عالمی تجارتی کشیدگی: امریکی ٹیرف کے اثرات اور برطانوی ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد اسٹاک مارکیٹس میں مندی دیکھی گئی، جبکہ بڑی کمپنیوں کے شیئرز کی قدر میں نمایاں کمی آئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے کئی ممالک پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھنے میں آئی۔ ابتدائی گھنٹوں میں ڈاؤ جونز انڈیکس 2.8 فیصد، ایس اینڈ پی 3.3 فیصد جب کہ نیزڈیک، جہاں زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیاں درج ہیں، 4.4 فیصد نیچے چلا گیا۔متعدد بڑی کمپنیوں کے شیئرز کی قدر میں نمایاں کمی آئی، جن میں نائیکی 11 فیصد، گیپ 18 فیصد اور ایمیزون 7 فیصد تک نیچے گر گئے۔ ایپل، جس کی مصنوعات زیادہ تر چین میں تیار ہوتی ہیں، 9 فیصد کمی کا شکار ہوا۔ اسی طرح، شمسی توانائی سے متعلق کاروباری ادارے بھی اس مندی سے متاثر ہوئے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے تجارتی اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وال اسٹریٹ میں موجود ہر شخص کو صدر پر اعتماد کرنا چاہیے۔
ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی کے ردعمل میں برطانیہ نے ان امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کر لی ہے جن پر ممکنہ جوابی ٹیرف عائد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، برطانوی حکومت نے واضح کیا کہ 417 صفحات پر مشتمل اس فہرست میں کسی چیز کا شامل ہونا ضروری نہیں کہ اس پر واقعی محصول لگایا جائے گا۔ اس فہرست میں امریکہ سے درآمد کی جانے والی 27 فیصد مصنوعات شامل ہیں، جن کے برطانوی معیشت پر محدود اثرات متوقع ہیں۔ ان میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے، بچوں کے کپڑے، خام تیل، بندوقیں اور بربن شامل ہیں۔
برطانیہ کی کاروباری برادری سے مشاورت جاری ہے تاکہ امریکی ٹیرف کے اثرات اور ممکنہ جوابی اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ برطانوی بزنس سیکریٹری جوناتھن رینلڈز نے کہا کہ حکومت امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کو ممکن اور مفید سمجھتی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام رہتی ہے تو برطانیہ کے پاس اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے کا پورا اختیار ہے۔
امریکہ کی جانب سے برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد تین ممکنہ اثرات زیر بحث ہیں: قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، روزگار کے مواقع پر منفی اثرات اور شرح سود کی بلند سطح پر برقرار رہنے کا امکان۔برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹامر نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے لیکن قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے پاس دو راستے ہیں: یا تو جوابی کارروائی کرے یا تحمل کی حکمت عملی اپنائے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرا راستہ بہتر ثابت ہوگا۔