واشنگٹن میں یوکرین جنگ کے حوالے سے اہم سفارتی سرگرمیاں

زیلینسکی نے ٹرمپ سے ملاقات کی، یورپی رہنما بھی شریک، جنگ بندی پر اختلاف، امریکا نے یوکرین کو سکیورٹی گارنٹی اور دفاعی معاہدے کی یقین دہانی دی۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی پیر کے روز دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے جہاں اُنہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ختم کرنے کے امکانات پر بات چیت تھا۔ اس موقع پر کئی یورپی رہنما بھی واشنگٹن میں موجود تھے۔چند دن قبل صدر ٹرمپ نے الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی تھی، لیکن اس کے باوجود جنگ بندی پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ اب ٹرمپ چاہتے ہیں کہ زیلینسکی اور پوتن کے درمیان پہلے براہِ راست ملاقات ہو، جس کے بعد ایک سہ فریقی اجلاس بھی منعقد کیا جائے جس میں وہ خود بھی شامل ہوں۔ٹرمپ نے کہا کہ اُنھوں نے پوتن کو فون کر کے ابتدائی تیاریوں پر بات کی ہے۔ روسی حکام کی جانب سے بھی یہ عندیہ دیا گیا کہ مذاکراتی سطح کو بڑھانے پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن ماسکو اب تک زیلینسکی سے براہِ راست ملاقات کے خیال کو مسترد کرتا آیا ہے۔
یورپی رہنماؤں نے جنگ بندی کو لازمی قرار دیا، تاہم صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُن کے خیال میں جنگ بندی کسی معاہدے کے لیے لازمی شرط نہیں۔ جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے سب سے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی اگلی نشست سے پہلے جنگ بندی ضروری ہے۔صدر ٹرمپ نے یوکرین کو سکیورٹی گارنٹی دینے کی پیشکش کی، لیکن امریکی فوجی بھیجنے کے امکان کو واضح طور پر نہیں مانا اور نہ ہی رد کیا۔ زیلینسکی کے مطابق یہ ضمانت ایک بڑے دفاعی معاہدے کا حصہ ہو گی، جس میں تقریباً 90 ارب ڈالر کے ہتھیار شامل ہیں۔ ان میں جدید فضائی اور اینٹی میزائل سسٹم بھی ہوں گے، جبکہ امریکہ یوکرینی ڈرونز بھی خریدے گا تاکہ اُن کی مقامی تیاری کو فروغ ملے۔
اس موقع پر زیلینسکی نے پچھلی بار کی تلخیوں کے برعکس زیادہ نرم رویہ اختیار کیا اور امریکی میزبانوں کا بار بار شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اس بار فوجی لباس کے بجائے سوٹ پہن کر بھی ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔ پریس کانفرنس کے دوران ہلکے پھلکے جملے بازی سے بھی کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔یورپی رہنماؤں نے بھی صدر ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ یوکرین ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کی سلامتی خطرے میں ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا کہ “سکیورٹی گارنٹی پر بات کرتے وقت ہمیں پورے براعظم یورپ کی سلامتی کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔”