خبرنامہ

حضرت جامی گورکھپوری رحمۃ اللہ علیہ کے سالانہ فاتحہ کا اہتمام

خانقاہ عالیہ رشیدیہ تصوف و روحانیت، علم و ادب کو فروغ دینے والی وہ عظیم خانقاہ ہے جس کی گراں قدر خدمات تقریبا چار صدی کو محیط ہے۔ اور ان کی علمی، روحانی فیضان سے خلق خدا کی کثیر تعداد شاد کام ہے۔ بانی خانقاہ حضرت قطب الاقطاب شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری (مصنف مناظرۂ رشیدیہ) حضرت بدر الحق شیخ محمد ارشد، قمر الحق حضرت شیخ غلام‌ رشید قدس اسرارہم سے لے کر نور الحق شیخ حیدر بخش، قیام الحق حضرت شیخ امیر الدین، قطب الہند شیخ غلام معین الدین، امام العارفین شاہ سراج الدین رحمۃ اللّٰہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد حضرت قطب العرفا والعشاق شاہ عبد العلیم آسی غازی پوری(صاحبِ عین المعارف المعروف بہ ”دیوان آسی) اور ان کے منظور نظر خلیفہ و جانشیں حضرت سید شاہد علی سبز پوش فانی گورکھپوری علیہما الرحمۃ (صاحبِ دیوان فانی) سجادہ رشیدیہ کو زینت بخشنے والے ان پاکانِ امت نے علم و روحانیت، رشد و ہدایت، خدمتِ خلق، جود و سخا، عدل و انصاف، توکل و قناعت اور صبر و رضا، حلم و ذکا، فقر و استغنا کے ایسے انمٹ نقوش پیشانئ عالم پر ثبت کیے ہیں جن کے انوار سے علم کی آبادیاں روشن ہیں۔ اور روحانی خطے ضیا بار ہیں۔ یہ سلسلہ زریں یہاں تک نہیں رکا حضرت فانی (بڑے سرکار) کے بعد ان کے خلفِ اکبر اور جانشیں جامع الازھر مصر، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے تعلیم یافتہ حضرت مصطفیٰ علی سبز پوش شہید آنی گورکھپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسند سجادگی کو رونق بخشا۔ علم و ادب، شعر و سخن کی دیرینہ روایات کو فروغ دیا۔ اور جامِ شہادت نوش فرما کر راہئ ملک عدم ہوۓ۔ ان کے بعد ان کے تربیت یافتہ مریدِ صادق ممتاز فقیہ و عالم حضرت مجمع البحرین الشاہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی اپنے علمی کمالات اور بلند پایہ خدمات سے سلسلہ رشیدیہ کی زبردست آبیاری فرمائی۔ چناں چہ اس ناحیے سے حضرت فانی کے خلف اصغر اور سید مصطفیٰ علی سبز پوش شہید رحمہ اللّٰہ کے برادرِ اصغر، خانقاہ رشیدیہ کے متولی اور معنوی سجادہ نشین حضرت سید شاہ ہاشم علی سبز پوش جامی گورکھپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی حق آشنا شخصیت اور ان کی مخلصانہ خدمات بھی غیر معمولی ہیں۔ ان کے تذکرے کے بغیر مشائخِ رشیدیہ کی تاریخ ناقص مانی جاۓ گی۔ ۲۰۱۱ میں ۸۳ سال کی عمر گزارکر یہ مرد حق آگاہ سفر آخرت کے لیے روانہ ہوا۔ ان کے سالانہ فاتحہ کی مناسبت سے مؤرخہ ۲۱/جولائی ۲۰۲۵ بروز اتوار خانقاہ طیبیہ معینیہ منڈواڈیہ بنارس میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ صبح ساڑھے سات بجے پروگرام کا آغاز ہوا۔ جس میں دارالعلوم طیبیہ معینیہ کے طلبہ و اساتذہ سمیت متوسلینِ سلسلہ اور مقامی علما نے بھی شرکت کی۔ نظامت کا فریضہ راقم نے ادا کیا۔ اور تلاوت کلام ربانی سے شعبہ قرأت خصوصی کے طالب علم محمد رضا نے محفل کا آغاز کیا۔ دارالعلوم کے طالب علم محمد ساجد رضا اور معطر رضا نے خوبصورت آواز میں کلام آسی سے نعت و منقبت کے اشعار پیش کیے۔ پھر شعبۂ حفظ کے استاذ حافظ شہنواز طیبی نے صاحبِ فاتحہ حضرت جامی گورکھپوری کا سوز و گداز سے معمور کلام پڑھ کر محفل میں رقت طاری کردی۔
میرے خلوص میری عاجزی کو ترسوگے
رہا نہ میں تو پھر اس دوستی کو ترسوگے
ہمارے بعد بدل جاۓ گی بہت دنیا
خوشی ملے گی تو، لیکن خوشی کو ترسوگے
مرے وجود سے ہے بزمِ رندانہ
مرے خمار میری مے کشی کو ترسوگے
تم اجنبی ہی کہو بزم میں لیکن
ہمارے بعد اسی اجنبی کو ترسوگے

ان کے بعد راقم نے دارالعلوم کے محترم استاذ مفتی حسنین رضا مصباحی کو دعوتِ خطاب دی۔ انہوں نے حضرت جامی گورکھپوری کی خاندانی وجاہت، ولادت، تعلیم و تربیت اور ان کے اوصاف و خصائل کو مختصر طور پر بیان کیا۔ اور ان کی شعر گوئی پر روشنی ڈالتے ہوۓ مجموعہ کلام سے کچھ خوبصورت اشعار بھی سناۓ۔ پھر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شعبہ قرأت خصوصی کے استاذ قاری ظفر العلی نعیمی کھڑے ہوۓ اور کلامِ آسی سے کچھ اشعار اپنی ترنم بھری آواز میں پیش کیے۔ آخری خطاب کے لیے میں نے شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن (دارالاشاعت خانقاہ رشیدیہ) کے روح رواں حضرت مولانا ابرار رضا مصباحی کو مائک پیش کیا۔ ان سے پیشتر راقم نے سامعین سے مخاطب ہوکر کہا
”یہ محفل ہمارے لیے دو حثیتوں سے اہم ہے۔ پہلی حیثیت تو یہی ہے کہ خانقاہ کی ایک عظیم ذات سے یہ محفل منسوب ہے۔ دوسری حیثیت یہ کہ حضرت مجمع البحرین مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ تا حیات اس محفل میں شوق سے شرکت فرماتے تھے۔ اور تمام انتظامی امور کو اپنی نگرانی میں انجام دلواتے تھے۔ آج یہ دونوں بزرگ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ محفل دونوں بزرگوں کی یاد بن گئی ہے“
مولانا ابرار رضا مصباحی نے حضرت جامی گورکھپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اپنی ملاقات اور مشاہدات کا ذکر کیا۔ اور خانقاہ کے لیے ان کی اہم خدمات کو اجاگر کیا۔ ان کے اخلاق و عادات، احوال و افکار، شعری و ادبی خوبیوں پر شاندار گفتگو کی۔ انہوں نے حضرت جامی گورکھپوری کے صغرِ سنی کے حالات بتاتے ہوۓ بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت شاہد علی سبز پوش خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار شریف پورنیہ میں ارادت مندوں کے اصرار پر تشریف لے گۓ۔ مصافحے میں جو نذرانے ملے خانقاہ کے خادم کو بلاکر خانقاہ کے مصرف میں جمع کرنے کے کو کہا۔ خادم نے بہت فہمائش کی کوشش کی ”یہ نذرانے ارادت مندوں نے محبت سے آپ کو دیے ہیں اسے آپ رکھ لیں“۔ مگر کسی طور پر نہیں مانے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف ١١ سال تھی۔ جب یہ خبر آپ کے والد بزرگوار کو پہنچی تو اس حوصلہ مندانہ قدم پر بہت خوش ہوۓ۔ غالباً ١١/١٢ سال ہی کی عمر میں جب اپنے گھر والوں کے ساتھ حجِ کعبہ کے لیے گۓ تو مکۂ معظمہ میں اپنے لیے کفن کا کپڑا خرید لیے اور جب بارش ہوئی تو میزابِ رحمت سے اترنے والے پانی سے اپنے کفن کے کپڑے کو تر کرلیا۔ اسی کپڑے میں حضرت کو کفنایا گیا۔
