حضرت آسی غازی پوری: احوال و کمالات
ابرار رضا مصباحی
علم و تصوف کی دنیامیں قطب العرفا و العشاق حضرت سیدناشاہ عبدالعلیم آسیؔ سکندر پوری ثم غازی پوری قدس سرہ(متوفی:2جمادیٰ الاولیٰ 1335ھ/25فروری1917ء) آٹھویں سجادہ نشیں:خانقاہ رشیدیہ جون پور) کی شخصیت بڑی اہمیت و حیثیت کی حامل ہے۔ آپ چودہویں صدی ہجری کے نامور عالم و فقیہ، جلیل القدر عارف و صوفی، عظیم المرتبت داعی و مصلح، کامل الفن حکیم و طبیب، قادر الکلام شاعر و سخن ور اور اخلاق و تصوف کے عظیم ترجمان و علم بردار تھے۔
آپ فطری طور پر انتہائی ذہین وفطین تھے۔ خدا ے تعالیٰ نے بلا کی ذکاوت وذہانت آپ کے اندر ودیعت فرمائی تھی۔ ’’ قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ کوئی کتاب ایک مرتبہ پڑھ جاتے تو وہ حفظ ہوجاتی اور ابتدائی کتابیں تو آپ نے محض دوسروں کو پڑھتے ہوئے سن کر ہی یاد کرلی تھیں‘‘-آپ اپنی ابتدائی تعلیم یعنی فارسی وعربی کی کچھ کتابیں اپنے پر نانا حضرت مفتی احسان علی قاضی پوری سے پڑھتے ہو ئے قطب الاقطاب حضرت شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری (متوفی ۱۰۸۳ھ) کے مئے کدہ علم و معرفت میں حاضر ہوئے اور آستانۂ عالیہ رشیدیہ اور مدرسہ رشیدیہ میں رہ کراس سلسلہ و خانقاہ کے جامع کمالات بزرگ قطب الہند حضرت شیخ غلام معین الدین رشیدی جون پوری (متوفی ۱۳۰۷ھ ) چھٹے سجادہ نشیں : خانقاہ رشیدیہ جون پور سے تعلیم شریعت و طریقت حاصل کیے، اس کے بعد ’’مدرسہ حنفیہ جون پور‘‘ میںمشہور عالم وفاضل حضرت علامہ عبدالحلیم فرنگی محلی لکھنوی سے علوم معقولات و منقولات کی بقیہ کتابیں پڑھیں اورحضرت مفتی یوسف فرنگی محلی لکھنوی سے بھی علمی استفادہ کیا۔
اساتذہ کو ناز:
آپ کے اساتذہ میں حضرت قطب الہند، حضرت مفتی احسان علی قاضی پوری، علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی لکھنو ی، حضرت مفتی محمد یوسف فرنگی محلی لکھنوی جیسے نامور علما و فضلا اور مصنفین و محققین شامل ہیں- آپ اپنے اساتذہ کے ہمیشہ محبوب نظر رہے؛ بلکہ ان حضرات کو آپ کی کمال ذکاوت اور اپنے شاگرد پر بڑا فخر تھا، آپ کے فہم رسا اور ذہنی استعداد پر سب حیران اور رطب اللسان تھے- مرتب ِدیوان آسی حضرت فانی گورکھ پوری اپنے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں:’’مولوی وکیل احمد صاحب سکندر پوری بھی جو حضرت کے چچا زاد بھا ئی تھے اور حیدر آباد دکن میں جج تھے، مولوی عبد الحلیم صاحب سے پڑھتے تھے، وہ جب کوئی اعتراض کرتے تھے تو مولوی عبد الحلیم صاحب غور و فکر کے بعد اس کا شافی جواب دے دیتے تھے، مگر جب حضرت ڈوب کر کوئی اعتراض کرتے تھے تو مولوی عبد الحلیم صاحب دو دو ہفتہ غور و فکر کے بعد کوئی کمزور سا جواب دیتے تو حضرت فرماتے کہ ’’حضرت آپ استاد ہیں کہیے تو مان لوں مگر میرے اعتراض کا جواب نہ ہوا -‘‘ مولوی عبد الحلیم صاحب فرماتے کہ ’’کہتے تو صحیح ہو جواب نہیں ہوا، اب تم خود اپنے اعتراض کا جواب دو !‘‘ اس کے بعد حضرت خود اپنے اعتراض کا جواب دیتے تو مولوی عبد الحلیم صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے ‘‘۔
ذوقِ مطالعہ:
آپ کے اندر کتب بینی اور مطالعے کا شوق و ذوق حد درجہ تھا، انہماک واستغراق کا یہ عالم کہ کتابوں کے علاوہ آپ کی توجہ کہیں نہیں جاتی تھی۔’’ استعداد بڑھانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ مطالعہ کے وقت پہلے شرح و حاشیہ پر نظر نہیں ڈالتے تھے، متن سے غور و خوض کر کے مطالب و اعتراضات و جوابات کی ترتیب دے لیتے تھے، تب حواشی و شروح پر نظر اٹھاتے تھے-اگر اپنے اعتراض و جواب کو لکھا ہوا پاتے تھے تو بہت خوش ہوتے تھے – بڑے بڑے منتہی طلبہ آپ سے شوقیہ پڑھتے تھے‘‘۔
درس و تدریس:
آپ جب علوم و فنون کی تحصیل سے فارغ ہو ئے تو اب درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور مدرسہ رشیدیہ جون پور کے طلبہ کو درس دینے لگے -’’تدریس کے وقت کتاب آپ کے سامنے نہ ہو تی بلکہ اسی طرح زبانی لڑکوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ خانقاہ رشیدیہ جون پور کا مدرسہ آپ ہی کے زیر اہتمام تھا، آپ جو ایک بار پڑھا دیتے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذہن نشیں ہو جاتا، پڑھانے کا طریقہ ایسا جاذب تھا کہ ایک بار حضرت سے درس لینے کے بعد کو ئی لڑکا کسی دوسرے استاد کی طرف رجوع نہ ہوتا، یہاں تک کہ حکیم سید جعفر حسین کاشفؔ لکھنوی جب کچھ دنوں کے لیے لکھنؤ جانے لگے تو اپنے شاگردوں کو حضرت کے سپرد کر گئے کہ ان کو طب پڑھا دیجیے، حضرت فرماتے تھے کہ میں شب کو مطالعہ کیا کرتا تھا اور صبح کو درس دیا کرتا تھا-جب حکیم صاحب واپس آئے تو کوئی شاگرد ان کے پاس جا نے کو تیار نہیں ہوا‘‘۔
ایک نمونۂ عمل قول زریں:
آج کے مدارس و جامعات میں مسند درس و تدریس پہ فائز ہونے والے اساتذہ اور ان کی صحبت میںتعلیم و تربیت حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے آپ نے ایک دستور العمل کے طور پر ارشاد فرمایا ہے جو یقینا قابل تقلید اور نمونۂ عمل ہے : ’’جس نے علوم عربیہ پڑھیں اور اس قابل نہ ہوا کہ دوسروں کو طب پڑھا سکے تو اس نے خاک نہیں پڑھا‘‘۔
مذکورہ قول زریں اپنے اندر بے پناہ جامعیت و معنویت رکھتا ہے، یہ جہاں طلبہ کے اندر علمی گہرائی و گیرائی اور فنی صلاحیت و لیاقت پیدا کرنے کی دعوت دیتا ہے، وہیں علوم دینیہ وعربیہ کی اہمیت و افادیت کو بخوبی واضح کرتا ہے-
طبابت میں حیرت انگیز کمال :
آپ کی خداداد صلاحیت، انتہائی ذکاوت اور کمال بصیرت کا ہی نتیجہ ہے کہ محض علم طب کی کتابوں کے مطالعے سے ہی اتنی زبردست استعداد اور معلومات بہم پہنچائی کہ ایک کہنہ تجربہ کار اور ماہر حکیم کی طرح مطب چلانے لگے جب کہ آپ نے طب کا ایک حرف بھی کسی استاد سے نہیں پڑھا اور نہ ہی کبھی کسی مطب میں بیٹھے- آپ کی تشخیص اعلیٰ پایے کی ہوتی تھی، قلم سے جو نسخہ نکلتا تھا تیر بہدف ثابت ہوتا تھا اور شفاکا یہ حال کہ جو مریض بھی آتا وہ بامراد اور کامیاب ہو کر واپس ہوتے-حضرت فانی گورکھ پوری فرماتے ہیں کہ ’’آپ کی طبابت کایہ حال تھا کہ بارہ سو پندرہ سو آدمیوں کا مجمع مطب میں جمع ہوا کرتاتھا، اشراق کے بعد مطب میں بیٹھا کرتے تھے اور ظہر کے وقت فرصت ملی تھی- دونوں ہاتھو ں سے نبض دیکھتے جاتے تھے اور چار چار کاتب نسخہ لکھتے جاتے تھے- ہندوستان بھر سے جو مریض مایوس ہوکر آپ کے پاس آتے تھے چند روز ہی میں شفایاب ہوکے خوشی خوشی واپس جاتے تھے-یہ بھی خصو صیت تھی کہ حضرت (آسی) فیس نہیں لیتے تھے‘‘-
معمولات و روایات کی پابندی :
بحث و مباحثے میں کبھی نہ پڑے بلکہ اس سے سخت گریز کرتے، نام و نمود اور شہرت و عزت سے نفور رہے، تواضع و انکساری پر قائم رہے اور دوسروں کو اس کی تعلیم و تلقین کرتے، آپ نے بزرگان دین اور سلاسل طریقت کی زیارت اور ان سے کسب فیض کے لیے دورو دراز مقامات کے سفر کیے، دعوتی و تبلیغی امور کی انجام دہی کے لیے کئی اہم دورے کیے، لوگوں کو ہمیشہ اخلاق وتعلیم اور انسا نیت و محبت کا درس دیا، مریدین کے گھر بن بلائے کبھی نہ جاتے، زندگی بھر فقر و قناعت پر قائم رہے، اپنی ولایت و بزرگی کو طبابت کے پردے میں چھپائے رکھا، اظہار کرامت سے سخت پرہیز کیا، تا حیات درس و تدریس کے فرائض انجام دے کر علوم و فنون کی اشاعت میں حصہ لیا، امانت و دیانت داری سے رشد و ہدایت اور خانقاہی امور کو انجام دیا، مریدین و متوسلین کی تربیت و تزکیہ کر کے کمالات سے سرفراز کیا، سلسلہ ٔ رشیدیہ جون پور کی تعمیر و توسیع کرکے خاطر خواہ اسے ترقی دیا-
تصوف و طریقت کی اشاعت:
صوفیہ کا طریقہ ہمیشہ سے رشد و ہدایت، تربیت و تزکیہ، محبت و انسانیت، صبر و قناعت اور خدمت خلق کا رہا ہے، ان کے یہاں انسانیت نوازی اور دل جوئی سے بڑھ کر کوئی ثواب نہیں ہے- آپ چودہویں صدی ہجری میں تصوف و طریقت کے عظیم علم بردار اور متقدمین صوفیہ کے مشن کے بڑے ترجمان تھے، آپ کی اہم شناخت علم و تصوف کے حوالے سے ہی زیادہ ہے- یہی وجہ ہے کہ آپ ایک عظیم عالم و فقیہ ہونے کے با وجود دنیائے علم و تصوف میں ایک عارف کامل، شیخ وقت اور صوفی شاعر کی حیثیت سے زیادہ متعارف ہیں، اور آپ کے القابات عالیہ بحر الاسرار، قاسم الا نوار، قطب العرفا و العشاق اسی کے غماز ہیں -آپ نے زندگی بھر رشدو ہدایت کا اہم فریضہ نبھایا، لوگوں کو اخلاق و محبت کی تعلیم و تلقین کی، حسن سلوک اور خدمت خلق پر کافی زوردیا، خاص طور پر آپ نے تصوف کوقالب شعر و ادب میں ڈھال کراس کی اہمیت کو اور اجا گرکر دیا ہے اور اپنی صوفیانہ و عارفانہ شاعری کو کمال و تمام تک پہنچا دیا ہے- علمی و دینی اور اخلاقی و روحانی اعتبار سے سلسلہ ٔ رشیدیہ کے فروغ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ، یہی وجہ ہے کہ آپ اس سلسلے کے نامور بزرگوں اور مشائخ میں آتے ہیں، آپ نے با کمال خلفا و مریدین پیدا کیے جو ملک و بیرون ملک میں جا کر رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیے اور سلسلۂ رشیدیہ کے دائرہ ٔدعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کو دور دور تک پھیلائے- غرض کہ آپ نے علمی و روحانی صلاحیت، صوفیانہ شاعر ی، حکمت و مصلحت اور خاموش مزاجی کے ساتھ عملی اور نظری ہر اعتبار سے تصوف کے فروغ میں اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔
شعرو ادب:
آپ کی خدا دا صلاحیت، علمی لیاقت، فنی بصیر ت، اخاذ طبیعت اورزبان و بیان پر قدرت نے آپ کو ایک فقید المثال اورقادر الکلام شاعر بنادیا تھا، شعر وادب میں کمال و درک حاصل کر نے سا تھ ساتھ اس فن میں آپ نے بڑی یادگار اور قابلِ قدر چیزیں بھی چھوڑیں ہیں – روایتی انداز میں آپ نے عاصیؔ تخلص اختیار کرکے شعرگوئی شروع کردی تھی؛ لیکن اپنے شیخ ومرشد کے حکم سے آسیؔ کا تخلص اپنایا اور پھر باقاعدگی سے اس فن میں اپنی علمی و فکری جولانیت کا مظاہرہ کیا-آپ کو فن شاعری میں حضرت شاہ غلام اعظم افضل ؔ الہ آبادی قدس سرہ، سجادہ نشیں دائرہ شاہ اجمل الہ آباد(ارشد تلمیذ شیخ امام بخش ناسخ ؔ لکھنوی) سے تلمذ حاصل ہے -آپ کے کلام مسائل تصوف کے رموزونکات سے مزین ومعمور ہیں، جذبات وخیالات کی پاکیزگی، زبان وبیان کی صفائی اور شعرو اد ب کی تمام تر جلوہ سامانیاں موجود ہیں-آپ کی تخلیقات اور اشعار کے مجموعے کو آپ کے مرید و خلیفہ شہود الحق حضرت سید شاہ شاہد علی علیمی سبز پوش فانی ؔ گورکھپوری قدس سرہ( نویں سجادہ نشیں خانقا ہ رشیدیہ جون پور) نے ’’عین المعارف‘‘ معروف بہ ’’دیوان آسی ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے جس کو علمی ادبی حلقوں میں بے حد سراہا گیا ہے، اس نے ارباب زبان وادب اور صاحبان سلوک و معرفت کو حیرت وتعجب میں ڈال دیا ہے-
معاصرین کا اعتراف:
اپنے عہد کے مشاہیر علما ومشائخ نے آپ کی علمی و روحانی شخصیت اور ممتاز شعرا وادبا اور نقاد و حکما نے آپ کی شعری و ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کیا ہے -علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی لکھنوی، مفتی یوسف فرنگی محلی لکھنوی، مجنوںؔ گورکھپوری، فراقؔ گورکھپوری،مولانا محمد علی جوہرؔ، مجاہد آزادی عارف ہسویؔ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولا ناخیر بہوروی سمیت نامور علما و دنشوران نے آپ کی علمی شوکت اور شاعرانہ عظمت کو سراہا ہے۔
آپ کی علمی و روحانی شخصیت اور شعری و ادبی مقام کو آپ کے عہد کےنامور علما و مشائخ اور ممتاز ادبا و نقاد و حکما نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ سراہا بھی، جن میں علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی، مفتی یوسف فرنگی محلی، مجنوںؔ گورکھپوری، فراقؔ گورکھپوری، مولانا محمد علی جوہرؔ، مجاہد آزادی عارف ہسویؔ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولا ناخیر بہوروی شامل ہیں۔
حکیم محمد اسحاق حاذقؔ موہانی جو آپ کے خاص احباب میں سے تھے اور ان کے دیوان’’مدینۂ نعمت‘‘ کو حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی قدس سرہ اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ دیوان بارگاہ رسالت میں مقبول ہو چکا ہے ’’حکیم صاحب سے جب کوئی کہتا تھا کہ حضرت آسی ؔ نے نہ تو کسی سے طب پڑھی نہ کسی کے مطب میں بیٹھے اور شفا کا یہ حال ہے جو مریض ان کے ہاتھ میں آیا وہ آناً فاناً صحت یاب ہواتو وہ فرماتے کہ ارسطو اور بو علی سینا کو کس نے طب پڑھائی تھی؟ یہ ان دماغ کے لوگوں میں ہیں جو طب ایجاد کریں، ان کو استاد کی کیاضرورت ہے ؟‘‘۔
علامہ کیفیؔ چریا کوٹی نے آپ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہو ئے بہترین انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ’’حضرت آسی اپنے وقت کے سجادہ ٔ شاعری کے شیخ اعظم تھے، تصوف کی شاعری میں ان کا جو رنگ ہے، ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی ان کا مثل نظر نہیں آتا‘‘۔
غالب کا اعتراف و استعجاب:
آپ کی ادبی و فکری جولانیت، زبان وبیان قدرت و مہارت، کلام کی معنویت و اہمیت اور اس میں شفتگی وسنجیدگی کو سن کر غالبؔ بھی عالم استعجاب میں پڑگئے اور آپ کی ہمہ صفات شخصیت کا برملا اظہار واعتراف کیا- چناںچہ آپ نے اپنی چند غزلیں مولوی عبد الصمد صمدؔ غازی پوری کو دے دی، مولوی صاحب خود دہلی گئے تو غالب ؔ سے ملے اور وہ غزلیں سنائیں-غالب ؔ دم بخود سنتے رہے، اس کے بعد فرمایا کہ ’’اللہ اللہ ایسے لکھنے والے اب بھی ہندوستان میں موجود ہیں؟‘‘۔ چودہویں صدی ہجری میں تصوف، صوفیہ اور صوفیانہ شاعری کے حوالے سے جب جب تذکرہ ہو گا، اس میں حضرت آسیؔ غازی پوری کا نام نمایاں ہو کر آئے گا، بلکہ تاریخ تصوف ان کے بغیر نامکمل سمجھی جائے گی-
تصانیف:
آپ نے اپنی ہمہ گیر مصروفیات کے با وجود کچھ نقوش قلم بھی چھوڑے ہیں جو کافی اہم اور قیمتی ہیں، دوران تدریس اپنے تلامذہ کی تعلیم کے لیے خود انہی کے نام سے منسوب نحو، صرف، منطق مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتابیں تصنیف و تالیف فرمائیں،جن میں مکاتبات عارفین ، فوائد جوہریہ، سراج الصر ف، فوائد محمدیہ، فوائد سراجیہ، رسالۂ فریدیہ، رسالۂ احمدیہ وغیرہ شامل ہیں،ساتھ ہی درسی کتابوں پر حواشی و شروح بھی لکھی ہیں جو غیر مطبوعہ اور نایاب ہیں۔ خالص صوفیانہ اسرار و کنایات اور فوائد نکات پر مبنی عین المعارف (دیوان آسی) کے نام سے شعر و ادب میں ایک اہم اضافہ فرمایا-
کمالات و کار نامے
آپ عالم وفقیہ، منطقی و فلسفی، عارف وصوفی، واعظ و مصلح، داعی و مبلغ، حکیم و طبیب، مصنف وشاعر اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے آٹھویں سجادہ نشیں غرض کہ مختلف خوبیوں اور کمالات کے جامع تھے، آپ نے دینی و مذہبی، علمی و ادبی، سماجی و معاشرتی مختلف میدانوں میں اپنی گراں قدر خدمات پیش کیں، جن کی علمی و درسی صلاحیت کی علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی لکھنوی، مفتی یوسف فرنگی محلی لکھنوی جیسے نامور اور باکمال اساتذہ نے داد و تحسین فرمائی- درس و تدریس اور تربیت و تزکیہ کے ذریعے صاحب فضل و کمال خلفا و مریدین اور نامور شعرا و تلامذہ پید کیے، مختلف علوم و فنون پر مشتمل قابل قدر رسالے تحریر فرمائے، عین المعارف کی شکل میں شائقین علو م طریقت و معرفت کو عمدہ سامان اور تحفہ عطا فرمایا، ادبی ذخیروں اور قابل قدر دواوین میں ایک اہم اضافہ کیا اور عارفانہ و صوفیانہ شاعری کو فروغ دے کر ایک ممتاز اور نمایاںمقام حاصل کیا، چودہویں صدی ہجری میں تصوف و سلوک کی بہترین ترجمانی و علم برداری کر کے تصوف وصوفیہ کے مشن کو آگے بڑھایا، سلسلۂ رشیدیہ جون پور کی تعمیر و توسیع اور اس کے دائرہ ٔ دعوت و ارشاد کو خلفا و مریدین کے ذریعے ملک و بیرون ملک میں خوب وسیع و عام کیا-
وصال مبارک: ۲؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۳۵ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ مزارِ اقدس محلہ نور الدین غازی پور،یوپی میں مرجع خلائق ہے۔ عرس مبارک ہر سال۲؍ جمادیٰ الاولیٰ کو خانقاہ رشیدیہ جون پور کے زیر اہتمام ہوتا ہے۔قل شریف کا وقت دن کے ایک بج کر منٹ(20:1 )پر ہے۔





