امریکہ میں بجٹ تنازعہ، ٹرمپ حکومت کا سرکاری شٹ ڈاؤن شروع

امریکہ میں بجٹ منظور نہ ہونے پر ٹرمپ حکومت کا شٹ ڈاؤن، آٹھ لاکھ ملازمین متاثر، ضروری خدمات جاری مگر معیشت پر منفی اثرات۔
امریکہ میں وفاقی حکومت کو بجٹ کی منظوری نہ ملنے کے باعث سرکاری امور جزوی طور پر معطل کر دیے گئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کانگریس سے اخراجات کے بل کی منظوری لینے میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں رات بارہ بج کر ایک منٹ پر “گورنمنٹ شٹ ڈاؤن” نافذ ہو گیا۔ یہ صورتِ حال گزشتہ چھ برسوں میں پہلی مرتبہ پیش آئی ہے۔ماہرین کے مطابق شٹ ڈاؤن کے دوران کئی وفاقی ادارے وقتی طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ جن ملازمین کو “غیر ضروری” سمجھا جاتا ہے انہیں بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ ضروری شعبوں مثلاً فوج، ہنگامی سروسز، سرحدی نگرانی، طبی خدمات اور فضائی حفاظت کے عملہ کو کام تو جاری رکھنا ہوتا ہے مگر تنخواہیں تاخیر کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ تقریباً آٹھ لاکھ ملازمین اس فیصلے سے براہِ راست متاثر ہوں گے۔شٹ ڈاؤن کے سبب تعلیمی اور سماجی شعبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے اسکولز، طلبہ کے قرضوں کی سہولت، غذائی امدادی پروگرام اور کھانے پینے کے معیار کی نگرانی سبھی محدود یا عارضی طور پر بند ہونے کا امکان ہے۔ ایئر لائنز نے بھی خبردار کیا ہے کہ پروازوں میں تاخیر اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شٹ ڈاؤن طویل ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات معیشت اور مالیاتی منڈیوں پر بھی پڑیں گے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے اور عام شہریوں کو روزمرہ کے معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ادھر امریکی سینیٹ میں حکومت کے لیے عبوری فنڈز منظور کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ بل کو 55 ووٹ ملے جب کہ منظور کرنے کے لیے کم از کم 60 ووٹ درکار تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی ان کی صحت کے شعبے سے متعلق تجاویز پر غور نہیں کر رہے، اس لیے وہ اخراجات کے بل کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنے پر مجبور ہوئے۔یوں کانگریس نے مزید فنڈنگ کے بغیر اجلاس ملتوی کر دیااور نتیجہ یہ نکلا کہ مقررہ وقت پر وفاقی حکومت کے فنڈز منجمد ہو گئے اور امریکہ سرکاری شٹ ڈاؤن کی کیفیت میں داخل ہو گیا۔