گھریلو کھانے کی عدم فراہمی پر والد بیٹی کی حوالگی سے محروم

سپریم کورٹ نے آٹھ سالہ بچی کی حوالگی ماں کو دے دی کیوں کہ والد پندرہ دن میں بھی اسے گھر کا کھانا نہ دے سکا، جو بچی کی صحت و نشوونما کے لیے ضروری تھا۔
عام طور پر والدین بچوں کی اس شکایت سے پریشان رہتے ہیں کہ وہ گھر کا کھانا نہیں کھاتے اور باہر کے پیزا، برگر یا موہ موہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک انوکھا معاملہ سامنے آیا، جس میں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔عدالت نے ایک والد کو محض اس بنیاد پر آٹھ سالہ بیٹی کی حوالگی سے محروم کر دیا کہ وہ اسے پندرہ دن کے دوران ایک مرتبہ بھی گھر کا پکا ہوا کھانا فراہم نہ کر سکا۔ جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس سنجے کرول اور جسٹس سندیپ مہتا پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بچی سے براہ راست گفتگو کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔
جسٹس مہتا نے فیصلے میں لکھا کہ مسلسل ہوٹل یا ریسٹورنٹ کا کھانا کھانا ایک بالغ شخص کے لیے بھی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، تو پھر ایک ننھی بچی کے لیے یہ کتنی نقصان دہ بات ہوگی۔ ایسے حالات میں بچی کو صحت مند نشوونما اور بھرپور پرورش کے لیے گھر کے بنے ہوئے متوازن کھانے کی ضرورت ہے، جو والد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ اگر بچی کو والد کے علاوہ کوئی دوسرا ساتھ بھی حاصل ہوتا، تو شاید یہ پہلو نظرانداز کیا جا سکتا تھا، لیکن چوں کہ پندرہ دن کے دوران بچی مکمل طور پر والد کے رحم و کرم پر رہتی تھی، اس لیے یہ بات بھی منفی پہلو کے طور پر مدنظر رکھی گئی۔ جب کہ والدہ نہ صرف گھر سے کام کرتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ نانا نانی بھی رہتے ہیں، جس سے بچی کو بہتر سوشل اور اخلاقی ماحول میسر آتا ہے۔
عدالت نے تین سالہ بیٹے کی حوالگی سے متعلق بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا، جس میں بچے کو مہینے میں 15 دن والد کے ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اتنی کم عمر میں بچے کو ماں سے دور کرنا اس کی جسمانی و جذباتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔عدالت نے اس بنیاد پر فیصلہ دیا کہ والدہ کے گھر پر بچوں کو نہ صرف گھریلو کھانا میسر ہے بلکہ ایک معاون اور پُر خلوص ماحول بھی حاصل ہے، جو والد کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے۔آخر میں سپریم کورٹ نے والد کو اجازت دی کہ وہ ہر مہینے کے متبادل ہفتہ اور اتوار کو بیٹی کے ساتھ وقت گزار سکتا ہے، اور ہر ہفتے دو دن ویڈیو کال کے ذریعے بھی بات چیت کر سکتا ہے۔