حسن معاشرت اور کامیاب ریاست کے نبوی اُصول

ایک انسان، ایک داعی اور ایک قائد کو کیسا ہونا چاہیے سیرت نبوی میں اِس کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔
ڈاکٹر جہاں گیر حسن
بلاشبہ سیرت نبوی زندگی کے ہر موڑ پر ہماری ہدایت و رہنمائی کرتی ہے۔ غور کیجے تو سیرت نبوی کے بنیادی طور پر دو اَدوار نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ تین ادوار پر مشتمل ہے: دو ادوار مکی زندگی کے، ایک مدنی زندگی کے، اور یہ تمام ادوار بتاتے ہیں کہ ایک فرد سے ایک ریاست تک کا سفر کیسے طے ہوتا ہے، اور کن اُصولوں پر چل کر ہم نہ صرف اپنی دنیا بلکہ آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں، مثلاً
۱۔ پہلا دور چالیس سالہ زندگی: یہ اِعلانِ نبوت سے پہلے کا مکی دور ہے۔ اِس عہد میں نبی کریم ﷺ کی زندگی بظاہر ایک عام انسان کی طرح بسر ہوتی ہے، لیکن آپ ﷺ کا کردار غیر معمولی رہتا ہے۔ اِس عہد کی خصوصیات اور اِس سے حاصل ہونے والے اَسباق ہماری شخصیت کی تعمیر کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مثلاً:
عمدہ اخلاق کا مظاہرہ: نبی کریم ﷺ نے دوست -دشمن ہر ایک کے ساتھ بہترین اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔ آپ ﷺ کے اخلاق ایسے تھے کہ آپ ﷺکا بدترین دشمن بھی آپ کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آپ ﷺ ہمیشہ نرمی، بردباری اور رحم دلی سے پیش آتے تھے۔ غریبوں، یتیموں ،بیواؤں کی مدد، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال، اور چھوٹے بڑے کے ساتھ شفقت و احترام کا معاملہ رکھنا آپ کے عظیم الشان اخلاق کا اہم حصہ تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانا چاہیے اور عام مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اچھا اخلاق نہ صرف دنیا میں عزت کا باعث بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اِس کی بے حد اہمیت ہے۔
صداقت وامانت داری: نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک نمایاں سبق ’صداقت و امانت داری‘ ہے۔ آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے ہی اپنی صداقت اور دیانت داری کی ایسی مثال قائم فرمائی کہ ہر شخص، چاہے وہ آپ کا دوست ہو یا دشمن، آپ کو ’’صادق وامین‘‘ کہہ کر پکارنے پر مجبور ہوگیا۔ آج کے زمانےمیں جہاں جھوٹ، فریب، دغا اور خیانت عام بات ہے، سیرت کا یہ پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ کسی بھی شخص کی حقیقی قدر اُس کے اخلاق اور کردار سے ہوتی ہے، نہ کہ اُس کے عہدے یا دولت سے۔
کسب اور خود اِنحصاری: نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی محنت اور مشقت کے ساتھ بسر فرمائی۔ بچپن میں بکریاں چَرائی، جوانی میں تجارت کی، ذاتی کسب و محنت سے اپنے گزر بسر کا سامان مہیا فرمایا، اور کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے، بلکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ خود اِنحصاری کا ثبوت پیش فرمایا۔ اِس اعتبار سے ہمیں بھی کاہلی اور سستی کو ترک کردینا چاہیے اور اپنی روزی-روٹی کے لیے محنت ومشقت کرنی چاہیے۔ سیرت نبوی کا یہ پہلو دوسروں پر اِنحصار کرنے کے بجائے خود کفیل ہونے کی ترغیب وتحریک دیتا ہے۔
فطری پاکیزگی اور شرک بیزاری: تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریم ﷺ مسلسل چالیس سال تک ایک ایسی قوم کے درمیان رہے جو فخریہ طور پر بت پرستی، شراب نوشی، زنا اور جوئے کی عادی تھی۔ پھر بھی آپ ﷺ کی زندگی ہر طرح کے کفر و شرک اور تمام تر خرافات و بداخلاقیات سے پاک رہی۔ سیرت کا یہ اہم پہلو پوری انسانی برادری کے لیے بالعموم اور مسلم برادری کے لیے بالخصوص نمونۂ عمل ہے۔ موجودہ عہد میں اِس کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
2۔ دوسرا دور مکی زندگی: یہ دور، سخت آزمائشوں کا ہے، جس میں آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا، دعوتِ دین کی ابتدا ہوئی اور ساتھ ہی مخالفتوں کا طوفان بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ مگر آپ ﷺ نے کمالِ صبر و اِستقامت کے ساتھ دعوت کے اُصولوں کی پاسداری فرمائی، مثلاً:
اللہ پر کامل توکل: نبی کریم ﷺ نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی، تو سب آپ ﷺ کے خلاف ہوگئے۔ آپ ﷺ کو سخت ترین اذیتیں دی گئیں، لیکن آپ ﷺ نے ہرحال میں اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھا۔ اِس عملی سیرت سے پتا چلتا ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حکیمانہ اُسلوبِ دعوت: نبی کریم ﷺ نے ابتدا میں خفیہ طور پر توحید کی دعوت دی۔ پھر جب اعلانیہ دعوت کا حکم ملا، تو آپ ﷺ نے کوہِ صفا پر اپنی قوم کو جمع کیا، اور بڑی حکمت و دانائی سے اُن کے سامنے دین کی حقانیت بیان کی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جب کبھی کسی بڑے مقصد کا حصول پیش نظر ہو تو حکمت عملی اور منصوبہ بندی اِنتہائی ضروری ہے۔
صبر و اِستقامت: مکی عہد میں نبی کریم ﷺ اور صحابۂ کرام نے کمال صبر و اِستقامت کا مظاہرہ کیا، جیسے: حضرت بلال حبشی کو گرم ریت پر لٹایا گیا، حضرت سمیہ کو شہید کیا گیا اور بہت سے صحابۂ کرام کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ طائف میں آپ ﷺپر پتھر برسائے گئے، آپ ﷺ کو جادوگر اور مجنون بھی کہا گیا اور آپ ﷺ کا سوشل بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ لیکن صحابہ کرام میں سے کسی ایک فرد نے بھی اِسلام کو نہیں چھوڑا۔ لہٰذا حق کی راہ میں جب بھی مشکلات اور آزمائشیں آئیں، تو ہمیں بھی صبر و اِستقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مکی عہد نبوی کا یہ اہم پیغام ہے۔
باطل سے سمجھوتہ نہیں: نبی کریم ﷺ نے دعوت کا آغاز فرمایا اور اہل مکہ نے آپ کے عزم مصمم کا اندازہ کرلیا، تو اُنھوں نے بڑے بڑے لالچ دیے، اور کہا: ’’اگر آپ توحید کی دعوت چھوڑ دیں، تو آپ کے جو بھی مطالبات ہوں گے اُسے پورا کردیا جائےگا۔ لیکن آپ ﷺ نے صاف انکار کردیا، فرمایا: ’’اگر تم لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دو، تب بھی میں اپنے مقصد سے پیچھےنہیں ہٹوں گا۔‘‘ اِس طرح باطل پرستوں سے کوئی سمجھوتہ نہ کرکے آپ ﷺ نے یہ پیغام دیا کہ حق اور باطل میں ہرگز سمجھوتا نہیں ہوسکتا اور یہ کہ ہمیں اپنے ایمان کا سودابھی نہیں کرنا چاہیے۔
3۔ تیسرا دور مدنی زندگی: اِس عہد میں اِسلام کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اِسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور اَیسے خوشنما و پُرامن معاشرے کی بنیاد ڈالی جو ساری دُنیا کے لیے ایک مثال بن گیا، مثلاً:
معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارہ: مدینہ منورہ ہجرت کرجانے کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مہاجرین اور اَنصار کے درمیان مواخات (بھائی چارے کا رشتہ) قائم فرمایا۔ انصار نے بھی اپنے گھر اور مال و دولت، مہاجرین کے ساتھ تقسیم کیے اور اُن کےساتھ ایک ایسا بھائی چارہ قائم کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لہٰذا موجودہ عہد میں بھی اگر ہمارے معاشرے میں مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ ملیں، تو اُن کے ساتھ محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارے کامظاہرہ کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دکھ-درد کا بخوبی خیال رکھنا چاہیے۔
ریاست و دستور سازی: نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں باقاعدہ ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور اِنصاف پر دَستور (میثاقِ مدینہ) تیار کیا، جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ یہودیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا۔ سیرت کا یہ پہلو بہر صورت ایک حاکم و قائد کے لیے انمول تحفہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ہر طرح کی سیاست و معاشرت کی تعمیر وترقی اور اِستحکام کے لیے ایک عادلانہ قانون اور مساویانہ نظام کا ہونا اِنتہائی ضروری ہے۔ دستورِ ہند بھی دستورِ مدینہ سے کافی حد تک مستفید معلوم ہوتا ہے۔
سیاسی و عسکری حکمت عملی: مدنی دور میں نبی کریم ﷺ نے مختلف دفاعی جنگوں ( بدر، احد، خندق وغیرہ) میں اپنی سیاسی و عسکری حکمت عملیوں کا اِستعمال کیا۔ یہ جنگیں اِس بات کا ثبوت ہیں کہ ہر ایک کو اَپنے دفاع، لا اینڈآڈر اور ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہمہ دم تیار رہنا چاہیے، اور حکمت و منصوبہ بندی سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ وہ قومیں کبھی بھی شاد و آباد نہیں رہتیں جو دِفاعی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے نہیں بڑھتی ہیں۔ اِس کا مشاہدہ موجودہ عالمی پس منظر میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
فتح مکہ اور عام معافی: فتح مکہ کا واقعہ اِس دور میں بھی اِنتہائی بیش قیمتی سبق ہے۔ نبی کریم ﷺ جب فاتح مکہ کی حیثیت سے شہر مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ ﷺ کے پاس اپنے بدترین دشمنوں سے انتقام لینے کا پورا موقع تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے سب کو معاف کر دیا، اور فرمایا: ’’آج تمہارا کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘
یہ واقعہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ طاقت و حکومت ملنے پر بھی ہمیں انتقام کے بجائے عام معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ بلکہ آج جب کہ سیاست و معاشرت ہر سطح پر کمزوروں اور ماتحت لوگوں کو دَبایا جارہا ہے، طاقت و قوت کا ناجائز اِستعمال کیا جارہا ہے، اور عفو و درگزر کا تو کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے، اَیسے میں سیرت کے اِس پہلو کو بالخصوص نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
دین کا مکمل نفاذ اور مثالی معاشرہ: مدنی دور میں اسلام ایک مکمل دین کی صورت میں سامنے آیا۔ نبی کریم ﷺ نے عبادات، معاملات، اخلاقیات، ریاست اور معاشرت کے اُصولوں کو نافذ کیا۔ اُس کے نتیجے میں ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آیا جہاں عدل، انصاف، مساوات اور اُخوت کی بنیاد پر معاملات کیے جاتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو سیرت کے مطابق ڈھالنا چاہیے تاکہ ہم ایک بہتر اور کامیاب ریاست ومعاشرت کی تشکیل کرسکیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ سیرت نبوی کے یہ تینوں ادوار اِنسانی زندگی کے لیے ایک مکمل رہنمائی کا مجموعہ ہیں۔ جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک انسان اپنی سیرت و کردار کو بہترین بنا سکتا ہے، کس طرح صبر و اِستقامت سے مشکلات کا مقابلہ کر سکتا ہے، اور کس طرح ایک مثالی ریاست و معاشرت کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