ادب سرائے

ایک پتھر کا نسب نامہ

وسیم احمد علیمی

مستقبل واقع ہونے سے بہت پہلے خود کو ہمارے وجود میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔“
(رینر ماریہ رلکے، نوجوان شاعر کے نام خطوط، ساتواں خط، 14 مئی 1904)
مقدس گنگا ندی کے کنارے ایک ٹیلے پر صدیوں پرانا مزار ہے، عرس کا موسم ہے، سیکڑوں کی تعداد میں زائرین روحانیت کی خیرات لینے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ پہاڑی پر مزار سے متصل چھوٹے چھوٹے خالی پرانے ڈھنگ کے مکانات بنے ہوئے ہیں جن میں منتیں ادا کرنے والے اپنے گھروں سے لائے ہوئے ایندھن اور باقی لوازمات سے لنگر پکاتے ہیں، لنگر پکوان کے دھواں سے ان عمارتوں کی دیواریں سیاہ ہو کر اور بھی پرانے پن کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ ٹیلے پر ہر طرف بہت سے بوڑھے اور لمبے درخت بھی موجود ہیں جن کی لٹکتی ہوئی شاخوں پر منتیں مانگنے والوں نے وافر مقدار میں دھاگے باندھ رکھے ہیں، درختوں کے موٹے تنے پر ہزارہا نام کندہ ہیں، آستانے کی چوکھٹ پر مجاور بلی سے کھیل رہا ہے جو ہمک ہمک کر اس کے پیروں سے لپٹتی ہے اور دم ہلاکر شفقت کا اظہار کر رہی ہے۔ مزار کے اندر فاتحہ خوانی کا دور شروع ہے، وقفے وقفے سے ’کعبے کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوں درود‘ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، اگر بتی کی خوشبو سیکڑوں ڈیگوں میں پک رہے پلاؤ گوشت کی بو کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
درخت کی گھنی شاخوں پر پرندوں کی مسلسل چہچہاہٹ ماحول کو اور بھی پر اسرار کر رہی ہے۔ منتوں پر قربان ہونے والے بکروں کے پھینکے گئے لوتھڑوں پر کوؤں کا جھنڈ کالے بادل کی طرح نازل ہوتا ہے اور اپنے حصے کے رزق پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مزار تک پہنچنے کے لیے زائرین کو سیڑھیوں پر ڈیڑھ سو قدم اٹھانے کی زحمت کرنی پڑتی ہے، اس جد و جہد میں اچھے اچھوں کی سانس پھول جایا کرتی ہے، مزار کے داخلی دروازے پر معذوروں اور نادار فقیروں کی ایک لمبی قطار ہے جنہیں زندگی کی باقی سہولیات بھلے ہی میسر نہ ہوں لیکن خیرات کے چند سکے اور لنگر کا دو لقمہ ضرور نصیب ہوجایا کرتا ہے۔مزار کا عقبی منظر اگلے زمانے کی کسی تباہ شدہ بستی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ مزار کے عقب کا ٹیلہ آدھا ادھورا منقطع ہے اور دور سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہوا کے دوش پر قائم ہے۔ عقیدت مند اس بات کو بھی صاحب مزار کی کرامت مانتے ہیں۔ نذر و نیاز، فاتحہ درود وغیرہ سے فارغ ہو کر زائرین مزار کے عقبی حصے کی سیر کرتے ہیں جہاں گنگا ندی کے ساحل پر مال بردار کشتیاں، کودتے نہاتے بچے، ریتیلی زمین پر دور تک اُگی ہوئی سبزیاں، آوارہ گرد کتے، ہنہناتے گھوڑے اور سیلفی لیتے ہوئے نوجوانوں کی موجودگی اس جگہ کو کسی تفریحی اسپاٹ کی پوٹینشیلٹی عطا کرتی ہے۔اور جب قریب سے سیٹی بجاتے ہوئے ریل گاڑی گزرتی ہے تو اس کی گونج سے پورا منظر داستانوی روپ اختیار کر لیتا ہے۔
مزار کے ارد گرد خراب حال آسیب زدہ عورتیں رو رہی ہیں، ماتھا پٹخ رہی ہیں، گیسو بکھیر کر آستانے کی جالی سے لپٹ کر جنات اور شیاطین سے اٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر میں مجاور ان کے سروں کو مور کے پنکھ سے سہلا کر ’ھا و ھو‘ کی صدائیں لگا کر چلا جاتا ہے۔
مزار کے اوپر کئی کئی چادریں اوڑھا دی گئی ہیں جن پر عقیدت سے پیش کیے گئے منوں من گلاب کے پھول بکھرے پڑے ہیں۔ یہ پورا ماحول اس قدر روحانی ہے کہ لا مذہب کی بھی دعا اجابت کا سہرا اور عنایت جوڑا پہن کر آسمانی دنیا کے سفر کو نکلتی ہے۔ انہیں روایتوں کی پاسداری میں ٹیلے پر واقع مزار پر صبح کا سورج طلوع ہو کر شام کو غروب ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سو برسوں سے جاری ہے۔
کسی روتے ہوئے بچے کو گدگدی لگا کر ہنسانے کی کوشش رائگاں ہی جائے گی، ہاں اگر سکسکتے ہوئے کو پیار سے تسلی دی جائے تو بات بن سکتی ہے۔ تو پھر اپنی زندگی کی تمام رعنائیوں کو چھوڑ کر یہاں اس ویرانی میں آئے ہوئے لوگ کیا خود کو محض تسلی دے رہے ہیں؟
٭
اگلے دن ٹیلے کے مزار پر معمول کے مطابق تمام سرگرمیاں جاری تھیں، خاص دوپہری کے وقت آستانے پر زائرین کی بھیڑ اکٹھی ہونے لگی۔ درمیان میں مجاور صاحب کھڑے ہوکر آستانے پر ہندی میں چسپاں کیے ہوئے کوئی نوٹس بلند آواز سے پڑھ رہے تھے اور زائرین ہمہ تن گوش ہو کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش میں تھے۔ زائرین کے چہروں پر بکھرے ہوئے خوف اور غصے کی لکیریں بتارہی تھیں کہ معاملہ بے حد سنگین ہے۔ یہ نوٹس بلدیہ کی جانب سے رات کے اندھیرے میں چسپاں کیا گیا تھا جس میں تحریر تھا:
نوٹس
(جن ہت میں جاری)
”سبھی سمبندھت کو سوچت کیا جاتا ہے کہ یہ مزار جو محلہ،بلیہاری، وارڈ نمبر ۰۱، میونسپل بلیہاری کے ادھیکار چھیتر میں استھاپت پہاڑی ٹیلے پر نِرمِت ہے، وہ میونسپل کارپوریشن بلیہاری کی ملکیتی بھومی پر انادھیکارک روپ ایوم بنا انومتی کے چلایا جا رہا ہے۔ یہ استھل سرکار کی اور سے سویکرت پہاڑی روپ وے یاترا پریوجنا(Hill Ropeway Tourism Project) کے انترگت آتا ہے۔کیندر ایوم راجیہ سرکار کے وکاس شیل وژن کے انوسار، جنتا کی سہولت، روزگار، پریٹن و گرامین ارتھ ویوستھا کو اُنّتی دینے کے منشا سے روپ وے اسٹیشن، ٹکٹ کاؤنٹر، ویو پوائنٹ، اور یاتایات کو سرل کرنے کے نرنے کے ساتھ پریوجنا کا نرمان آوشیک ہے۔ اتہ: میونسپل بلیہاری بذریعہ نوٹس سوچت کرتی ہے کہ اس مزار کو منہدم کیا جانا ہے تاکہ وکاس کا کام وقت پر شروع کیا جا سکے۔ جنتا سے انورودھ ہے کہ دھارمک جذبات کے احترام کے ساتھ جنہت کے وکاس کے لیے اس یوجنا کے نرمان میں سہیوگ کریں۔ مزار کے ساکھش سے سمبندھت اگر کوئی دعویٰ، آپتّی یا دستاویز کسی کے پاس موجود ہو تو یہ نوٹس دینے کی تِتھی سے سات (7) دن کے اندر دفتر میونسپل بلیہاری میں لکھت روپ میں جمع کرائے جائیں۔ انیہ تھا کی استھتی میں، مزار کو بغیر کسی اَگرِم سوچنا کے قانونی دائرے میں منہدم کر دیا جائے گا۔ یہ نوٹس لوک پرادھیکار اتھارٹی کے انومودن سے جاری کیا جا رہا ہے، اور اس پر اعتراض مانیہ نہیں ہوگا۔“
پریشک:
ڈی ڈی سی، ضلعی ترقیاتی شاخ
منسپل کارپوریشن، بلیہاری
گیاپانک: 784
دینانک:23 جولائی 2025
سنچکا سنکھیاں: X-VI/2020
مہر و ہستاکشر
نوٹس پڑھتے ہوئے صدر مجاور کا چہرہ پسینہ سے شرابور ہو گیا۔ عقیدت مندوں کی بھیڑ اکٹھی ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔ علاقائی علمائے کرام، حزب اختلاف کے لیڈران اور مذہبی قسم کے لوگوں کا ایک سیلاب امنڈ پڑا۔چند منٹوں میں اس جزیرہ نما ٹیلے پر افراتفری کا ماحول برپا ہو گیا۔ یہ خبر سن کر علاقے کے سب سے مشہور عالم دین حضرت مولانا مفتی زبریار رضا قادری بھی تشریف فرما ہوئے۔ مفتی زبریار صدر مجاور کے قریبی دوست بھی ہیں اور ان کے مراسم حکومتی اہلکاروں سے بھی خوب مستحکم ہیں۔ مفتی زبر یار بے خوف اور غضبناک عوام کے سامنے ایک چھوٹے سے پتھر پر کھڑے ہوکر اس طرح گویا ہوئے:
”ملت کے نوجوانوں، اولیاے کرام کے چاہنے والو!
آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں، جہاں زمین کی پیشانی پر ایک روحانی چراغ صدیوں سے فروزاں ہے۔ یہ مزار محض پتھر، مٹی،گارے اور چونے کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ ہمارے ایمان، ہماری تہذیب، ہماری عقیدت اور ہماری تاریخ کی گواہی ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں نہ جانے کتنے دلوں کو سکون ملا، کتنی ماؤں نے آنسو پونچھے، کتنے گناہگاروں نے توبہ کی، کتنے نا مرادوں کی امیدیں ثمر بار ہوئیں، کتنے بے اولادوں کو لخت جگر اور نور نظر کا تحفہ نصیب ہوا اور کتنے بے سہارا لوگوں کو سہارا ملا۔ اور آج، حکومت کے ایک ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے اہلکاروں نے ایک کاغذ پر دستخط کر کے اعلان کر دیا کہ اس چراغ کو بجھا دیا جائے، اس ٹیلے کو کھود دیا جائے، اور یہاں تفریح کا بازار سجا دیا جائے۔ کیا ہم اس قوم کے وارث ہیں جس نے اولیاء کے مزاروں پر کھڑے ہو کر دین سیکھا، اور آج انہی مزاروں کو سیمنٹ اور روپ وے کے نیچے دفن کرنے کی اجازت دیں گے؟
امت کے غمخوارو!
ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو مسمار کریں۔ سیاحت کے نام پر روحانیت کو روندا نہیں جا سکتا۔ یہ مزار وہ جگہ ہے جہاں دلوں کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہیں، نہ کہ وہ زمین جہاں سے ہم صرف دولت نچوڑنے کے خواب دیکھیں۔کیا حکومت نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جن کے نام پر یہ زمینیں آباد ہوئیں، آج انہی کو بیدخل کرنے کا حکم دینا کیسا ظلم ہے؟ ہم ترقی کے خلاف نہیں، مگر روحانی قبروں کو بلڈوزر کے نیچے کچل کر جو ترقی آتی ہے، وہ صرف ظاہری ہوتی ہے، باطنی طور پر وہ تباہی ہے۔ یاد رکھیے، قومیں صرف سڑکوں، پلوں اور روپ وے سے نہیں بنتیں، بلکہ ان کی شناخت، ان کے بزرگوں کے نقوش قدم، اور ان کی روحانی بنیادوں سے بنتی ہیں۔ لہٰذا میں، ایک ملی رہنما اور عالم دین کی حیثیت سے، ایک باشعور شہری کی حیثیت سے، اور ایک روحانی وراثت کے امین کی حیثیت سے، حکومتِ وقت سے اپیل کرتا ہوں کہ:
اس مزار کو منہدم کرنے کا نوٹس فی الفور واپس لیا جائے۔
عوامی جذبات اور مذہبی عقیدت کا احترام کیا جائے۔
اگر ترقی کرنی ہے، تو روحانیت کے سائے میں کی جائے، نہ کہ اس کے ملبے پر۔
ورنہ!
یہ ٹیلہ خاموش ضرور ہے، مگر اس کے نیچے ہزاروں عقیدت مندوں کے دل دھڑکتے ہیں،
اور اگر ان دلوں کو زخمی کیا گیا، تو یہ خاموشی احتجاج بن جائے گی۔“
حضرت زبریار کی تقریر سن کر عقیدت مندوں میں زبردست جوش ابل پڑا اور پوری پہاڑی نعرہئ تکبیر و نعرہئ رسالت کی صداؤں سے گونج اٹھی۔
حزب مخالف کے ایک لیڈر اور ایم ایل اے عہدہ کے امیدوار پنٹو سنگھ بھی اپنی موجودگی اور حمایت کا اظہار کرنے یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ وہ عوامی جذبات اور ان کے خوف و غصے کے ملے جلے احساسات سے ابھرنے والے زخم پر مرہم رکھتے ہوئے گویا ہوئے:
”بھائیو اور بہنو!
ہم یہاں کسی مذہب، کسی ذات یا کسی پارٹی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے ایمان، اپنی پہچان، اور اپنی مٹی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔یہ مزار صرف اینٹ اور گارے کا ڈھانچہ نہیں ہے،یہ شردھا کا سنگم ہے، صبر اور شانتی کی پناہ گاہ ہے،اور جسے چپ چاپ توڑنے کا خواب سرکار دیکھ رہی ہے،وہ خواب ہم پورا نہیں ہونے دیں گے!میں پنٹو سنگھ،ایم ایل اے کا امیدوار نہیں،آج آپ سب کی آواز بن کر کھڑا ہوں،اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میری سانس چل رہی ہے،اس مزار پر کوئی بلڈوزر نہیں چلے گا!ہم ترقی کے خلاف نہیں،مگر ایسی ترقی نہیں جو شردھا کے ملبے پر کھڑی ہو۔یاد رکھو،اگر حکومت نے اس فیصلے کو واپس نہیں لیا،تو یہ عوام کا سیلاب ووٹ کے ذریعے ان کی کرسی بہا لے جائے گا!مزار رہے گا!روپ وے کہیں اور جائے گا!عقیدت سے بڑا کوئی پروجیکٹ نہیں!
جے ہند، جے بھارت!“
اس دوران عقیدت مندوں میں ایک بے نام احتجاج کی لہر دوڑنے لگی اور حکومت کے خلاف نعربازی شروع ہو گئی۔ صدر مجاور حالات کے بے قابو ہوجانے کے انجانے خوف سے سہمے ہوئے تھے۔ لیکن ایسے موقع پر ان کی خاموشی عوام کو مزید غضبناک بنا سکتی تھی لہذا انہوں نے نپے تلے الفاظ میں بھیڑ کو تسلی دینے کی کوشش کی اور مزار کا تاریخی و روحانی پس منظر بیان کرتے ہوئے یوں مخاطب ہوئے:
اولائے کرام کے عاشقو! روحانی پیشواوں سے محبت کرنے والو!میں جانتا ہوں کہ آج آپ سب کا دل رنجیدہ ہے، آپ کی آنکھوں میں سوال ہے،اور ہونٹوں پر وہ چیخ ہے، جو برسوں کی عقیدت کو روندنے والی ایک نوٹس کے خلاف ہے۔لیکن میں آپ سب سے پہلے خاموشی، تحمل، اور عزتِ نفس کی گزارش کرتا ہوں۔یہ مزار، جس پر آج سوال اٹھایا جا رہا ہے، یہ کوئی معمولی مقام نہیں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بابا سرکار نے چلہ کشی کی، جہاں ان کے قدموں کی مٹی آج بھی شفا کا سبب ہے، جہاں نہ ذات دیکھی جاتی ہے، نہ مذہب، نہ قوم، نہ علاقہ۔ یہاں وہ بھی آتے ہیں جو ہندو ہیں، وہ بھی آتے ہیں جو مسلمان ہیں، وہ بھی آتے ہیں جنہیں نہ کلمے کی خبر ہے نہ شلوک کی۔ یہ مزار انسانی روحوں کا مرکز ہے، کوئی سیاسی پرچہ نہیں جسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ مجھے افسوس ہے کہ حکومت نے ہماری بات سنے بغیر یہ فیصلہ کیا۔ لیکن ہمیں بھی سوچنا ہے کہ ہم اسے کس انداز میں رد کریں۔ اگر ہم غصے میں آئیں گے، تو ہماری آواز کمزور ہو جائے گی۔ اگر ہم تحمل، حکمت، اور اتحاد سے بات کریں گے، تو ہماری بات سنی جائے گی۔ میرے عزیزو، ہم یہاں لڑنے نہیں،بلکہ اپنے بزرگ کی نشان اورآن کے تحفظ میں آئے ہیں۔ یہ مزار صرف ہمارے باپ دادا کی وراثت نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ میں حکومت سے صاف الفاظ میں اپیل کرتا ہوں کہ: آئیے، بیٹھ کر بات کریں۔ ترقی ضرور کیجیے، لیکن روحانیت کو روند کر نہیں۔ اور آپ سب سے میری گزارش ہے کہ پُرامن رہیے، منظم رہیے، اور اس جدوجہد کو ایک روشن نظیر بنائیے۔یاد رکھو، اگر ہماری بات میں اخلاص ہو، حکمت ہو، اور سچائی ہو، تو بڑے سے بڑا تخت بھی لرز جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔“
سورج ہمیشہ کی طرح اپنی مسافت طے کر رہا تھا، لیکن اس دن اس کی روشنی میں ایک غیر مرئی دھند تیر رہی تھی۔ پہاڑی جزیرے پر ایسی خاموشی پھیل رہی تھی جس کی آہٹ لوگوں نے خواب میں بھی نہیں سنی تھی۔ مزار کے گرد وقت تھم گیا تھا، اور لوگوں کی سانسیں بے آواز ہو چکی تھیں۔ لیکن اس سناٹے میں ایک شور زیر تخلیق تھا — ایک ایسا شور جو صرف نعرہ نہیں تھا، نہ آہ، بس ایک اجتماعی بے یقینی اور بیچینی کی گونج۔
سوشل میڈیا پر کسی نے چند لمحے پہلے ایک ویڈیو اپلوڈ کیا تھا۔ ایک بوڑھی عورت دعا مانگ رہی تھی اور اس کے عقب میں ایک بلڈوزر کا سایہ جھوم رہا تھا۔
بس پھر کیا تھا، خبر اُڑی نہیں، بھاگتی دوڑتی، کانپتی لرزتی، دفتروں، خفیہ فون کالز، وائرلیس پیغامات، اور فیکس مشینوں سے گزر کر بالاخر حکومت کی کھڑکیوں تک پہنچ گئی۔چند لمحوں میں پہاڑی جزیرہ ایک پولیس چھاؤنی میں بدل گیا۔ سفید قمیصوں میں ملبوس اعلیٰ افسران ایسی گاڑیوں میں اترے جو خودان افسروں سے زیادہ چمکدار تھیں۔ سائرن بج رہے تھے، مگر ان کی آواز میں کوئی وحشت نہیں تھی، بلکہ جیسے کسی ناگزیر رسم کا اعلان ہو رہا ہو۔ سب کچھ اتنا منظم، اتنا درست، اور اتنا بے رحم لگ رہا تھا، جیسے یہ سب پہلے ہی سے طے شدہ ہو، جیسے یہ جزیرہ کبھی تھا ہی نہیں۔
پولیس والے جس طرح منظم طریقے سے پوزیشن سنبھال رہے تھے، وہ کسی مشق یا تھیٹر کی عکاسی معلوم ہوتی تھی۔
مزار کے سامنے بلڈوزر کھڑا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دعا مانگ رہا ہو کہ جلد ہی اسے حرکت کا حکم ملے۔ عوام کا ریلا بڑھتا جا رہا تھا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے سب صحن میں بیٹھ چکے تھے۔ مزار کی سیڑھیاں اب صرف سیڑھیاں نہیں رہیں، وہ ایک نئی سرحد تھیں، جہاں انسان اپنی بے بسی کو سینے سے لگا کر کھڑا تھا۔ اور پھر، ایک مائیکرو فون کی بے روح آواز فضاء میں گونجی آواز جو مشینی تھی، جذبات سے خالی، جیسے کوئی کمرے میں بیٹھا کلرک فائل پڑھ رہا ہو:
”دھیان دیں، یہ چھیتر اب پرشاسن کی نین ترن میں ہے۔ آپ سے انورودھ ہے کہ اپنی جگہ خالی کریں، اور قانونی کارروائی میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ فیصلہ جن ہت میں لیا گیا ہے۔اگر آپ نے سہیوگ نہ کیا تو،پولیس کو پراپت قانونی شکتیوں کا پریوگ کرنا پڑ سکتا ہے۔ آنسو گیس، واٹر کینن، اور دانیہ رسورسیس کا پریوگ کیا جائے گا۔یہ آپ کی شانتی کے لیے ہے۔ پرارتھنا ہے کہ پُرامن طریقے سے ہٹ جائیں۔ یہ انتم وارننگ ہے۔“
یہ اعلان سننے کے بعد، کچھ لمحے کے لیے سب کچھ ساکت ہو گیا۔جیسے مزار کی زمین نے ایک گہری سانس لی ہو۔پھر کسی بچے کے رونے کی آواز آئی، اور فضا میں ایک پرانا سوال تیرنے لگا۔کیا امن صرف طاقت کے پہیوں پر چل سکتا ہے؟
شہری لباس زیب تن کیے ہوئے بعض اعلی افسران کی ٹیم دھیرے دھیرے مزار کی طرف بڑھنے لگی، ان کے ساتھ آرکیولاجسٹ، (آثار قدیمہ کے ماہرین) کی سروے ٹیم بھی موجود تھی، عقیدت مندوں نے انہیں مزار کے داخلی دروازے پر ہی روک لیا اور نعرہ بازی کرنے لگے۔
تانا شاہی نہیں چلے گی، نہیں چلے گی نہیں چلے گی!
اپنا نوٹس واپس لو! واپس لو واپس لو!
افسران نے سرکردہ زائرین سے بات چیت کرنے کی ناکام کوشش کی، لیکن عوام مزارکی عقیدت میں فولادی دیوار بن چکی تھی۔ انہیں منہدم کرنے کے لیے بلڈوزر کے پنجوں کی طاقت بھی کافی نہیں تھی، صدر مجاور نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ان کو بنا باخبر کیے حکومت نے جو فیصلہ لیا ہے اس کے نتیجے میں ہونے والے کسی بھی قسم کی بد امنی کے لیے ذمہ دار بھی خود حکومت ہوگی۔ مزار انتظامیہ کو اعتماد میں لیے بغیر اس کے انہدام کا فیصلہ صادر کرنا ایک بے حد غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ لہذا حکومت اپنے فیصلے پر خود عمل کرے میری طرف سے کوئی تعاون نہیں پیش کیا جائے گا۔
گھنٹوں کی بات چیت ارو انتہائی التماس و گزارش کے بعد مجاور نے صرف چنند افسران کو مزار کا سروے کرنے کی اجازت دی۔
سورج جیسے کسی خاموش احتجاج میں ڈوبا ہوا تھا۔ دھوپ تیز تھی، لیکن چمک نہیں تھی، جیسے روشنی پر کوئی پردہ حائل ہو گیا ہو۔
اعلیٰ افسران خاموشی سے، سر جھکائے، چڑھائی کے لیے پہاڑی کی طرف بڑھے۔ ان کے قدموں کی چاپ مٹی پر ایسی محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی پرانی قبر پر نیا کتبہ رکھنے چلا ہو۔ بلڈوزر، بدستور وہیں کھڑا تھا، لیکن اب جیسے اس کا غرور زنگ کھا چکا ہو۔ مزار کی سیڑھیاں ہر قدم پر سوال پوچھتی تھیں تم کون ہو؟ کس اختیار سے آئے ہو؟ کیا تم یہاں کے پوشیدہ اسرار و رموز سے واقف ہو؟
مجاز افسران کے ساتھ خاموش قامت، پیشہ ور ذہن، نپے تلے نوٹ بکس اور ماپنے کے آلات سے لیس محکمہ آثارِ قدیمہ (Archaeology Department) کی بھی ایک چھوٹی ٹیم موجود تھی۔ ٹیلے کی چوٹی پر ایک معمر درخت جھکا ہوا تھا، جیسے کوئی راز چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔
ایک ماہر آثار قدیمہ، عمر چالیس کے قریب، عینک کے پیچھے آنکھیں محتاط مگر تھکی ہوئی، جب ایک سمت مڑ کر کسی کائی زدہ پتھر کو دیکھنے جھکا، تو اچانک وہ لمحہ کسی خواب کی طرح ساکت ہو گیا۔ہلکا سا کریدنے پر پتھر پر بہت مدھم، خراش زدہ مگر شناخت کے قاقبل ہندی میں کندہ ایک دستخط موجودتھا۔اس کے دادا جان کا دستخط۔
اس کی انگلیاں ایک دم رک گئیں۔ جیسے وقت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہو۔ اس دستخط کے ساتھ کچھ حیران کن راز وابستہ تھا،کچھ ظاہر، کچھ گمشدہ، کچھ روح میں چبھا ہوا۔
چند لمحوں تک وہ جھکا رہا، پتھر کو چھوتا رہا، اور پھر جیسے کسی بہت پرانی، بہت دھندلی کہانی کے دروازے کھلنے لگے۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دادا کی آواز پہاڑی کی ہواؤں میں گونجی:
”ہماری نسل بایولوجیکل نظام سے نہیں، ایک فقیر کے کلام سے چلی ہے۔ تمہارے والدین نے برسوں اولاد کی دوا کی، بڑے بڑے اسپتالوں کا چکر کاٹ کر تھک ہار گئے تھے۔ پھر ایک دن کسی مزار پر چلہ کاٹ رہے فقیر کی دعا سے معجزہ ہوا، اور تم پیدا ہوئے۔“
دادا سے یہ قصہ سن کر وہ ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا کرتا تھا۔ فقیر، دعا، مزار، سب کو دیومالائی اور توہماتی فکشن تصور کرتا تھا۔
لیکن آج، یہی جگہ، یہی مزار، یہی در و دیوار، یہی ٹیلہ۔۔۔۔
اسے لگا کہ اس کے جسم کا ہر ذرّہ واپس اپنی مٹی میں پیوست ہو رہا ہے۔ جیسے اس کا جنم، اس کی تاریخ، اس کی ہڈیوں کا جوہر سب یہیں سے تخلیق ہوا ہے۔مزار کے ستون کی طرح وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی نمی تھی، پسینے کی نہیں، کسی بے آواز اعتراف کی۔
ساتھ کھڑے سینئر افسر نے پوچھا:
کچھ ملا کیا شرماجی؟
وہ ذرا سی دیر تک خاموش کھڑا رہا اور پھر آہستہ سے گویا ہوا:
ہاں، ملا ہے۔۔۔شاید وہ جو ہمیں نہیں ملنا چہیے تھا۔
افسر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، جیسے کچھ سمجھنے سے قاصر ہو، پھر نوٹ بک بند کی اور آگے بڑھ گیا۔
مزار کے صحن میں اب بھی عورتیں، بچے، بوڑھے بیٹھے تھے، اور سیڑھیوں پر مرد حضرات مجسمے کی طرح ڈٹے ہوئے تھے جیسے وہ خود کسی آثار قدیمہ کا حصہ ہوں۔
بلڈوزر وہیں کھڑا وقت کا پہیہ شمار کر رہا تھا، اور اب اس کے آس پاس چھوٹا زرد پرچم زمین پر گرا ہوا تھاجس پر لکھا تھا”ترقی سب سے بڑی عبادت ہے۔“
رات گہری ہو چکی تھی، لیکن شرما جی کی میز پر روشنی اب بھی اپنا نور بکھیر رہی تھی۔کھڑکی کے باہر شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا،اور اس کی میز پر دو کاغذ رکھے تھے،ایک وہ جو دفتر سے آیا تھا۔
”فوری کارروائی آوشیک ہے، مزار کو غیر قانونی اتی کرمن قرار دے کر صفایا کیا جائے۔“
اور دوسرا وہ جو اس نے خود لکھنا شروع کیا تھا، شکستہ حروف، بوسیدہ و لرزیدہ الفاظ، جیسے ہر سطر میں اس کا اپنا وجود سانس لے رہا ہو۔
”یہ مزار تاریخ، تہذیب اور شرھا کا کیندر ہے،نہ کیول شردھا کا پرتیک بلکہ سبھیتا کی مثال بھی ہے، اور یہاں موجود بڑے بڑے پرانے پیڑ پریاورن کے سنرکچھن کے ساکچھیہ بھی ہیں۔ ان بوڑھے درختوں کی قربانی دے کر روپ وے اسٹیشن کا نرمان کرنا سرکار کی پریاورن سے جڑی پالیسی کے ورودھ ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ سنسوچت کرتے ہوئے بھاوناتمک کشمکش کا بھی سامنا ہے کہ۔۔۔
وہ رُک گیا۔
کچھ لمحوں کے لیے قلم اس کے ہاتھ میں تھرتھرانے لگا۔
پھر اس نے دوبارہ لکھنا شروع کیا،
”مجھے آج معلوم ہوا کہ میری اپنی زندگی کا جنم بھی شاید اسی صحن میں ہوا تھا۔
میں اس مزار کا بیٹا ہوں، اگرچہ میرے جنم پرمان پتر میں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے، لیکن کیا جس کے پاس اپنے استتویہ کا کوئی حوالہ نہیں اسے ختم کردیا جانا اتنا ہی آوشیک ہے؟
کمرے میں گھڑی کی ٹِک ٹِک کے سوا کچھ نہ تھا۔ دروازے کے باہر حکومت کی گاڑیاں،
اندر کاغذ پر تیرتی ہوئی ایک روحانی گواہی۔
(ایک ماہ بعد)
مزار اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
مگر اس کے چاروں طرف ایک لوہے کی باڑ لگا دی گئی ہے، جس پر ایک بورڈ نصب ہے:
Protected Heritage Site
Entry Restricted Without Permit
عقیدت مند اب بھی آتے ہیں،مگر ہاتھ جوڑ کر باہر سے واپس چلے جاتے ہیں،کچھ لوگ دیوار کو چھو کر دعا مانگتے ہیں، کچھ چپ چاپ کھڑے رہتے ہیں۔صدر مجاور نظر نہیں آتے۔
کہا جاتا ہے وہ شہر چھوڑ چکے ہیں۔کہاں گئے، کسی کو معلوم نہیں۔
شرما جی اب محکمہ میں کام نہیں کرتے۔انہیں ذہنی مریض گھوشِت کر چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مزار کے آس پاس اب بھی رات کے آخری پہر کوئی فقیر آتا ہے، جو دھیمی آواز میں اوراد و وظائف پڑھتا ہے اور پھر چپ چاپ غائب ہو جاتا ہے۔
کبھی کوئی افسر خواب میں دیکھتا ہے کہ سیڑھیوں پر ایک بوسیدہ دستار رکھی ہوئی ہے، جس پر سورج کی کرن پڑتی ہے، اور پھر واپس آسمان کو لوٹ جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، وہ مزار اب بند ہے، لیکن مکمل طور پر مقفل نہیں ہے۔ کیونکہ روحانی مقامات کا جغرافیہ کوئی طے نہیں کر سکتا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی وہاں ہر شب ہوا میں ایک سرگوشی گونجتی ہے۔
”مجھے مت توڑو، ورنہ تمہاری جڑیں ٹوٹ جائیں گی۔“
مزار، فقیر، مجاور، دعا،توبہ، امید، آستانے اور عقیدت و ایقان کی یہ کہانی ختم نہیں ہوئی بس کاغذ سے نکل کر دھوپ، مٹی اور خوابوں میں شامل ہو گئی ہے۔


admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں