جنگ کا ایندھن:روس پر پابندیاں، مگر مغرب ہی بن گیا سب سے بڑا خریدار

روس نے یوکرین پر حملے کے بعد توانائی کی برآمدات سے مغربی پابندیوں کے باوجود 883 ارب یورو کمائے، جو یوکرین کو دی گئی مغربی امداد سے تین گنا زیادہ ہے، یوں مغرب خود روس کی جنگی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو دو برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہےلیکن اس کے مالیاتی اور سیاسی پہلو اب بھی مغربی دنیا کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک جانب مغربی ممالک یوکرین کو فوجی، انسانی اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف روس سے تیل و گیس کی خریداری کے ذریعے غیر ارادی طور پر اس جنگ کو طول دینے کے اسباب بھی پیدا کر رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے اب تک روس نے ایندھن کی برآمدات سے تقریباً 883 ارب یورو کا زرمبادلہ حاصل کیا ہے، جن میں سے 228 ارب یورو انہی ممالک سے آئے ہیں جنھوں نے ماسکو پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔روسی معیشت میں توانائی کی آمدنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، کیوں کہ تیل اور گیس اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ بناتے ہیں اور برآمدات میں بھی ان کا تناسب تقریباً 60 فیصد ہے۔ اس آمدن سے روس کو یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے، جو مغرب کے لیے ایک سفارتی اور اخلاقی چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے روسی تیل اور گیس پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہیں، مگر ان کے اطلاق میں یکسانیت اور سختی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یورپی یونین کی کچھ ریاستیں اب بھی ترکی کے ذریعے روسی گیس حاصل کر رہی ہیں، اور ہنگری و سلوواکیہ تک پائپ لائن کے ذریعے خام تیل کی رسد جاری ہے۔
یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ 2024 میں روس کی توانائی سے حاصل ہونے والی آمدن میں گزشتہ برس کی نسبت صرف پانچ فیصد کمی ہوئی، جب کہ خام تیل کی برآمدات سے آمدن میں اضافہ اور پائپ لائن گیس سے آمدن میں مسلسل نو فیصد سالانہ اضافہ جاری رہا۔ روسی حکام کے مطابق، یورپ کو گیس کی برآمدات میں بھی بیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور مائع قدرتی گیس کی فروخت نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ اس کے باوجود، یورپی یونین کی موجودہ پابندیوں میں ایل این جی کی درآمدات شامل نہیں کی گئیں، اگرچہ مستقبل میں 2027 تک روسی گیس سے مکمل انخلا کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیا گیا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ روسی تیل کی رسد صرف براہ راست راستوں سے مغرب تک پہنچ رہی ہو۔ کئی تیسرے ممالک، جیسے ترکی اور بھارت، روسی خام تیل کو ریفائنریوں میں پروسیس کرنے کے بعد اسے مغربی منڈیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ماہرین اس رجحان کو ’ریفائننگ کمزوری‘ کا نام دیتے ہیں، جو ایک قانونی خلا ہے، مگر اخلاقی اعتبار سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، صرف چھ ریفائنریوں نے 6.1 ارب یورو مالیت کا روسی تیل پروسیس کر کے ایسے ممالک کو فروخت کیا ہے جو روس پر پابندیاں لگا چکے ہیں۔ انڈیا کی حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے انڈیا کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا، مگر بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ سب کچھ واضح ہے، مسئلہ صرف مؤثر اقدامات کے فقدان کا ہے۔
مغربی ممالک اس وقت ایک مشکل فیصلے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف وہ یوکرین کی خودمختاری کے حق میں کھڑے ہیں اور روس کی فوجی جارحیت کے خلاف بیانات دیتے ہیں، تو دوسری طرف توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے خوف سے روسی ایندھن پر مکمل انحصار ختم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ توانائی کی عالمی منڈی میں کسی بڑی تبدیلی سے مہنگائی، سپلائی میں رکاوٹ اور سیاسی بےچینی کے خدشات ان کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین کی قیادت اب بھی روسی ایل این جی کی برآمدات پر براہ راست پابندی لگانے سے گریزاں ہے، حالاں کہ یہ ان کے لیے ایک نسبتا آسان قدم ہو سکتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق، 2024 میں یورپی یونین کی کل ایل این جی کھپت میں روسی حصہ صرف پانچ فیصد تھا، جب کہ روس کی ایل این جی برآمدات کا پچاس فیصد یورپی منڈیوں تک جاتا ہے، اس لیے اس رسد کو روکنے سے روسی معیشت پر کہیں زیادہ اثر پڑے گا بنسبت یورپی صارفین کے۔یہ صورت حال ایک دوہری پالیسی کو جنم دے رہی ہے، جہاں مغرب ایک ایسے ملک کی فوجی کارروائیوں کی مخالفت بھی کرتا ہے اور اسی ملک کی سب سے بڑی آمدنی کے ذریعے، یعنی توانائی کی خریداری کے ذریعے، اس کی بالواسطہ معاونت بھی کرتا ہے۔ اس تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہرین نے زور دیا ہے کہ اگر واقعی روس کو اس جنگ سے مالی طور پر کمزور کرنا مقصود ہے، تو مغربی حکومتوں کو صرف بیانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا۔
روس کے سابق نائب وزیرِ توانائی ولادیمیر میلوف اور دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی ایندھن پر موجود پابندیوں کا مؤثر نفاذ ہی واحد راستہ ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روس کی جانب سے پابندیوں سے بچنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ’خفیہ بیڑے‘، شیل کمپنیاں اور انشورنس کا نظام پیچیدہ ضرور ہے، لیکن مغربی حکومتوں کے پاس اسے روکنے کی صلاحیت اور ذرائع موجود ہیں۔ اب صرف سیاسی عزم اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسی جنگ، جسے دنیا بھر میں غیرقانونی اور ظالمانہ قرار دیا گیا، اس کی مالی پشت پناہی کا سلسلہ مؤثر طور پر ختم کیا جا سکے۔