مولانا نے مزید بیان کیا: ان کے برادرِ اکبر حضرت شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے وصال کے بعد سلسلے کے اکابر علما و مشائخ اور ارادت مندوں نے ان کو سجادگی قبول کرنے پر اصرار کیا مگر کسی طور پر تیار نہ ہوۓ بلکہ یہ فرماتے رہے ”یہ جگہ مقدس ہے اسے میں اپنے ناکارہ وجود سے پلید نہیں کرسکتا“۔ اور تاحیات اپنے موقف پر اٹل رہے۔ مگر سلسلے کی ترویج و اشاعت، خانقاہی املاک و جائیداد کی حفاظت کے لیے صرف تولیت قبول کر لی۔ اپنے زیرِ نگرانی بیعت و ارشاد کے امور خانقاہ کے معتمد خلفا کے حوالے کردیے۔ اور اپنے حسنِ تدبیر اور حسنِ کار سے خانقاہ کو فروغ و ارتقا بخشا۔ ان کو شعری ذوق بھی کمال کا ملا تھا۔ ان کی شاعری کا مرتب مجموعہ ”دارِ فانی سے کامیاب آۓ“ سلسلہ رشیدیہ کی شعری روایت کی خوشگوار کڑی ہے۔ حاضرین نے بہت شوق سے یہ تقریر سنی اور علما نے خوب داد و تحسین سے سراہا۔
آخری خطاب کے بعد بنارس کے ہر دلعزیز شاعر جناب ارقم بنارسی نے اپنے لکھے ہوۓ منقبت کے اشعار پیش کیے۔ جس سے محفل کو حسنِ خاتمہ نصیب ہوا۔ ٩:٢٥ میں قل شریف کی تقریب ہوئی۔ اور دعا خوانی کے بعد شیرنی تقسیم کی گئ۔ اور علمائے کرام کو ناشتہ کرایا گیا۔ اس موقع پر مذکور اشخاص کے علاوہ حضرت مولانا عبدالسلام رشیدی (پرنسپل دارالعلوم طیبیہ معینیہ)، حضرت مفتی سید فاروق مصباحی (استاذ و مفتی دارالعلوم ہذا)، حضرت مولانا عارف اللّٰہ فیضی مصباحی (شیخ الحدیث دارالعلوم ہذا)، مولانا سبیل رضا مصباحی، مولانا شہروز عالم مصباحی، مفتی میر عمران مصباحی، حافظ مجیب الرحمٰن برکاتی اساتذہ دارالعلوم ہذا بھی شریک رہے۔ باہر سے تشریف لانے والوں میں حضرت مولانا یعقوب (پرنسپل دارالعلوم حنفیہ غوثیہ بجرڈیہ بنارس) اور مفتی سبطین رضا مصباحی قابلِ ذکر ہیں۔ ظہرانے کے لیے لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعد نماز ظہر کھانے کی دستر خوانیں بچھائی گئیں۔ اور تمام علما و طلبہ اور متوسلین کی ضیافت کی گئی۔ باہر سے آۓ ہوۓ علمائے کرام کو دارالعلوم کا معائنہ کرایا گیا۔ اور ادارے کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ پورے پروگرام میں دارالعلوم کے طلبہ نے بڑی تندہی سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ اور حسنِ سلیقہ کا شاندار مظاہرہ کیا۔

تبصرہ نگار: نشاط رومی مصباحی

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر