حضرت فانی کی سہ رخی خدمتِ اردو زبان و ادب

مولانامحمد عارف اللہ فیضی مصباحی
خالق كائنات کی یہ عادتِ کریمہ ہے کہ وہ جس ہستی کو کسی عظیم خدمت کے لیے منتخب فرماتا ہے اسے بڑی فیاضی سے قوتِ حافظہ ، تیر فہمی ، زیرکی ، دقیقہ رسی ، معاملہ شناسی اور لسانی و ابلاغی خوبیوں اور کمالات سے نواز تا ہے ۔
حضرت سید شاہد علی صاحب سبزپوش ۔رحمۃ اللہ تعالیٰ۔ ایک ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستی کا نام ہے جسے خالقِ ایں و آں نے انسانوں کی فائدہ رسانی ، ان کی دینی و اخلاقی اور اعتقادی و نظریاتی اصلاح و تربیت ، روحانی و عرفانی بالیدگی اور اردو زبان و ادب کو اوج کمال وترقی تک پہنچا نے کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ اسی لیے انھیں حیرت انگیز ذہانت و فطانت سے نوازا گیا اور ان کے دل میں مطالعۂ کتب کا ایسا شوق فراواں ودیعت کیا گیا کہ بے بہا کتابوں کا ایک عظیم ذخیرہ جمع کرلینے کے ساتھ ساتھ انھوں نے تقریباً ۱۹؍۲۰؍ سالوں تک شب و روز اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں تک مطالعۂ کتب سے شغف رکھا۔ اس کے نتیجے میں بیش قیمت معلومات کا عظیم سرمایہ ان کے ذہنِ رسا میں محفوظ ہوگیا۔ فکرونظر میں بے پناہ وسعت اور نکھار آیا ، صحیح وغلط اور راجح و مرجوح میں تمیز و تنقید کی صلاحیتیں پختہ واستوار ہوئیں اور اہل علم و دانش و اصحاب فکر و نظر کی خوبیوں ، خامیوں اور فروگذاشتوں کی نشان دہی میں کمال رسوخ پیدا ہوا۔ ان کی علمی و فکری وسعت و پختگی کا عالم ی تھا کہ اگر کسی بھی فن پر اہل علم سے گفتگو چھڑجاتی تو وہ خاموش ہونے کا نام نہ لیتے ، جس موضوع کو اٹھاتے اس کے ہر پہلو کی وضاحت کرتے اور جس مضمون کو اختیار کرتے اس کے ہر جزیئے کا بیان کرتے ۔ ہر دعوے کی دلیل ان کے پاس ہوتی ، تنقیدی رویے نہایت مضبوط اور برمحل ہوتے ۔ اپنے مدعا کو مخاطب کے ذہن میں اتار نے کا ہنر انھیں خوب آتا ، مثالیں دل نشین ہوتیں ، بیان نہایت دل پذیر اور اندازِ بیان بڑاہی دل آویز ہوتا۔
انھوں نے تین جہتوں سے گیسوے اردو زبان کو سنوار نے اور اس کی اشاعت و ترقی میں سرگرم حصہ لیا ۔
(۱) مجالس مریدین و مستفیدین۔
(۲) اردو لغات کی تحقیق۔
(۳) شاعری
مجالس مریدین:
یہ امر ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانِ اردو کے فروغ و توسیع میں صوفیہ اور خانقاہ نشینوں کا نمایاں کردار رہا ہے ۔ اس کے تشکیلی مراحل سے اس کے ایک ترقی یافتہ زبان بننے تک صوفیہ اور اہل خانقاہ کا ایک طویل سلسلہ ہے جس سے اس کے خزانۂ لغت کو بے شمار تعبیرات و محاورات کے گراں قدر سرمایہ سے مالا مال کیا ہے ۔
حضرت سید شاہد علی ۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ۔ نے بھی اسی خانقاہی روایت اور رویے کو قائم رکھا ور اپنے حلقۂ مریدین و مستفیدین کی دینی اصلاح اور روحانی تزکیہ کے لیے اردو کو ہی وسیلۂ اظہار بنایا ۔ ان کی مجلسیں غیر معمولی فوائد و افادات پر مشتمل ہوتیں ۔ وہ سادہ اورآسان جملوں میں تصوف کے رموزو اَسرار، روحانی حقائق و معارِف اور خاصانِ خدا کا ذکر کرتے ۔ ان میں خاصانِ خدا کا ذکرِ جمیل تو ان کا ایسا خاص موضوع اور محبوب مشغلہ تھا کہ ہر فن کی گفتگوکا حرفِ آخر ہوتا ۔ ہزاروں روایتیں، سیکڑوں مضامین، کتابوں کے اقتباسات ، بزرگوں کے ارشادات اور اولیاے کرام کے کلمات و بیانات مع مآخذ و جو الجمات ان کی نوکِ زبان رہتے ۔ عام طور پر ایسا سماں بندھتا کہ روح وجد میں آ جاتی، باتیں ناصحانہ، مبلغانہ اور ہدایت آفرین ہوتیں ۔ خوش طبع تھے اس لیے لوگوں کی دل چسپی برقرار رکھنے کے لیے دورانِ گفتگو سنجیدہ لطائف اور مزاح کی چاشنی بھی شامل کردیتے۔
تحقیقِ لغات:
اردو زبان و ادب خصوصاً اس کے حصۂ نظم سے انھیں فطری لگاٶ تھا ۔ مطالعہ گہری نظر اور افادی نقطۂ نظر سے ہوتا ۔ زبان کی تحقیقات میں غلو اور محاورہ نویسی کا بے پایاں شوق تھا ۔ اردو فارسی کے استاتذۂ سخن کے دواوین کا مطالعہ کرتے وقت اسناد اور تصحیحِ متون کا بڑا تحقیقی اور بیش قیمت کام بھی کیا جو دستِ بردِ اہل زمانہ سے محفوظ رہ جاتا تو اردو کو ایک عظیم و بیش بہا سرمایہ میسر آجاتا اور تبصرہ و تنقید اور لغات نویسی میں کام آتا ۔تاہم جو کچھ محفوظ ہے وہ ان کی دقتِ نظر ، وسعت مطالعہ اور ذوقِ نقدو تبصرہ کی بین دلیل ہے ۔
کچھ مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :
٭ زبان لینا بمعنی وعدہ لینا۔
حضرت داغ کہتے ہیں :
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
٭کوئی جاتا ہے بمعنی کہیں جاتا ہے ۔
٭حضرت داغ کہتے ہیں :
جب برستے ہیں وہ رقیبوں پر
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں
مراد آنا بمعنی مراد برآنا۔
حضرت داغ کہتے ہیں :
ہے خرامِ ناز سے جی شاد شاد
گرچہ پامالی بھی ہے حد سے زیاد
عاشقِ ناشاد کی آئے مراد
گر قدم برچشمِ من خواہی نہاد
دیدہ بر رہ می نہم تامی روی
٭ ’’قامت‘‘ مؤنث ہے ۔
صبا لکھنوی کہتے ہیں :
مرگیے پر جو مجھے یاد وہ قیامت آئی
ناز کرتی ہوئی مرقد پہ قیامت آئی
٭ ’’ایجاد‘‘ مذکر ہے ۔
داغ کا شعر ہے :
در پہ خود بیٹھے ہیں وہ فتنہ اٹھا نے کے لیے
پاسبانی کا یہ ایجاد نہ دیکھا نہ سنا
ایک دن حضرت وسیم خیرآبادی سے لغات کی کتابوں پر گفتگو چھڑ گئی ۔ حضرت فانی نے جلال کی مرتب کردہ لغت "سرمایۂ اردو زبان "کے بارے میں فرمایا: مبتدیوں کے لیے غنیمت ہے ۔ پھر اس کی تین کمیاں شمار فرمائیں :
(۱) اس میں الفاظ کم ہیں ۔
(۲) بعض محاوروں میں معنی بھی کم درج ہیں ۔
(۳) اکثر لکھا ہے کہ یہ لفظ معروف معنی کے علاوہ اِن معنوں میں بھی مستعمل ہے لیکن معرف معنی نہیں ذکر کیے اس لیے جواہل زبان نہ ہو وہ معنی معروف کیسے معلوم کرے گا ۔
فرہنگ آصفیہ کے بارے میں فرمایا:
اس میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ بعض مقامات پر کوئی معنی غلط لکھ گیے ہیں اور سند میں جو شعر لکھا ہے وہ صحیح معنی دے رہا ہے ۔
مشہور شاعر وسیم صاحب نے دعویٰ کیا کہ ’’ امیر اللغات‘‘ اردولغات کی ایک مکمل کتاب ہے مگر حضرت فانی نے اس راۓ سے اختلاف کیا پھر وسیم صاحب کا اپنے موقف پر اصرار دیکھا تو فرمایا:
کل میں امیر اللغات کی فروگذاشتوں سے آپ کو مطلع کروں گا ۔ دوسرے دن حضرت فانی نے بوقت ملاقات امیر اللغات کی ایک جلد کی چند فروگزاشتیں ان کے سامنے رکھیں ۔ مثلاً فرمایا کہ ’’ اللہ ہی اللہ ہے ‘‘ کے جتنے معانی امیراللغات کے مرتب و مؤلف نے دیے ہیں سب صحیح ہیں مگر یہ ’’زیست سے یاس کلی‘‘ کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے اور یہ معنی اس میں موجود نہیں۔ سند میں انھوں نے حضرت ذوق کا یہ شعر پیش کیا:
دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے
عزیزو اَب اللہ ہی اللہ ہے
انھیں غزل گوئی سے زیادہ دل چسپی تھی۔ ان کی اکثر غزل استاتذۂ سخن داغؔ، حضرت امیرؔ مینائی، آتشؔ ، ذوقؔ، مومنؔ، اور میر تقی میرؔ کی طرح ہیں اور ان سے کسی طرح کم نہیں ۔ دوتین لاجواب خمسے اور چند رباعیات بھی کہیں ۔ قصیدہ میں چوں کہ اہل دنیا کی مدح کرنی پڑتی ہے اس لیے قصیدہ گوئی کو اپنے لیے عار تصور کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ سہرے بھی لکھے اور خوب لکھے۔
اے سبحان اللہ ، اے جزاک اللہ اور اے کہیے کے الفاظ بھی اس میں موجود نہیں ۔
وسیم نے کہا : اے کہیے غلط ہے ۔ حضرت فانی نے فوراً امیر کا یہ شعر سنا دیا :
سنا جاتا ہے اے کہیے ترے مجلس نشینوں سے
کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
پھر وسیم صاحب نے کہا:
’’حضرت جلیل کے اہتمام میں دوسری میری نگرانی میں تھی‘‘ ۔ حضرت فانی فرنے فرمایا :
انشاء اللہ کل اس کی بھی ورق گردانی کروں گا۔ دوسرے دن ملاقات ہونے پر الف ممدودہ میں سے بھی چند محاورے حضرت فانی نے پیش کیے ۔ جو امیر اللغات میں نہیں تھے اور طرہ یہ کہ جلیل کو لکھوں گا کہ دوسری طباعت میں یہ الفاظ بڑھا دیے جائیں ۔ کچھ الفاظ یہاں درج کیے جاتے ہیں :
(۱) اتنی طاقت کہاں بمعنی اتناداغ کہاں ۔ میرکہتے ہیں :
ہمیں بے نیازی نے بٹھلا دیا
کہاں اتنی طاقت کہ منت اٹھائیں
(۲) اڑنا ہوا میں ۔ میرکہتے ہیں :
ضعیف و زار تنگی سے ہیں ہر چند
ولیکن میر اڑتے ہیں ہوا میں
(۳) اٹکنا بمعنی بیع پر قیمت زیادہ مانگنا اور اس میں توقف کرنا ، رکنا ۔ میر نے کہا:
نہ اٹکا ہاے ٹک یوسف کا مالک
وگر نہ مصر سب ملتا بہا میں
(۴) آہاہا ، اور ہو ہو ۔ ظفر کہتے ہیں :
کیا رنگ دکھاتی ہے یہ چشمِ تر او ہو ہو
خونِ جگر آ ہاہا ، لختِ جگر او ہو ہو
(۵) انھیں باتوں کا رونا ہے ۔ اسی کا رونا ہے۔ دا غ نے کہا:
چار باتیں بھی کبھی آپ نے گھل مل کے نہ کہیں
انھیں باتوں کا ہے رونا مجھے رونا کیا ہے
(۶) الٹی ہنسی اڑنا ۔ داغ کہتے ہیں :
اے اشک ڈوب مَر تری تاثیر دیکھ لی
الٹی ہنسی اڑی مری چشمِ پُر آب کی
(۷) آسمان لینا ۔ داغ کہتے ہیں :
اب بھی گر پڑ کے ضعف سے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں
شاعری:
حضرت فانی نے چودہ برس کی عمر سے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی ، پندرہ برس کی عمر میں حضرت مولانا شمشاد غازی پوری کی شاگردی اختیار کی اور ان کی اصلاحات شعرو سخن سے فیض یاب ہوئے ۔
ذوقِ شاعری فطری تھا ، ابتدا میں کم گوئی کے ساتھ دماغی شاعری سے پرہیز کرتے اور صرف اپنے جذبات و وار دات قلب کی ترجمانی کرتے یا احباب کی فرمائشوں کی تکمیل ۔کبھی کبھی فارسی میں طبع آزمائی کرتے ۔ فارسی کے بھی جو اشعار دستیاب ہیں وہ ان کی مشاقی اور قدرتِ زبان و تعبیر کی واضح دلیل ہیں۔ انھوں نے بہت سے مقامی اور ملکی مشاعروں میں شرکت فرمائی اور عوام و خواص سے اپنی شعری فکری صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ وہ زود گو ہونے کے ساتھ پُر گو بھی تھے ۔
ایک مرتبہ ایک دن کے لیے لکھنؤ گئے ۔ شام کی گاڑی سے واپسی تھی ۔ جسب معمول وہاں کے ایک قادر الکلام شاعر جناب افضل صاحب سے جن سے ان کے گہرے مراسم تھے ملاقات کے لیے گیے دورانِ گفتگو حضرت افضل نے کہا:
پرسوں کان پور میں مشاعرہ ہے ۔ طرح یہ مہمل مصرع ہے :ـ
جگر میں ڈھونڈتی پھرتی ہے تیغ ناز قاتل کی
آپ بھی چلیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے طرحی غزل تو نہ کہہ سکیں گے اس لیے کوئی غیر طرحی غزل ہی پڑھ دیجیے گا ۔
حضرت فانی نے معذرت کی اور شام کو ہی گورکھپور روانگی کے ارادہ کا اظہار فرمایا مگر جناب افضل مرحوم کے اصرار ِ پیہم کی وجہ سے ارادہ ملتوی کرنا پڑا ۔ چوں کہ ابھی دوراتیں باقی تھیں اس لیے انھوں نے پہلی شب میں پینتیس اشعار پر مشتمل ایک طرحی غزل کہہ ڈالی پھر جب شام کو جناب افضل کے دولت کدے پر کھانے کی دعوت میں گئے تو غزل مکمل ہونے کی خبردی ۔ افضل صاحب بہت خوش ہوئے ۔ دورانِ گفتگو فرمایا کہ آزادؔکی غزل سب سے اچھی رہے گی ۔ حضرت فانی نے کہا:میں غزل تو نہیں سننا چاہتا ، آپ اس کے بہترین قوافی بتادیجیے تو میں بھی طبع آزمائی کروں ۔ انھوں نے چند قافیے ساحل ، قاتل ، محفل ، بسمل بتادیے ۔ حضرت فانی نے دوسرے شب میں بھی پینتیس اشعار کی ایک اور غزل کہہ ڈالی۔ اور جب افضل مرحوم کو اس کی اطلاع دی تو وہ اس پربھی بے انتہا مسرور ہوے۔
یہ مشاعرہ اتنا طویل تھا کہ دس بجے شب سے شروع ہوکر دوسرے دن پانچ بجے شام کو ختم ہوا ۔ حضرت فانی کی باری چار بجے شام کو آئی ۔ جب دونوں غزلوں میں سے ایک غزل شروع کی تو اس کا جو اثر لوگوں کے ذہن و دماغ پر جما وہ کسی کا نہ جما۔ تمام شعرا طرح پر تضمین نہ کہہ سکے تھے ۔ جب انھوں نے اس پر اپنی تضمین پڑھی تو حضرت افضل ، فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوے اور فرمایا: ’’دنیا میں اس سے بہتر کوئی تضمین نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے تواس مہمل مصرع کو بامعنیٰ بنا دیا ‘‘
تضمین کا مصرع یہ ہے :
کہیں پر رہ گیا ہے چھپ کے شاید چور زخموں کا
جگر میں ڈھونڈتی پھرتی ہے تیغ ناز قاتل کی
حضرت فانیؔ کی غزلوں میں معانی و بیان و بدیع کی چاشنی ہے تو بیانِ عقیدہ کے ساتھ تصوف کے بلند حقائق اسرار و معارف کی جلوہ آرائیاں بھی ، جولانیٔ طبع ، نازک خیالی ، مضمون آفرینی کی فراوانی اور روایات کا بکثرت استعمال توعشق و محبت، سوز و گداز ، دردِ دل ، طنزیات، شوخ نگاری، معاملہ بندی اور رقیب اور اس اوصاف کااچھوتا ذکر بھی ۔ خلاصہ یہ کہ حضرت فانی کے اشعار اپنے اندر وہ تمام خوبیاں سمویے ہوئے ہیں جو ایک شاعر کو اس کے ہم عصروں میں بلند اور موقر مقام عطا کرتے ہیں ۔
مصادر:
(۱) مقدمہ از ثیم ، خلف اکبر آقاے سخن حضرت وسیم خیرآبادی