ اس وقت کھیتی کا موسم ہونے کے باعث زیادہ تر مزدور یا تو پنجاب میں کام کر رہے ہیں یا اپنے کھیتوں میں مصروف ہیں، جس سے ان کے لیے یہ تمام ثبوت مہیا کرنا نہایت مشکل ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نہ صرف عوام بلکہ بی ایل اوز کو بھی صحیح معلومات حاصل نہیں ہیں، اور اس سے عوام میں الجھن اور بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری طبقہ ہو یا دیہی، ہر سطح پر اس عمل کے بارے میں لاعلمی پائی جاتی ہے، جس سے خدشہ ہے کہ لاکھوں لوگ ووٹنگ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
کاماینی سوامی کا کہنا تھا کہ خواتین جو شادی کے بعد سسرال چلی جاتی ہیں، ان کے لیے اپنے والدین کی پرانی ووٹر لسٹ سے ثبوت نکالنا ممکن نہیں۔ ان کا الزام تھا کہ یہ سارا عمل دباؤ میں کیا جا رہا ہے، اور اصل مقصد ووٹ کے حق کو محدود کرنا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ کیا ہر وہ شخص جس کا نام 2003 کی فہرست میں تھا، آج بھی زندہ ہے؟ اور کیا وہ سب اپنی پرانی معلومات تک رسائی رکھتے ہیں؟اپوزیشن اس نکتے پر بھی سوال اٹھا رہی ہے کہ یہ عمل انتخابات سے محض تین ماہ پہلے ہی کیوں شروع کیا گیا؟ حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن مرکزی حکومت کے دباؤ میں آکر کام کر رہا ہے اور یہ سارا عمل این آر سی کو درپردہ نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بھی اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیر جمہوری قرار دیا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آخری بار اس نوعیت کی جانچ 2003 میں کی گئی تھی اور اس کے بعد سے لوگوں کی اموات، نقل مکانی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ووٹر لسٹ میں نظرثانی ناگزیر تھی۔ تاہم، زمینی حالات، عوامی لاعلمی اور کاغذات کی کمی نے اس عمل کو متنازع بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک شفاف اقدام ہے یا سیاسی چال؟ اور کیا کمیشن اس پورے عمل میں غیر جانبداری برقرار رکھ پائے گا؟

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر