شناخت

اب وہ لوٹ کر نہیں آنے والا

غلام علی اخضر

(یاد رفتگاں)

کیوں خدا ایسے شخص سے ملاتا ہے جن سے دل و جاں کا رشتہ قائم ہوجائے۔ کیوں ہمیں خالق نے اس قدر حساس بنایا ہے کہ کسی کے گزرجانے کے بعد ہم خود کو اکیلا محسوس کرنے لگ جائیں۔مجھے مشفق و مکرم استاد پروفیسر ابن کنول(ناصر محمود کمال) سے ایک خاص لگاؤ تھا، اور اس سے کہیں زیادہ انھیں مجھ سے۔ وہ میرے لیے صرف ایک استاد نہیں بلکہ میری زندگی کو ہر وقت بہتر بنانے کے لیے سوچنے والے ایک ناخدا بھی تھے۔ جب بھی فون پر بات ہوتی مجھ سے بڑے پیار سے بات کرتے۔ اپنے گھر بلاتے دیر تک علمی، ادبی، سیاسی، سماجی اورکئی گھریلو معاملات پر باتیں کرتے۔ ان کی شخصیت صدا بہار تھی۔ ہر طالب علم ان سے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ وہ اعلیٰ ادنیٰ ہر ایک سے محبت سے پیش آتے تھے۔ طالب علموں سے انھیں بے پناہ محبت تھی ایسے ہی طلبہ کو ان سے۔ عاجزی اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انھیں محفل کو کل گلزار اور زعفران زار بنانا خوب آتا تھا۔ وہ بڑے ہی موقع محل شناس تھے۔ ہمیشہ ہر ایک سے ایسے ملتے جیسے انھیں برسوں سے جانتے ہوں۔وہ جتنے اچھے قلم کار،ادیب، تخلیق کار، افسانہ نگار، خاکہ نگار،انشاء پرداز،ڈرامہ نگار،تنقید نگار اورمحقق تھے اتنے ہی اچھے ایک معلم اور اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھے سچے اور مخلص انسان تھے۔

جب استاذ محترم عمرہ سے واپس آئے تو میں نے ملاقات کی غرض سے فون کیا۔ انھوں نے مغرب بعد گھر پر ملنے کو کہا۔ میں حکم کی تعمیل میں حاضر ہوا۔ اندر داخل ہواتو نظارہ بکھرا ہواتھا۔ سلام و مصافحہ کیا، خبرو خیریت پوچھنے کے بعد مجھے صوفے پر بیٹھنے کوکہہ کر ابھی چند قدم آگے بڑھے تھے کہ پھر لوٹ کر آئے اور بولے ”آئیے گلے بھی ملتے ہیں“میں خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور گلے ملا۔ پھر وہ اندر کے کمرے میں گئے اور آب زم زم لے کر آئے۔ انھوں نے سمت قبلہ کی رہنمائی کی اور پھر میں نے قبلہ رخ کھڑے ہوکرزم زم پی لیا۔ میرے سامنے قسم قسم کے کھجور اور مختلف اقسام کے فروٹس رکھ دیے۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ درمیان گفتگو وہ بار بار زور دیتے اورکہتے کھائیے!۔ میں کہتا سر بس، وہ کہتے ارے کئی قسم کے کھجور ہیں سب کا ذائقہ لیں۔ ادھر بڑھئی کتابوں کو سلیقے اور دلکش ترتیب میں رکھنے اور مطالعہ میزاور کمپیوٹرڈکس بنانے میں لگا ہوا تھا۔ اسی درمیان اذان کی آواز آئی، فوراًبڑھئی نے چیلے کو کہا کام بند کرو،اذان ہو رہی ہے۔ اذان ختم ہونے  پر کام شروع کیا۔ ہم نے بھی خاموشی سے احتراماًا ذان سنی۔ اس کے بعد میں نے سر سے کہا کہ آپ کے انشائیوں کا مجموعہ مجھے چاہیے۔ انھوں نے کچھ حیرت سے کہا، ارے! آپ کو نہیں دیا ہے۔میں نے کہا سرآپ کی کوئی کتاب میرے پاس نہیں ہے وہ تو میں نے ریختہ سے پڑھ کر مضمون لکھا ہے۔ وہ فوراً اُٹھے اور کتابوں کو تلاش کرنے لگے۔ کبھی اِس کمرے میں داخل ہوتے تو کبھی اُس کمرے میں،کبھی دوسرے فلیٹ میں۔ یوں تو سر اپنی کتابوں کو یکجاں رکھتے تھے مگر کتابوں کی نئی ریک بننے کی وجہ سے کتابوں کو مختلف جگہوں پر شفٹ کردیا گیاتھا۔ تلاش بسیار کے بعد جتنی کتابیں ملی انھوں نے مجھے دیں اور کہا کہ اگلی بار آئیے گا توباقی یاد سے لے لیجیے گا۔مگرہائے رے پھر آنے والی وہ اگلی بار! جانے سے قبل میں نے استاذ محترم سے کہا اس کی قیمت؟ وہ مسکراتے ہوئے بولے، میں تجارت کرتاہوں! میں نے تو تمھیں اپنی طرف سے تحفہ دیا ہے۔ وہ اکثر مسکراتے، کبھی کسی کو اگر ہدایتاً کچھ کہتے تواس میں ظرافت کی چاشنی کو اس انداز میں شامل کرتے کہ سامنے والے کو بُرا بھی نہیں لگتا اور سامعین کے کانوں میں رس بھی گھل جاتا۔ قدرت نے جہاں انھیں اچھے اخلاق سے نواز تھا وہیں وہ ایک اچھے اور ہمدرداستاد بھی تھے۔ طلبہ کی کامیابی اور اسے معاشی اعتبار سے راہ ہموار کرنے میں بھی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔

خیر!اب میں رخصت ہی ہونے والا تھا کہ انھوں نے کتابوں پر کسی میں عزیزی غلام علی کے لیے محبت کے ساتھ، کسی کتاب پر برادرم غلام علی اخضر کے لیے،اور کسی پر عزیزم غلام علی اخضر کے لیے خلوص کے ساتھ لکھ کرمجھے دیتے رہے۔ اسی دوران انھوں نے کہا کہ میں اپنی کتابوں پرروئیلٹی نہیں لیتا۔ بس پبلشرسے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے کچھ25/20 کتابین دے دیں۔ پھرکچھ باتیں ہوئیں اور میں اجازت لے کرسلام ومصافحہ کے بعد،خداحافظ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا۔

کئی روز گزر چکے تھے۔ اس اثنا میں میں نے کئی بار ان کی کتابوں کی ورق گردانی کی۔ کتابوں کے بیک ٹائٹل پر لگی تصویروں کو دیکھتا۔ کبھی انھیں تصور میں لاتااور کبھی ان کی تصویر میں بڑھتی، گھٹی اور ڈھلتی جوانی کے سفرکا معائنہ کرتا۔ میراجب بھی ذاکر نگر کی طرف جاناہوتاہے تواپنے دوست چاندرضا کے ساتھ ضرورجاوید بھائی جو بڑے ہی خوش مزاج اور ملنسار انسان ہیں کے یہاں چائے پیتااور پنڈت جی سے پان کھاتا اور پھر ہم مختلف موضوع پر پندرہ بیس منٹ تک باتیں کرتے پھر اپنی اپنی راہ لیتے یعنی وہ اپنے کمرے کی طرف اور میں اپنے کمرے کی طرف۔ اس روز بات چلی، میں نے کہایار کئی دن ہوگئے سر کی خیریت معلوم کر لیتا ہوں۔ فون کیا دعا و سلام کے بعد میں نے خیریت دریافت کی۔ کچھ باتوں کے بعد میں فون کٹ کرنے کی اجازت چاہی رہا تھا کہ استاذ مکرم نے کہا کل مغرب بعد تشریف لائیے۔ حسب وعدہ مغرب بعد حاضر ہوا۔ علیک سلیک کے بعدصوفے پربیٹھنے کو کہے۔ملاقات تو ایسے کرتے جیسے کسی دوست سے مل رہے ہیں۔ وہ خود اٹھ کر اندر سے قسم قسم کے فروٹس، بسکٹ اور نمکین لائے۔ اور مجھے کھانے کا حکم دیا پھر بول پڑے ”معاف کیجیے گا میں پہلے سے ہی چائے پی رہا تھا“ دیر تک دونوں میں باتیں ہوئیں۔اسی درمیان بولتے بولتے وہ یوں گویا ہوئے ”چالیس سال پڑھایا، بہت شاگرد ہوئے سب سے محبت ہے لیکن نہ جانے کیوں آپ سے ایک عجیب سی الگ لگاؤ اور محبت ہوگئی ہے“ یہ شاید میری زندگی کا سب سے قیمتی جملہ ہے۔ جو ہمیں ہمیشہ ان کی یاد دلائے گا، اور میں اس محبت کو ہمیشہ اپنے ارد گرد تلاش کرتا پھروں گا۔ان کا پیار ان کی شفقت میری زندگی کاقیمتی تحفہ ہے۔ استاذ محترم جب بھی روزنامہ انقلاب میں میرا مضمون پڑھتے تو بہت خوش ہوتے۔ کئی بار تو واٹس ایپ پر حوصلہ افزا جملہ لکھتے یا فون پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ ۱۱/فروری۳۲۰۲ کو جب میرا مضمون بعنوان”یہ وہ سحر تو نہیں“روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا تومیں اس انتظار میں تھا کہ اب شاید سر حوصلہ افزائی کے لیے کچھ کلمات لکھیں گے یا فون کریں گے لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہوا۔

استاذ محترم کو میرے روشن مستقبل کی بہت فکر رہتی تھی۔ انھوں نے ایک سرکاری سنستھا میں میری نوکری کے لیے مجھ سے بتائے بغیر بات کرلی لیکن افسوس کے میں ان کے اس حکم پر عمل نہ کرسکا اور میں نے فی الوقت معذرت چاہ لی۔ تو پھر بولے کوئی بات نہیں آگے کہیں اور کچھ ہوگا تو میں آپ کو بتادوں گا۔ میری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مجھ سے زیادہ انھیں فکر ستاتی تھی۔دہلی کے ایک یونیورسٹی میں میرا پی ایچ ڈی میں داخلہ نہ ہوپانے کی وجہ سے انھیں بہت ملال تھا۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے گھبراؤ نہیں اللہ نے چاہا تو کوئی اور راستہ نکل آئے گا اور بھی یونیورسٹیاں ہیں۔

 ان کی نئی کتاب ”مذہب عشق“ چھپ کر آچکی تھی۔ انھوں بتایا کہ میں نے اسے اصل میں ٹی وی سیرئل کے لیے لکھتا تھا اور یہ اسکرپٹ پاس بھی ہوچکا تھالیکن ڈائرکٹر کاتبادلہ ہوگیاوہ اسکرپٹ تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہوگیا اور وہ کام وہیں پر رک گیا۔ تو میں نے سوچا کیوں اسے ضائع ہونے دیا جائے اس لیے کتابی شکل دے کر شائع کرادیا۔تبھی انھوں نے کہا کہ آپ کبھی روزنامہ انقلاب کے دفتر گئے ہیں، یامین انصاری کو جاننے ہیں؟میں نے کہا ہاں سر! یہیں تو ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اسی روزانھوں نے اپنی کتاب ”صدائے دل“آپ کو دی تھی۔ ہاں! ان سے ملنا،میں تمھارے بارے میں انھیں بتادوں گا۔وہ اکثر طلبہ کا نام لیتے کبھی اکمل شاداب، کبھی افضل مصباحی، کبھی شاداب شمیم، کبھی عزیز، کبھی امیر حمزہ،کبھی ممتاز رضوی کا وغیرہ وغیرہ۔اسی دوران گفتگو استاذ مکرم نے کہا کہ اب تو مجھے یونیورسٹی روز روز جانا نہیں ہوتا ہے، تو اب اتنے سوٹ کس کام کے ہیں۔ آپ اگر بُرا نہ مانیں تو میں اپنا سوٹ آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ میں نے خوشی خوشی بلاتکلف کہا، کیوں نہیں یہ تو میرے لیے شرف کی بات ہے اور آپ کی نشانی بھی میرے پاس رہے گی مگر کسے معلوم تھا کہ یہ آخری گفتگو اور یہ تحفہ ان کی آخری نشانی بن جائے گی۔

 اب تک Book shelfتیار ہوچکا تھا۔ میں نے کہا سر! بہت خوبصورت بنا ہے۔ یہاں تصویر بہت اچھی آئے گی۔فوراً بولے لاؤ میں آپ کی تصویر کھینچتا ہوں۔ میں کرسی پر کتابوں کی دلکش انداز میں ترتیب وتزئین والی الماری کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ تصویر کھینچ کر مجھے دکھانے لگے۔ میں نے کہا کیوں نہ سرایک آپ کے ساتھ بھی ہوجائے، تبھی انھوں آواز لگائی قریب۳۱/۴۱ سال کی ایک بچی وارد ہوئی اور پھر استاذ شاگرد کی یہ تصویر ہمیشہ کے لیے قید ہوگئی، مگر کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے اور انھوں نے جس بک شیلف کو بنوایاوہ خود اس کا استعمال نہیں کرسکیں گے۔یہ کون جانتا تھا کہ حضرت امین میاں برکاتی کو زینہ اترے وقت سہارا دینے والا اپنی دلکش ہنسی اور مقناطیسی  شخصیت سے سب کو اپنا بنانے لینے والا چند گھنٹوں میں خود چار کندھوں کا محتاج ہوجائے گا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وائیوا لے کربہت خوشی خوشی رخصت ہوئے لیکن اس رخصتی نے انھیں دہلی پہنچنے نہ دیااور جان جان آفریں سے جاملے۔ میں نے پہلی بار یہ خبر سنی تو مجھے یقین ہی نہ آیا پھر میں نے انھیں متعددبارفون کیا تو کوئی جواب نہیں ملا اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات اس قدر مشتہر ہوئی کہ اس پر یقین نہ کرنا اب ممکن نہ تھا۔ میرے لیے یہ بہت ہی افسوس ناک اوردل کچوٹنے والی خبر تھی۔اس روز پوری رات نیند نہیں آئی۔ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی باحیات ہیں اور کل فون کرکے گھر مجھے بلائیں گے۔لیکن صبح ہوتے ہی معلوم ہوا کہ خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا، وہ اب لوٹ کر نہیں آنے والے۔ ان کااس طرح ہم سے منھ موڑلینا ہمیشہ ہمیں بے چین کرتا رہے گا۔

اس دور کا ہر ظلم بھلا دے گا زمانہ

لیکن ترے جینے کی ادا یاد رہے گی

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

شناخت

مبلغ اسلام حضرت علامہ محمد عبد المبین نعمانی مصباحی— حیات وخدمات

از:محمد ضیاء نعمانی مصباحی متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی اور قوم
شناخت

فضا ابن فیضی شخصیت اور شاعری

17 جنوری آج مشہور معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم وفات ہے فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی