شناخت

حضرت فانیؔ گورکھپوری: ایک تعارف

ابرار رضا مصباحی

حضرت فانی گورکھپوری کا اصل نام سید شاہد علی اور تخلص فانیؔ ہے، سلسلۂ نسب حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔آپ کے جداعلیٰ سید احمد مکی، سکندر لودھی کے عہدمیں نجف(عراق) سے ہندوستان آئے اوراجودھیا میں مقیم ہوگئے-چند پشتوں کے بعدان کی اولاد پرگنہ سگڑی،ضلع اعظم گڑھ میں منتقل ہوئی ،پھر دو تین پشتوں کے بعدآپ کے خاندان کے ایک بزرگ سید شاہ قیام الدین، گورکھپور میںمقیم ہوگئے۔ اوریہی آپ کے مورث اعلیٰ ہیں اور آپ کی اولاد آج بھی وہیں آباد ہیں۔

 حضرت فانی 27؍ ربیع الاول 1307ھ/20؍نومبر1888ء کو جعفرا بازار، گورکھپور میں پیدا ہوئے،والد گرامی سید شاہ عابد علی سبزپوش تھے۔آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی بھی اعلیٰ تعلیم پائی تھی۔ آپ میں خشیت الٰہی،سادگی،تواضع،مشیخت اورسخاوت فطری طور پر تھی۔ ذہانت و ذکاوت بھی قابل رشک تھی،بچپن سے ہی مطالعے کا وافر ذوق پایا تھا-جس کی بدولت معلومات عامہ کے ساتھ ساتھ دینی وشرعی مسائل کے جزئیات تک آپ کو ازبر تھے-جب کسی علمی و تحقیقی موضوع پر گفتگو کرتے تو علمی نکات کی جھڑی لگادیتے اور اہل علم آپ کے علم اور طلاقت لسانی کی خوب داددیتے۔معروف عالم اور ممتاز صوفی شاعر شاہ محمد عبد العلیم آسیؔ غازی پوری سے ۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء میں بیعت و ارادت حاصل کیے تھے۔۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء میں حضرت آسی نے آپ کو اپنا جا نشیں بناکرخانقاہ رشیدیہ ،جون پور کانویں سجادہ نشیں مقررکیااور ’’شہودالحق‘‘ اور ’’رشید الدین‘‘ لقب تجویز فرمایا۔حضرت آسی کے ۲؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۵ھ/۲۴؍فرور ی ۱۹۱۷ء میں وصال کے بعدباقاعدہ خانقاہ رشیدیہ کی مسند سجادگی کو آپ نے رونق بخشی اوراپنی زندگی کے اخیر تک اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلق اللہ کی اصلاح ، علم و ادب کی سرپرستی اور امورِ رشد و ہدایت میں سرگرم رہے۔ آپ کی چار اولاد تھیں:سید شاہ راشد علی،سید شاہ عارف علی،سید شاہ مصطفی علی اور شاہ سید ہاشم علی- چاروں صاحبزدگان، دینی و عصری علوم سے ہم آہنگ تھے اور اپنے خاندانی علم و فضل کے وارث و امین بھی۔اخیر الذکر صاحبزداے بڑے عمدہ شاعر بھی تھے۔سید شاہ مصطفی علی سبزپوش، علمی ادبی دنیا میں آنیؔ گورکھپوری اور سید شاہ ہاشم علی سبزپوش،جامیؔ گورکھپوری کے نام سے متعارف ہیں۔

حضرت نے خانقاہوں میں تعمیر و توسیع کا سلسلہ شروع کیا-خانقاہوں میں مکانات تعمیر کرائے اور باغ لگوائے-اپنے حلقۂ اثر میں متعدد مدرسے کھلوائے، مسجدیں قائم کیں اورمسافروں کے لیے کنویں بنوائے-گورکھپور میں اپنے آبائی مکان جو اب دارفانی کے نام سے ہے، میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی، جس میں عربی، اردو، فارسی کی ہزاروں کتابیں دور دور سے لاکر جمع کیں،جن میں بہت سے نایاب قلمی نسخے بھی تھے،جن کا وہ رات میں مطالعہ کیا کرتے تھے-ہر ایک شرح و حاشیے پر اپنی رائے اور خاص نکات لکھتے،کتابوں کی حفاظت اور جلدیں درست کراتے- اس لائبریری کو دیکھنے کے لیے اہل علم دور دور سے آتے تھے-آپ کی جمع کردہ کتابوں کا ایک ذخیرہ معروف لائبریری ’’خدابخش لائبریری،پٹنہ‘‘میں’’ سید شاہد علی سبزپوش کلیکشن‘‘ کے نام سے موجود ہے۔اہل علم اور اسکالرس برسوں سے ان سے مستفید ومستفیض ہورہے ہیں- آپ نے اپنے شیخ کامل اور شاعری کے استاذ حضرت آسیؔ غازی پوری کے دیوان’’عین المعارف ‘‘کو جدید ترتیب وحواشی ساتھ شائع کرایا،اور اس پر ایک مفصل اور معلوماتی مقدمہ  ثبت فرمایاجس کے ذریعے علمی وادبی دنیا،حضرت آسی کے شاعرانہ فن سے آگاہ ہوئی-  

آپ طلبہ و علما کی کفالت کرتے- آپ کو دعوتیں کرنے اور کھانا کھلانے کا بھی بہت شوق تھا- ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ، لوگوں کے معاملات اور مسائل کو حل فرماتے ،ذاتی، سماجی اورخاندانی جھگڑوں کو نپٹاتے اور کسی کادل دُکھانے کو گناہ کہتے-مریدوں کے یہاں جانے سے گریز کرتے۔غیبت کرنے والے کو ہٹا دیتے یا پھر خود اٹھ جاتے اور عبادت وریاضت لوگوں سے چھپ کرکرتے-آپ کے ہاتھوں کثیر تعداد میں بیعت و ارادت حاصل کر کے کمالات پر فائز ہوئے،جن میں سید شاہ مصطفی علی سبزپوش آنی گورکھپوری ،سید شاہ ہاشم علی سبز پوش جامی ؔ گورکھپوری، شاہ عبد الشکور سادات پوری ،شاہ سکندرعلی پورنوی،سیدشاہ حسین سجادجعفری پٹنوی،سید شاہ ایوب ابدالی نیر ؔ اسلام پوری،شاہ غلام عبد القادر وفاؔ پورنوی وغیرہ شامل ہیں۔۱۹۳۷ء میں حج و زیارت حرمین سے بھی مشرف ہوئے تھے۔

آپ ایک شیخ کامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب فن اور بلند پایہ شاعربھی تھے،آپ کا تخلص فانیؔ تھا-ذوق شاعری تو فطری تھا،البتہ چودہ سال کی عمر سے غزل گوئی کی طرف متوجہ ہوئے-جب جوان ہوئے اور فکر پختہ ہوئی تو حضرت آسی اور ان کے شاگردشمشاؔدلکھنوی سے مشورۂ سخن کرنے لگے-آپ کے عہد کے مستند شعرا آپ کی نغز گوئی،خوش فکری اور فنی کمالات کے معترف تھے-ان میں مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی،جگرؔ مرادآبادی،بے خودؔ دہلوی،مرزاثاقبؔ لکھنوی قزلباش، حسرتؔ موہا نی اور ریاضؔ خیرآبادی خاص طور پر قابل ذکر ہیں-ان شعرا سے آپ کے خصوصی مراسم بھی تھے اور ملاقتوں کا سلسلہ بھی ۔بے خودؔ دہلوی سے خصوصی تعلق پر آپ کا ایک مقطع،جس میں آپ نے اپنے اور بے خود ؔکے تخلص کو کمال فن کے ساتھ باندھا ہے   ؎         

چل بسا فانیؔ دل گیر بقول بے خودؔ

ظلم اس طرح بھی کرتا ہے کسی پر کوئی

حضرت وحیدالدین بے خودؔ دہلوی جب حج سے لوٹے تو احباب نے ایک طرحی مشاعرہ رکھا -طرح یہ تھی  ع        

دعائیں مانگتے تھے ہم الٰہی حج اکبر ہو

یہ مصرع بے خود کا ہی تھا اور انھیں حج اکبر بھی نصیب ہوا-اس طرح پر حضرت فانیؔ نے بھی تضمین کی،کہتے ہیں:

مبارک حضرت بے خودؔ کو طوف قبر اطہر ہو

دعائیں مانگتے تھے ہم الٰہی حج اکبر ہو

الٰہی جب تک اس عالم میں دور  ہفت اختر ہو

وحیدالدین چرخ شاعری پر مہر انور ہو

اپنے عہد کے یہ کبار شعراآپ کو مشاعروں میں شرکت پر اصرار کرتے ،مگرآپ کی خانقاہی مصروفیات اور فقیرانہ افتادکی وجہ سے آپ شرکت سے معذرت چاہتے،تاہم بعض مشاعروں میں اپنی غزلیں بھیج دیا کرتے-’’دیوان فانی‘‘کے طویل مقدمے میںاثیم خیرآبادی(خلف اکبر حضرت وسیمؔ خیرآبادی) نے اسی طرح کے ایک واقعے کو نقل کیا ہے کہ حضرت جگر بسوانی سے جب آپ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے یاد دلایا کہ:

’’( اپنے وطن بسواں کے ایک مشاعرے میں )آپ کو تکلیف دینا چاہی تھی ،خیر آپ تو معذور رہے،غزل پہنچی تھی-یہ شعر تو گویا حاصل مشاعرہ رہا    ؎

اے دست کرم ہمت سائل کی ذرا شرم

کونین سے بھرتے نہیں دو ہاتھ دعا کے

اثیم ؔخیرآبادی لکھتے ہیں:

’’واقعی شعر ہی کچھ ایسا ہے کہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے-معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ ایک مشاعرہ کیا،یہ شعر اپنے مضمون کی نوعیت کے اعتبار سے اس زمین میں جتنے مشاعرے ہوں ،سب کا حاصل رہے گا-مضمون کی تخلیقی حیثیت ،نفس مضمون کی رفعت،بیان کی لذت، انداز بیان کی ندرت اور فکر کی بلاغت شعر کو حد کمال تک پہنچاتی ہے-‘‘

 [دیوان فانی،ص:۳۲]

ڈھائی سو سے زائد صفحات پر آپ کا دیوان’’دیوان فانی‘‘کے نام سے وسیمؔ خیر آبادی کے خلف اکبر اثیم ؔ خیر آبادی کے علمی و تحقیقی اور مبسوط مقدمے کے ساتھ خانقاہ رشیدیہ جون پور کے زیراہتمام شائع ہو چکا ہے-اس کی دوسری اشاعت انجمن فیضان رشیدی کلکتہ سے ۲۰۰۱ء میں ہوئی -اس میں نعت، سلام، غزل، رباعی، تضمین، قطعہ ،مخمس وغیرہ مختلف اصناف شامل ہیں –

آپ 6؍ذی قعدہ1371ھ/ 27؍جولائی 1952ء کو مالک حقیقی سے جاملے اوررشید آباد،ضلع جون پور میں مدفون ہوئے-

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

شناخت

مبلغ اسلام حضرت علامہ محمد عبد المبین نعمانی مصباحی— حیات وخدمات

از:محمد ضیاء نعمانی مصباحی متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی اور قوم
شناخت

فضا ابن فیضی شخصیت اور شاعری

17 جنوری آج مشہور معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم وفات ہے فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی