غزہ کی ادھوری عیدیں:جدائی، غم اورایک نہ ختم ہونے والی تلاش

عید الاضحی کے موقع پر غزہ کے شہداء کے اہل خانہ نے بے گھری، غم اور جدائی کے کرب میں اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے دردناک خطوط کے ذریعے اپنی ٹوٹی ہوئی زندگی کی جھلک دنیا کے سامنے رکھی۔
عید الاضحی، جو عام طور پر خوشیوں، قربانی اور اتحاد کا تہوار مانا جاتا ہے، غزہ کے ہزاروں خاندانوں کے لیے صرف ایک اور یادگار بن چکی ہے—ایسی یادگار جس میں نہ خوشی ہے نہ عید کا رنگ۔ اسرائیلی حملوں کی زد میں آئے شہریوں کی زندگیاں نہ صرف چھن گئیں بلکہ وہ جذبات بھی ویران ہو گئے جن سے عیدیں جڑتی تھیں۔غزہ کے ایک صحافی، محمد سلیمان، جو خود اس المیے کا حصہ ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ متاثرہ والدین سے بات کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ نہ پائے۔ ان کے مطابق، “ایسے چہروں پر درد لکھا ہوتا ہے جن سے کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے ماں باپ میرے سوالوں پر خاموش ہو گئے، کچھ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور کچھ نے مجھے غصے سے دیکھا۔”ذیل میں وہ خطوط اور پیغامات ہیں جو ان والدین، بیویوں اور بہن بھائیوں نے اپنے پیاروں کے نام لکھے ہیں—ان کے لیے جو عید سے پہلے ہی قربان ہو گئے۔
رسمیہ النجار کا خط اپنے شوہر اشرف النجار کے نام
’’تم میری زندگی کی سب سے بڑی قوت تھے، اشرف۔ اب تم نہیں ہواور یہ عید بھی نہیں ہے، بس ایک خالی دن ہے۔ 6 فروری 2024 کو جب تم شہید ہوئے، ہماری زندگی بکھر گئی۔ ہم پندرہویں بار بے گھر ہو چکے ہیں اور اس بار المواسی میں پناہ لی ہے۔ تمھاری قبر بھی نہیں، صرف وہ کفن بچا ہے جو تمھارے نام کے ساتھ دفن کیا گیا تھا، لیکن تمھارے بغیر۔ میں تمھیں ہر دن تلاش کرتی ہوں، تمھاری لاش، تمھاری خوشبو، تمھاری آواز… سب کچھ۔‘‘
اولا فیض کی پکار اپنے شوہر غسان ابراہیم کے نام
’’غسان، تم پانی دینے گئے تھے اور ہمیں پیاسا چھوڑ گئے۔ خزاعہ میں پائپ لائن مرمت کے دوران تمھیں نشانہ بنایا گیا۔وہ بھی اجازت لینے کے باوجود۔ آج ہم تمھاری یاد میں عید مناتے ہیں، لیکن جانور کی نہیں، اپنی خوشیوں کی قربانی دیتے ہیں۔ الیاس یونیورسٹی پہنچ گیا ہےاور تمھاری بیٹی لایان آج بھی تمھاری آواز کو ترستی ہے۔ تمھاری مسکراہٹ ہماری زندگیوں کا چراغ تھی، جو بجھ چکا ہے۔‘‘
سہیلہ احمد کا درد اپنے جوان بیٹے محمد احمد کے نام
’’محمد، میرے بیٹے، تم گئے تو زندگی اندھیری ہو گئی۔ تمھارا چھوٹا بھائی فوزا اب بولتا بھی نہیں۔ تم اسکول کے بعد کام کرتے، میری خدمت کرتےاور کہا کرتے ‘امی، میں آپ کو رانی بنا دوں گا’۔ اب ہم خیمے میں رہتے ہیں، بے بس، غم میں ڈوبے ہوئے۔ تمھاری قبر تک بھی نہیں جا سکتی۔ تمھاری یاد میری سانسوں میں ہے، لیکن عید کی خوشبو کہیں نہیں۔‘‘
سلیم سلوت کی طرف سے اپنے بیٹے نادی کے لیے
’’نادی، تم وہ بیٹا تھے جو ہر لمحے میری آنکھوں کی روشنی بنے رہے۔ تم نے آخری بار کہا تھا کہ تم نیک نہیں، مگر خدا سے ڈرتے ہو۔ تم ورلڈ سینٹرل کچن میں مدد کر رہے تھے جب تمھیں شہید کیا گیا۔ آج میں تمھاری قمیص پہنے ہوئے ہوں تاکہ تمھاری خوشبو محسوس کر سکوں۔ تمھاری بیٹی نائیہ بار بار تمھیں تلاش کرتی ہے۔ عید کے دنوں میں، ہم بس تمھاری کمی محسوس کرتے ہیں اور ہر طرف صرف تمھاری یاد باقی ہے۔‘‘
محمد الاستال کا پیغام اپنے بھائی عبداللہ کے لیے
’’عبداللہ!تم میرے بھائی ہی نہیں، میرے استاد، میرے محافظ تھے۔ المواسی کے کیمپ میں تمھارے خون کے نشان آج بھی باقی ہیں۔ تم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ہمارا سہارا تھے۔ اب ماں تمھاری خون آلود قمیص سینے سے لگا کر سوتی ہے۔ والد روز روتے ہیں۔ ہم تمھاری غیر موجودگی میں ہر دن ایک قربانی کی طرح گزارتے ہیں، لیکن یہ قربانی صرف جانوروں کی نہیں، بلکہ زندگی کی ہے۔‘‘
یہ کہانیاں صرف چند خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ان ہزاروں لوگوں کی جن کی عید، ان کے پیاروں کی قبروں کے سائے میں گزر رہی ہے، یا ان کی تلاش میں جو ابھی تک واپس نہیں آئے۔ غزہ میں عید الاضحی اب ایک اور دن ہے، جب انسان اپنی خوشیوں کو دفن کرتا ہے اور اپنے عزیزوں کی یاد میں جیتا ہے۔یہ صرف جذباتی اظہار نہیں، ایک اجتماعی درد کا بیان ہے۔ایک ایسا سچ، جو شاید دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے لیکن غزہ کے دلوں میں ہر دن زندہ ہے۔